"JDC" (space) message & send to 7575

میانمار اور سوڈان میں مارشل لاء کی مزاحمت

اکتوبر 1999ء کی بات ہے‘ میں یونان میں تھا۔ اسی سال مارچ میں یونانی صدر نے میری اسنادِ سفارت قبول کیں اور اسناد لینے کے بعد مجھے بتایا کہ وہ جلد پاکستان کا دورہ کرنے ارادہ رکھتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ آپ کے وزٹ سے دونوں ممالک کے تعلقات مضبوط ہوں گے لہٰذا ہم چشم براہ رہیں گے۔ اکتوبر میں جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا تو اسی روز میری ملاقات ایک یورپی ملک کے پاکستان شناس سفیر سے ہوئی۔ وہ پاکستان میں رہ چکے تھے۔ کہنے لگے کہ آپ کے ملک میں مارشل لاء بے وقت کی راگنی ہے۔ یورپ سے سخت رد عمل آئے گا اور پھر یورپی یونین نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کے ساتھ اعلیٰ سطح کے تمام رابطے معطل کر دیئے جائیں گے؛ چنانچہ یونانی صدر کا دورہ پاکستان بھی غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔
اگر جنرل مشرف کا اقتدار پر قبضہ بے وقت کی راگنی تھا تو اکیسویں صدی میں تو مارشل لاء تیسری دنیا کے عوام کے لئے قطعاً قابل قبول نہیں رہا۔ یاد رہے کہ جنرل مشرف نے بھی اپنے لئے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا لاحقہ استعمال نہیں کیا تھا۔ برما اور سوڈان‘ دونوں میرے لئے دلچسپی کا سامان رکھتے ہیں۔ برما میں تو میں نے تقریباً ایک سال گزارا ہے جبکہ سوڈان کا میں نے بغور مطالعہ کیا ہے۔ دونوں ممالک میں لمبے عرصے تک عسکری حکومتیں رہیں مگر پچھلے سال دونوں جگہ فوج نے پھر سے اقتدار سنبھالا تو عوام کی طرف سے شدید مزحمت دیکھنے میں آئی۔
آپ کو یاد ہو گا کہ آنجہانی جنرل نی ون (Ne Win) لمبا عرصہ برما کے فوجی حکمران رہے۔ تیسری دنیا کے فوجی حکمران عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی بلی تھیلے سے نکالتے رہے ہیں۔ جنرل نی ون کی بلی سوشلزم کی آڑ میں غیر ملکیوں سے ان کی جائیداد بحق سرکار لے کر لوکل لوگوں میں اس کی تقسیم تھی۔ برما‘ جسے اب میانمار کہتے ہیں‘ ایک زمانے میں تیل کی دولت سے مالا مال تھا۔ وہاں تیل عرب ملکوں سے بہت پہلے دریافت ہوا تھا؛ چنانچہ چین، انڈیا اور پاکستان سے وہاں کئی لوگ گئے۔ صنعت و تجارت زیادہ تر غیر ملکیوں کے ہاتھ میں تھی۔ جنرل نی ون نے یہ جائیدادیں قومیا لیں اور پھر انہیں مقامی لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ بیس سال سے زیادہ عرصہ حکومت کی۔ ان کی اپنی سیاسی پارٹی تھی۔ کسی اور سیاسی جماعت کو فنکشن کرنے کی اجازت نہ تھی۔1987ء میں شدید مظاہرے ہوئے۔1988ء میں الیکشن ہوئے تو اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی فوجی کمان کو پسند نہ تھی۔
جنرل نی ون نے بظاہر 1988ء میں اقتدار تو چھوڑ دیا مگر برما کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا۔ ایک اور فوجی حکومت آ گئی۔ جمہوریت پسندوں کو قید کر دیا گیا۔ ان کی لیڈر آنگ سان سوچی کو سالوں تک گھر میں نظر بند رکھا گیا۔ سوچی کو نوبیل انعام ملا۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ بے نظیر بھٹو اور سوچی میں خاصی ہم آہنگی تھی۔ دونوں صنف نازک سے تعلق رکھنے کے باوجود جمہوریت کے لئے دلیری سے لڑیں۔
جنرل نی ون نے اگر بیس سال ڈائریکٹ اقتدار اپنے ہاتھوں میں رکھا تو بیس سال مزید بالواسطہ برما کے حکمرانوں پر ان کا گہرا سایہ رہا۔ بعد میں آنے والے فوجی حکمران بھی انہیں اپنا گرو مانتے تھے؛ البتہ 2002ء میں فوجی حکومت نوے سالہ جرنیل کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہوئی اور انہیں گھر میں قید کر دیا گیا۔ دو سال بعد نظر بندی کی حالت میں ان کا انتقال ہوا۔
تقریباً دس سال پہلے برما (میانمار) میں لنگڑی لولی سی جمہوریت آئی۔ آنگ سان سوچی کو ووٹ تو بہت ملے لیکن وہ وزیر اعظم نہ بن سکیں۔ عذر یہ تھا کہ ان کے آنجہانی شوہر برطانیہ کے شہری تھے۔ قوات مسلحہ نے اقتدار چھوڑا نہیں بلکہ اس کی تقسیم کا فارمولا اپنایا۔ سوچی نے اس فارمولے کو قبول کیا لیکن موجودہ حالات اس سمجھوتے کی ناکامی کا ثبوت ہیں۔ پچھلے سال فروری میں مارشل لا پھر سے نافذ کر دیا گیا لیکن اس مرتبہ شدید مزاحمت دیکھنے میں آئی۔ گزشتہ دس ماہ میں مظاہرے کرتے ہوئے ہزار سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بنے۔
اور اب آتے ہیں سوڈان کی جانب۔ یہ مسلم ملک کچھ عرصہ پہلے رقبے کے اعتبار سے افریقہ کا سب سے بڑا ملک ہوا کرتا تھا‘ مگر پھر تقسیم ہو گیا یا کردیا گیا۔ سوڈان میں بھی بیشتر عرصہ فوجی حکومتیں رہیں۔ جنرل جعفر نمیری سے لے کر عمر البشیر تک لمبے عرصے تک یہاں عسکری حکومتیں رہیں۔ جنرل عمر البشیر وہ پہلے سربراہ مملکت ہیں جنہیں انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) کی جانب سے انسانیت کے خلاف جرائم جیسے الزامات کا سامنا رہا۔ عمر البشیر نے جنرل ضیاء الحق کی طرح اسلامی نظام کے نفاذ کا وعدہ کیا اور اس عمل کو تکمیل دینے کے لئے دائیں بازو کے لیڈر حسن الترابی کو حکومت میں شریک بنایا۔ سوڈان میں شریعت تو نافذ نہ ہو سکی مگر جنوبی سوڈان‘ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں‘ میں علیحدگی پسند قوتیں زور پکڑنے لگیں۔ 2019ء میں عمر البشیر بالآخر اقتدار سے الگ ہو ہی گئے۔ ان کے گھر سے بڑی مقدار میں کرنسی نوٹ پکڑے گئے۔ کرپشن کا مقدمہ چلا‘ دو سال سزا ہوئی۔ آج کل وہ ایک اصلاحی سنٹر میں سزا پوری کر رہے ہیں کیونکہ سوڈانی قانون کے مطابق 70 سال سے زائد عمر کے مجرم کو جیل نہیں بھیجا جا سکتا۔
چند ماہ پہلے سوڈان میں ایک مرتبہ پھر عسکری مداخلت ہوئی۔ جنرل عبدالفتاح البرہان نے اقتدار سنبھال لیا۔ عوامی مزاحمت اس مرتبہ شدید تھی۔ جنرل برہان نے قید کردہ سابق وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کو رہا کر دیا‘ انہیں اقتدار میں شریک کر لیا گیا اور عوام سے وعدہ کیا گیا کہ 2023ء میں نئے الیکشن ہوں گے‘ لیکن عوام اس ملاوٹ شدہ جمہوریت کیخلاف ہیں۔ ڈاکٹرز، وکلاء اور صحافیوں کی نمائندہ تنظیمیں ملکر جمہوریت کیلئے کام کر رہی ہیں۔ انکا یہ بھی کہنا ہے کہ عبداللہ حمدوک کمزور لیڈر ہے اور عسکری دھڑے کی ہر بات آسانی سے مان جاتا ہے۔ خرطوم میں عوام پھر سڑکوں پر ہیں۔ مظاہروں میں ستر کے قریب لوگ جان کی بازی ہاری چکے ہیں۔ ان حالات میں وزیر اعظم حمدوک نے استعفیٰ دے دیا۔ اب وہاںحالات انتہائی مخدوش ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ فوجی انقلاب کو بہت سے مسئلوں کا حل سمجھا جاتا تھا۔ مغربی ممالک بھی‘ جو اپنی جمہوریت پسندی کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں‘ فوجی حکمرانوں کو تیسری دنیا کے لئے اتنا برا نہیں سمجھتے تھے‘ مثلاً ایک زمانے میں صدر ایوب خان مغربی ممالک کی آنکھوں کا تارا تھے۔ آج صورت حال بدل چکی ہے۔ اب مغربی ممالک جمہوریت کے حق میں خاصے یکسو ہیں۔
اب تیسری دنیا کے ممالک میں بھی سیاسی جماعتیں زیادہ منظم ہو چکی ہیں۔ سویلین گورننس کئی ملکوں میں بہتر ہو چکی ہے۔ ایک زمانے میں افریقہ میں آئے دن فوجی انقلاب آتے تھے۔ ان میں سے چند فوجی آمر کرپشن کے لئے مشہور ہوئے کیونکہ مطلق اقتدار احتساب کے عمل کو کمزور کرتا ہے۔
آج کا زمانہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ لوگ باشعور ہو چکے ہیں۔ سوڈان میں حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ عسکری حکومت کو معزول وزیر اعظم کو نہ صرف رہا کرنا پڑا بلکہ اسے اقتدار میں شامل بھی کرنا پڑا۔ میانمار (برما) میں بھی حالات فوجی حکمرانوں کے قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔ دونوں جگہ جمہوریت کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ عسکری حکومت کی طاقت لوگوں کے عزم کو کمزور نہیں کر سکی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں