"JDC" (space) message & send to 7575

پاکستان انکل سام کی نظر میں… (2)

گزشتہ کالم میں پاکستان کے بارے میں سابق امریکی وزیر دفاع جنرل جیمز میٹس (James Mattis) اور سابق نائب وزیر خارجہ سٹروب ٹالبوٹ (Strobe Talbott) کی آرا کا ذکر کیا تھا۔ آج ایک ممتاز سکالر ولی نصر اور سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے افکار کو دیکھتے ہیں۔ دونوں کی پاکستان کے اندرونی حالات اور خارجہ پالیسی پر گہری نظر رہی ہے۔
پروفیسر ولی نصر ایرانی نژاد امریکن ہیں۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی (The Johns Hopkins University) میں انٹرنیشنل سٹڈیز کے ڈین رہے۔ ایران شناسی اور پاکستان کے حوالے سے کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہماری جماعت اسلامی کے بارے میں تھا جو کتابی شکل میں شائع ہو چکا ہے۔ امریکی صدر کے نمائندہ برائے افغانستان و پاکستان رچرڈ ہالبروک (Richard Holbrook) کے مشیر خاص رہے۔ متعدد بار سرکاری اور انفرادی حیثیت میں پاکستان آ چکے ہیں۔ ان کی کتاب The Dispensable Nation: American Foreign Policy in Retreat یعنی ''امریکن خارجہ پالیسی کی پسپائی‘‘ میں نے پڑھی ہے۔ کتاب کا ایک باب پاکستان کے بارے میں ہے اور بہت دلچسپ ہے۔
وہ 2009 میں رچرڈ ہالبروک کے ساتھ پاکستان آئے۔ آصف علی زرداری صدر پاکستان تھے۔ پاکستان کے باب کا پہلا پیراگراف زرداری صاحب کے بارے میں ہے۔ ترجمہ کچھ یوں ہے ''صدر زرداری ایک پُراسرار شخصیت ہیں۔ انہیں پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی قیادت اپنی شریک حیات بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ملی‘ جنہیں ایک خوفناک بم حملے میں مارا گیا۔ ان کے قتل کا الزام پاکستانی طالبان پر لگا۔ پاکستانی زرداری کو کچھ خاص پسند نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ ذاتی مفاد کے لئے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ 1990 کی دہائی میں جب ان کی بیگم پاکستان کی وزیر اعظم تھیں‘ اُس زمانے میں زرداری کی کرپشن کے قصّے پاکستانی قوم کی اجتماعی یادداشت میں ہمیشہ کے لئے نقش ہو چکے ہیں‘ لیکن انہیں اتنی آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ مشکل حالات میں بچ نکلنے کا ہنر جانتے ہیں۔ پاکستان کے فوجی حکمران جنرل مشرف نے زرداری کو کرپشن کے الزامات میں قید میں رکھا اور ان کی اہلیہ ملک بدر رہیں۔ 2007 میں جب جنرل مشرف کا اقتدار ڈولنے لگا تو میاں بیوی سیاست میں لوٹ آئے۔ جیل کے سالوں نے زرداری کو پختہ اور قدآور سیاست دان بنا دیا۔ اپنی عیاری اور قیادت کے بھرپور شوق کی بدولت وہ صدر پاکستان بن گئے‘‘۔
رچرڈ ہالبروک اور ولی نصر کی زرداری صاحب سے ایوان صدر میں ملاقات ہوئی۔ چند امریکی صحافی بھی موجود تھے جو لگاتار بات چیت کو لکھتے جا رہے تھے۔ زرداری صاحب نے افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے طویل گفتگو کی۔ ولی نصر کا کہنا ہے کہ اس لمبی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ انکل سام کے مال و دولت پر پاکستان کا اور زیادہ حق ہے۔ وفد کو ملاقاتوں میں یہ تاثر بھی دیا گیا کہ پاکستان کوئی چھوٹا ملک نہیں اور اس کا محل وقوع سٹریٹیجک ہے‘ پاکستان ایٹمی طاقت ہے‘ لہٰذا پاکستان کا بطور ریاست ناکام ہونا پوری دنیا کے لئے خطرناک ہو گا۔ اس موقع پر زرداری صاحب نے ناکامی سے دوچار امریکن انشورنس کمپنی AIG کا حوالہ دیا جسے بچانے کے لئے امریکی حکومت نے خطیر رقم دی تھی اور پھر مطالبہ کیا کہ پاکستان کی بھی AIG کے مساوی مالی مدد کی جائے۔
مجموعی تاثر یہی تھا کہ پاکستانی قیادت امریکہ کے وسائل کی جانب ملتجی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ ہالبروک مسکراتے ہوئے صدر پاکستان کی باتوں کو سنتے رہے‘ بعد میں کہنے لگے کہ پاکستان یقینا ہمارے لئے اہم ملک ہے اور ہم اسے اگنور نہیں کر سکتے لیکن پاکستان کا امریکہ پر اس قدر انحصار کرنا بھی ٹھیک نہیں۔ امریکی وفد کو یہ تاثر بھی ملا جیسے کہ صدرِ پاکستان اُن سے زبردستی بھتہ مانگ رہے ہیں۔ اس کے باوجود رچرڈ ہالبروک کی اپنی حکومت کو سفارش تھی کہ پاکستان کے ساتھ دوستی کا تعلق رکھا جائے‘ لیکن صدر اوباما کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ پاکستان پر دباؤ بڑھایا جائے۔ ولی نصر کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کی وجہ سے دونوں ممالک میں دوریاں بڑھ گئیں اور پاکستان مزید خطرناک ملک بن گیا۔
جس دور کا ذکر ولی نصر نے کیا ہے‘ اُس زمانے میں ہلیری کلنٹن صدر اوباما کی وزیر خارجہ تھیں۔ مسز کلنٹن نے اپنی کتاب Hard Choices میں ایک باب پاکستان کے لئے مختص کیا ہے۔ اس چیپٹر میں سب سے اہم ان کے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر حملے کے بارے میں خیالات ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ یہ فیصلہ صدر اوباما کے عہدِ صدارت کا مشکل ترین فیصلہ تھا مگر انہوں نے اپنے عہدے کو داؤ پر لگا کر یہ مشکل فیصلہ کیا۔ سب کو علم تھا کہ ناکامی کی صورت میں امریکہ کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا تھا۔
ہلیری کلنٹن کا کہنا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات پہلے ہی تناؤ کا شکار تھے۔ وہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں برائے نام حلیف (Nominal ally) قرار دیتی ہیں۔ پاکستان کو اسامہ کے خلاف کارروائی کی پیشگی اطلاع دینے کے بارے میں امریکن ایڈمنسٹریشن منقسم تھی۔ چند ایک کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بتائے بغیر حملہ کرنا پاکستان کے قومی وقار کو ٹھیس پہنچائے گا۔ حاضرین میں سے آواز آئی کہ امریکن قومی وقار ہمارے لئے مقدم ہے‘ اس شخص نے ہزاروں بے گناہ لوگوں کو مارا ہے۔ اکثریت کا فیصلہ تھا کہ پاکستان کے ذمہ داروں کو پیشگی اطلاع دینے سے مشن کی ناکامی کا چانس بڑھ جائے گا کیونکہ پاکستان کے بعض ادارے القاعدہ اور دیگر انتہا پسندوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ ہلیری کلنٹن نے اپنی کتاب میں بے نظیر بھٹو کی تعریف کی ہے۔ انہی کے الفاظ میں ''ہمارے آکسفورڈ اور ہارورڈ کے زمانے کے کئی کامن دوست تھے۔ بے نظیر کی آنکھوں میں چمک تھی‘ چہرے پر مسکراہٹ رہتی تھی۔ وہ ذہین خاتون تھیں جو حس مزاح بھی رکھتی تھیں۔ خواتین کی تعلیم اُن کے نزدیک بہت اہم تھی‘‘۔ جب 90 کی دہائی میں ہلیری کلنٹن نے بطور خاتون اول پاکستان کا دورہ کیا تو وہ اور ان کی بیٹی چیلسی بینظیر کے لباس اور سٹائل سے بہت متاثر ہوئیں۔ اس وقت بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیر اعظم تھیں۔
جنرل مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی ہلیری کلنٹن اور بے نظیر بھٹو کے مابین رابطے قائم رہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ بے نظیر نے اپنے خاوند کی رہائی کے لئے میری مدد مانگی تھی۔ آگے صرف یہ لکھا ہے کہ آصف زرداری کو مقدمہ چلائے بغیر جیل میں رکھا گیا اور 2004 میں رہا کر دیا گیا۔ یہ بات غالباً عمداً نہیں لکھی گئی کہ اس رہائی میں امریکہ کی کتنی کوشش شامل تھی؛ البتہ این آر او دلوانے میں امریکہ کا واضح رول تھا جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی سیاست میں واپسی ممکن ہوئی۔
یہ بھی واضح ہے کہ صدر زرداری اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کے لئے امریکہ سے کوئی خاص وصولی کرنے میں ناکام رہے‘ لیکن پھر بھی حسین حقانی کے طفیل بلیک واٹر جیسی کمپنیوں کے کارندوں کے لئے پاکستان کے دروازے کھول دیئے گئے۔ خوب دل کھول کر ویزے دیئے گئے۔ ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگ اسامہ بن لادن کی تلاش میں ہی بھیجے گئے تھے۔
ہیلری کلنٹن رقم طراز ہیں کہ پاکستانی لیڈر شپ کو کئی مرتبہ متنبہ کیا کہ جو سانپ اپنے ہمسایوں کے لئے پال رہے ہیں وہ ایک دن آپ کو بھی ڈسیں گے۔ بات کہاں تک صحیح تھی یہ بحث اگلے کالم میں ہو گی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں