"JDC" (space) message & send to 7575

تعلیم کی زبوں حالی

کہتے ہیں کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس کا نظام تعلیم خراب کر دو پھر کسی فوج کشی یا حملے کی ضرورت نہیں رہے گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا نظام تعلیم رو بہ زوال ہے۔22ملین یعنی دو کروڑ بیس لاکھ بچے سکول نہیں جا رہے۔جو لڑکے لڑکیاں سکول‘ کالج یا یونیورسٹی جا رہے ہیں انہیں ناقص تعلیم مل رہی ہے۔دنیا کی ٹاپ کی یونیورسٹیاں ہارورڈ ،کیمبرج،آکسفورڈ ،ایم آئی ٹی اور سٹینفورڈ سب مغرب میں ہیں‘ ہماری ٹاپ کی یونیورسٹی یعنی نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST)دنیا میں 358نمبر پر ہے۔ انڈیا کے تعلیمی اداروں کی انٹر نیشنل رینکنگ ہم سے کہیں بہتر ہے۔میری اپنی درسگاہ یعنی گورنمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی 2009ء میں پورے پاکستان میں نمبر پانچ پر تھی اور2018ء میں 32ویں نمبر پر آ چکی تھی۔اپنی دانش گاہ کے تیز زوال کو دیکھ کر دل اور بھی دکھتا ہے۔
کسی بھی عمارت کی طاقت اس کی بنیادوں میں ہوتی ہے جبکہ تعلیمی معیار کی قوت اچھے سکول ہوتے ہیں۔مغربی ممالک میں سکول جا کر دیکھیں تو طبیعت خوش ہو جاتی ہے۔صاف ستھر اماحول ،مسکراتے ہوئے اور قابل اساتذہ۔وقت کی قدر قابلِ ستائش ہے اور اس بات کا میں نے خود مشاہدہ کیا ہے۔ میری بہو ورجینیا میں ہائی سکول ٹیچر ہے۔ چند سال پہلے میں امریکہ گیا تو اپنے وزٹ کو سکول کی چھٹیوں کے دنوں میں رکھا تاکہ بچوں اور بہو کے ساتھ زیادہ وقت گزرے‘ وہاں پہنچے تو بہو نے بتایا کہ دس چھٹیاں کم کردی گئی ہیں کیونکہ پچھلے سال برفباری کی وجہ سے سکول دس دن بند رہا تھا۔ اور اب واپس آتے ہیں وطنِ عزیز کی طرف۔ایک زمانے میں ہمارے سرکاری سکول اچھے خاصے ہوتے تھے‘ میں خود ایک قصبہ کے سرکاری سکول میں پڑھا اور ہمیں میٹرک کے آخری سال میں ڈیسک ملے تھے۔پورے نو سال میں نے ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کی۔ میٹرک میں بہت اچھے مارکس لئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں میرٹ پر داخلہ ملا۔ ہمارا ٹاٹ والا ایم بی ہائی سکول گوجرہ وسائل کی کمی کے باوجود اچھے رزلٹ دکھاتا تھا۔ہاکی اور کبڈی کے اعلیٰ کھلاڑی وہاں تربیت پاتے تھے۔پاکستان میں گھوسٹ سکولوں کی وبا کب شروع ہوئی یہ مجھے معلوم نہیں۔سکول کب سے وڈیروں کے ڈیرے ،پولیس کے ریسٹ روم اور جانوروں کے ٹھکانے بنے‘ یہ بھی مجھے پتہ نہیں لیکن یہ سب صوبائی حکومتوں کی تعلیم کی وزارتوں کے سامنے ہوا ہے جہاں ایک الگ بیوروکریسی ہے۔انسپکٹر آف سکولز سے سیکرٹری ایجوکیشن تک ہزاروں کارندے ہیں‘ ظاہر ہے کہ یہ سب افسر نہ اپنا کام اچھی طرح سے کر رہے ہیں اور نہ ہی استادوں کے احتساب کا کوئی نظام فعال رہا ہے۔جو انسپکشن کا نظام انگریز نے چھوڑا تھا اسے یار لوگوں نے آزادی کے بعد کھوکھلا کر دیا ہے۔مجھے کراچی سے ایک قابلِ اعتماد سورس نے بتایا کہ محکمہ تعلیم کے انسپکشن سے متعلق افسر باقاعدہ ماہانہ رشوت سکولوں سے وصول کرتے ہیں۔پنجاب میں بھی گھوسٹ سکول دریافت ہوتے رہتے ہیں۔ کیا ایسے سکول قابل ِفخر انسانی سرمایہ (Human capital) پیدا کر سکتے ہیں ؟ہمارے اکلوتے نوبیل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام جھنگ کے ایک سرکاری سکول میں پڑھے تھے۔کیا آج کے ہمارے سرکاری سکول کوئی اور ڈاکٹر عبدالسلام پیدا کرنے استطاعت رکھتے ہیں ؟
اور اب ذکر ہو جائے پرائیویٹ سکولوں کا۔ ان سکولوں کی طرف والدین سرکاری سکولوں کے گرتے معیار کی وجہ سے راغب ہوئے تھے۔ ہماری اشرافیہ کو شوق تھا کہ بچے اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرون ملک جائیں۔ظاہر ہے بیرون ملک یونیورسٹیوں میں ذریعہ تعلیم انگلش ہے۔ہماری نئی مڈل کلاس کو بھی شوق تھا کہ بچے فر فر انگریزی بولیں تاکہ اعلیٰ سول اور ملٹری آفیسر بن سکیں۔ ادھر ضیا الحق نے 1980ء میں اردو میڈیم کمپلسری کر دیا تو بے شمار پرائیویٹ انگلش میڈیم سکول بنے۔اشرافیہ اور مڈل کلاس اردو میڈیم اپنانے سے انکاری تھے ،ہر جگہ انگلش میڈیم سکول کھل گئے‘ لیکن عرصے تک ان کے معیار کو جانچنے کا کوئی نظام نہیں تھا۔
میں نے انگلش میڈیم سکولوں سے متعلق کئی لوگوں سے کراچی اور لاہور میں بات کی ان سکولوں کی فیس پانچ ہزار سے 80ہزار روپے ماہانہ ہے۔ ایک تجربہ کار ٹیچر کہنے لگیں کہ نجی سکولوں میں کوئی بچہ ٹیچر سے بدتمیزی کرے اور پرنسپل بھی بچے کو کچھ نہیں کہہ سکتیں کیونکہ ایک طرف تو یہ بچے نجی سکولوں کیلئے انکم کا ذریعہ ہیں دوسرے ان کے والدین معاشرے میں بااثر ہیں۔ایسے سکول شاہ رخ جتوئی اور ظاہر جعفر جیسے بگڑے لوگ پیدا کر رہے ہیں۔ اخلاقیات کو خیر باد کہہ دیا گیا ہے۔ایک زمانہ تھا کہ پی ایچ ڈی کرنے اور پی ایچ ڈی کرانے کا شوق پاکستان میں عروج پر تھا۔ پی ایچ ڈی سکالرز کو اچھا خاصا اضافی الائونس ملتا تھا۔ سپر وائزر کو بھی عوضانہ ملتا تھا۔تھوک کے حساب سے پی ایچ ڈی بن کر نام کے ساتھ ڈاکٹر کا سابقہ لگانے لگے لیکن معیار عمومی طور پر بے حد پست تھا۔پھر ایچ ای سی (HEC)کو کئی لوگوں کو بیرون ملک ڈاکٹریٹ کیلئے بھیجنا پڑا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے اور باعثِ شرم ہے کہ اسلام آباد کی ایک اچھی یونیورسٹی کے پرو ریکٹر(Pro Rector)کا پی ایچ ڈی تھیسس ستر فیصد نقل شدہ نکلا اور مستزاد یہ کہ یہی صاحب چند سال پہلے حکومت پاکستان سے اعلیٰ سول ایوارڈ بھی لے چکے تھے۔انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری اسلام آباد کی ہی ایک اور یونیورسٹی نے دی تھی۔ نقل کی اطلاع ملنے پر ڈگری کینسل کر دی گئی مگر ڈگری دینے والی یونیورسٹی آج بھی کام کر رہی ہے۔ہمارے ملک میں تعلیمی احتساب کی اشد ضرورت ہے کہ یہاں ریسرچ مافیا بھی پروان چڑھ چکاہے۔ہمارے تعلیمی نظام میں سب سے بڑی لعنت رٹا سسٹم ہے۔ہمارے امتحان یاد داشت کا ٹیسٹ ہیں سوچنے کا نہیں‘لہٰذا ہمارا تعلیمی نظام دانشور پیدا کرنے کے بجائے دولے شاہ کے چوہے پیدا کر رہا ہے۔
اوپر بات ڈاکٹریٹ کی ڈگری کی ہو رہی تھی‘کیا یہ ضروری ہے کہ ہر یونیورسٹی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دینے کا اختیار ہو۔ایسا اختیار صرف گنی چنی چند دانش گاہوں کے پاس ہونا چاہئے ورنہ ہم اعلیٰ تعلیم یافتہ بونے پیدا کرتے رہیں گے۔اس کی ایک مثال پرائیویٹ میڈیکل کالج بھی ہیں جو تجارتی ادارے بن چکے ہیں یہاں ایف ایس سی میں بہت کم نمبر لینے والوں کو بھی داخلہ مل جا تا ہے۔ ڈریں اس وقت سے جب ان کالجوں سے نکلے ہوئے ڈاکٹرمیرا اور آپ کا علاج کیا کریں گے۔
اوپرذکر ہوا تھا کہ انڈیا کے تعلیمی ادارے ہم سے بہتر ہیں‘ اس وقت دنیا کی 12اعلیٰ ترین کمپنیوں کے CEOانڈین ہیں۔ ان کے نام ہیں سندر پچائی (Google & Alphabet INC) ستیا نڈیلا(Microsoft)پراگ اگروال(Twitter)لینا نائر (Chanal)شنتانو نارائن (Adobe) اروند کرشنا (IBM)سنجے ملہوترا (Micron Tech)کیش اروڑا (Palo Alto Networks )جے سری اُلال (Arista Networks)امرا پالی (OnlyFans)جے پال سنگھ (Mastercard)اندرا نوئی (Pepsico)۔ ان بارہ کارپوریٹ ہیڈز کے نیچے ہزاروں مغربی اقوام کے لوگ کام کر رہے ہیں‘گویا انڈیا اس وقت کارپوریٹ ورلڈ پر چھایا ہوا ہے اور یہ سب تعلیم کی بدولت ہے۔انڈیا ٹیکنالوجی میں آگے ہے تو ہمارے ہاں گھوسٹ سکول ہیں‘نقل لگتی ہے‘ ڈاکٹریٹ میں بھی ہمارا فوکس آرٹس کے مضامین پر ہے۔ آرٹس کے مضامین ضرور پڑھائیں مگر اس کیلئے دو تین سال کافی ہیں۔بارہ سال پڑھانا ضروری نہیں۔ دنیاوی ترقی کیلئے سائنس اور ٹیکنالوجی اہم ہے جس میں ہم پیچھے ہیں۔آج کی دنیا میں اقتصادی ترقی ٹیکنالوجی کے بغیر ناممکن ہے اور اسلام میں دنیاوی ترقی ممنوع نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں