"JDC" (space) message & send to 7575

پاک بنگلہ دیش دوستی؟

پاکستان اور بنگلہ دیش کے آپسی تعلقات کے حوالے سے گزشتہ عشرہ بہت ہی ماٹھا رہا۔ باہمی تجارت مسلسل گراوٹ کا شکار رہی۔ بنگلہ دیش پاکستان کو انڈیا کی آنکھ سے دیکھتا رہا۔ انڈیا نے اسلام آباد میں سارک سمٹ کے انعقاد کی مخالفت کی تو بنگلہ دیش نے فوراً ہاں میں ہاں ملائی۔ عوامی لیگ کی حکومت نے 1971ء میں متحدہ پاکستان کے حامیوں کو انتقام کا نشانہ بنایا۔ قومی اسمبلی کے سابق سپیکر فضل القادر چودھری کے بیٹے کو موت کی سزا ہوئی حالانکہ وہ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں موجود ہی نہیں تھے۔
البتہ گزشتہ ایک سال میں کچھ برف ضرور پگھلی ہے۔ مارچ میں وزیراعظم عمران خان نے اپنی ہم منصب شیخ حسینہ واجد کو گولڈن جوبلی تقریبات کی مبارک دینے کیلئے فون کیا۔ دونوں وزرائے اعظم نے ایک دوسرے کو دورے کی دعوت دی جو دونوں طرف سے قبول کی گئی۔ توقع ہے کہ بنگلہ دیشی وزیراعظم جلد پاکستان آئیں گی۔ اس تبدیلی کی وجوہات خاصی عیاں ہیں۔ انڈیا میں شہریت کے بارے میں نیا قانون یہ کہتا ہے کہ ہر شہری کو اپنی رجسٹریشن دستاویزی ثبوت کے ساتھ کرانی ہوگی۔ اس قانون سے انڈیا میں مقیم غیرملکی متاثر ہوں گے۔ سب سے زیادہ اثر تقریباً بیس لاکھ بنگلہ دیشی شہریوں پر ہوگا جو عرصے سے روزگار کے سلسلے میں آسام میں مقیم ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ قانون یہ کہتا ہے کہ خطے سے انڈیا آنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کو انڈین شہریت دینے کے بارے میں غور ہو سکتا ہے ماسوائے مسلمانوں کے۔ یہ قانون یقیناً امتیازی نوعیت کا ہے۔
نئے شہریت ایکٹ کے نتیجے میں انڈیا اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں ایک سرد مہری نظر آ رہی ہے ۔ شاید اسی سبب نظر التفات کچھ کچھ پاکستان کی جانب ہوئی ہے۔ دوسری وجہ بنگلہ دیش کی شاندار اقتصادی ترقی ہے‘ جس کے نتیجے میں خارجہ پالیسی میں خود اعتمادی کا عنصر نمایاں ہوا ۔ ایک اور عنصر بنگلہ دیش اور چین کے مابین دوستی اور تعاون میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
1971ء کے واقعات کے بارے میں دونوں ملکوں کے بیانیے مختلف ہیں لیکن 1947ء سے قبل ہماری پاکستان کیلئے تحریک دونوں ممالک میں قدرِ مشترک بھی ہے۔ مسلم لیگ کا قیام 1906ء میں ڈھاکہ میں ہوا تھا۔ جب بقیہ ہندوستان میں مسلم لیڈر پاکستان کے بارے میں بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے تھے تو بنگال کے مسلمان لیڈر پاکستان کی حمایت میں یکسو تھے۔ ہماری جانب خدائی خدمتگار، یونینسٹ پارٹی کی شکل میں برطانیہ نواز جاگیردار، علمائے دیوبند، بیلچہ بردار خاکسار تحریک‘ سب پاکستان کی تخلیق کے مخالف تھے۔ بنگالی مسلمان پاکستان کی اہمیت بہتر جانتے تھے۔ 1940ء میں قرارداد پاکستان شیر بنگال فضل الحق نے پیش کی تھی۔
1960ء کی دہائی میں ہمارے ساتھ گورنمنٹ کالج لاہور میں متعدد مشرقی پاکستان کے سٹوڈنٹ پڑھتے تھے۔ یہ سب انٹرونگ سکالرشپ پر آئے ہوئے تھے۔ سٹڈیز میں بہت اچھے تھے اور سیاسی طور پر بیدار۔ ان میں سے محمد عمر فاروق میرے ساتھ ایم اے اکنامکس میں تھا۔ وہ باریش تھا اور پابند صوم صلوٰۃ بھی۔ اسے پاکستان سے محبت تھی۔ سخت محنتی تھا۔ سول سروس میں آیا اور بنگلہ دیش میں فیڈرل سیکرٹری بنا۔ بنگالی بھائی اپنی زبان اور کلچر کے بارے میں خاصے حساس تھے۔ فروری 1966ء کی بات ہے میں کلاسیں اٹینڈ کرکے کالج سے نیو ہوسٹل جا رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ چند بنگالی دوست ننگے پائوں ہوسٹل سے کالج آ رہے ہیں۔ ان سے جوتے نہ پہننے کا سبب پوچھا تو پتہ چلا کہ Language day کے سلسلے میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے مابین صدارتی انتخاب کے بعد اور 1965ء کی جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسند رجحانات پیدا ہوئے۔ 1966ء کی بات ہے‘ میں اپنے بنگالی دوست فضیلت الرحمن کے کمرے میں اس سے گپ شپ لگا رہا تھا۔ فضیلت الرحمن عرف کھوکھن شماریات میں ماسٹرز کر رہا تھا اور بہت لائق فائق تھا۔ باتوں باتوں میں کھوکھن نے مجھے کہا کہ اب ہمارا مغربی پاکستان کے ساتھ رہنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ میںسمجھا کہ وہ حسب معمول مذاق کر رہا ہے۔ میں نے از راہِ تفنن پوچھا: یہ بتائو کہ تمہارے نئے ملک کا نام کیا ہوگا۔ اس نے جواب دیا کہ نام رکھنا چنداں دشوار نہیں مثلاً بنگلہ دیش اچھا نام ہو سکتا ہے۔ میرے لئے یہ دیوانے کا خواب تھا جو صرف پانچ سال بعد حقیقت بننے والا تھا۔
اور اب آتے ہیں زمانہ حاضر کی طرف۔ پاک بنگلہ تعلقات کے نارمل ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ ان کی یہ ڈیمانڈ ہے کہ پاکستان 1971ء کے واقعات کی لکھ کر معذرت کرے۔ بادی النظر میں یہ مطالبہ پورا کرنا اتنا مشکل نہیں لگتا‘ لیکن بین الاقوامی قانون کی رو سے اس کے کئی دور رس نتائج ہوں گے مثلاً نارمل معذرت کے بعد پاکستان سے کہا جا سکتا ہے کہ جنگی خسائر‘ جو بنگلہ دیش کو ہوئے‘ انکا عوضانہ ادا کرے۔ اس معذرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان اس بات کا اقرار کرلے گا کہ جارحیت اس نے کی، یعنی انڈیا بالکل بری الذمہ ہو جائے گا‘ جو حقیقت سے بہت بعید ہے۔
بنگلہ دیش نے پچھلے پچاس برسوں میں شاندار اقتصادی ترقی کی ہے۔ بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی، برآمدات، زرمبادلہ کے ذخائر سب اشاریے ہم سے بہتر ہیں۔ بنگلہ دیش نے فیملی پلاننگ پروگرام بہت کامیابی سے چلایا ہے۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی اور اب خاصی کم ہے۔ اس کیلئے وہاں گرامین بینک نے چھوٹے قرضوں کا کامیاب پروگرام چلایا۔ یہ قرضے زیادہ تر خواتین کو دیئے گئے اور ان قرضوں کی بدولت وہاں سمال اور میڈیم بزنس کو بڑا فائدہ ہوا۔ گارمنٹس انڈسٹری خوب پھلی پھولی، لوگوں کو روزگار ملا۔ غربت کم ہوئی۔ برآمدات میں اضافہ ہوا۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں چند سال پہلے پاکستان سے چند بزنس مین بنگلہ دیش گئے اور وہاں سرمایہ کاری کی۔ ان میں سے آج بھی کئی وہاں اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔ میں ایسے ہی ایک صاحب کو جانتا ہوں جو کراچی سے ہیں مگر کئی سال سے چٹاگانگ میں بزنس کر رہے ہیں اور وہاں خوش و خرم ہیں۔ دو سال پہلے ایک شادی کے سلسلے میں اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ میری ان سے تفصیلی بات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ پاکستان آنے کا کوئی ارادہ ہے؟ انکا جواب نفی میں تھا۔ میں نے وجوہات پوچھیں تو گویا ہوئے کہ وہاں انرجی وافر ہے‘ لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی‘ کوئی بھتہ کا مطالبہ نہیں کرتا‘ کوئی بڑا مسئلہ ہو تو متعلقہ وزیر کو ملنا چنداں مشکل نہیں۔
آج کل سوشل میڈیا پر جناب اکبر ایس احمد کا انٹرویو چل رہا ہے۔ وہ پاکستان سول سروس میں تھے اور بطور اسسٹنٹ کمشنر مشرقی پاکستان میں رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 26 مارچ 1971ء سے پہلے دس فیصد بنگالی پاکستان کے خلاف تھے مگر ایکشن کے بعد نوے فیصد خلاف ہو گئے تھے۔ کاش ہم نے مسئلے کا سیاسی حل ڈھونڈا ہوتا اور ووٹ کو عزت دی ہوئی۔
اور اب واپس لوٹتے ہیں عنوان کی جانب‘ پہلا سوال تو یہ تھا کہ کیا بنگلہ دیش اور پاکستان میں دوستی ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں‘ بڑی وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی انڈیا کے زیرِ اثر ہے اور دوسری وجہ بنگلہ دیش کی جانب سے معذرت کی ڈیمانڈ ہے۔ لیکن اس کے باوجود ورکنگ ریلیشن شپ تو ہو سکتی ہے۔ پچھلے دنوں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے بنگلہ دیش کامیاب دورہ کیا۔ باہمی تجارت بڑھائی جا سکتی ہے۔ یونیورسٹی لیول کی تعلیم کیلئے بنگلہ دیش کے سٹوڈنٹس کو مزید وظائف دیئے جا سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کے تھنک ٹینکس باقاعدگی سے مل کر باہمی دلچسپی کے موضوعات ڈسکس کر سکتے ہیں اور اس سلسلے میں سرفہرست موضوع موسمی تبدیلی کا ہونا چاہئے۔ ہم فیملی پلاننگ اور مائیکرو فنانس کے بارے میں بھی کافی کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ دونوں ملک مل کر سارک کو فعال بنا سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں