"JDC" (space) message & send to 7575

سازش‘ بڑھکیں اور فاقہ مستی

پچھلے ہفتے سے تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال نے ہم سب کو حیران کر رکھا ہے۔ اس سے پچھلا ہفتہ اکثر دوستوں کیلئے اور بھی پریشان کن تھا۔ کئی دوست سیاسی لوٹوں اور ان پر لگائے گئے الزامات کی وجہ سے پریشان تھے۔ سندھ کی دو حریف سیاسی جماعتوں کے درمیان معاہدے کے مندرجات پر بھی یار لوگ انگشت بدنداں نظر آئے۔ کئی دوستوں نے بتایا کہ رات کو اچھی طرح نیند نہیں آتی۔ دن کے وقت لوگ ٹی وی ٹاک شو دیکھ کر بلڈ پریشر کا شکار ہو رہے تھے‘ روپیہ ڈالر کے سامنے لڑھک رہا تھا۔ ہم نے خود ہی اپنے آپ کو دنیا کے سامنے مذاق بنا لیا تھا۔
دنیا میں درجنوں ممالک ایسے ہیں جہاں ہماری طرح کا سیاسی ہیجان نظر نہیں آتا۔ بادی النظر میں وہ ملک بڑے بورنگ نظر آتے ہیں لیکن میں انہیں نارمل ملک کہوں گا اور میری دعا ہے کہ رب العزت پاکستان کو بھی نارمل ملک بنا دے۔ اتوار کے روز ڈپٹی سپیکر نے یہ کہہ کر ہمیں ورطۂ حیرت میں مبتلا کر دیا کہ عدم اعتماد کی قرارداد چونکہ بیرونی سازش پر مبنی ہے لہٰذا یہ قابلِ بحث نہیں۔ اس کے جلد بعد وزیراعظم نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے صدر مملکت کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کر دی۔ ہم الفاظ کے چناؤ میں بہت لاپروا بلکہ غیر ذمہ دار واقع ہوئے ہیں۔ ہمیں دھمکی اور سازش کے مابین فرق واضح نہیں۔ یہ دونوں الفاظ بہت مختلف کیفیات کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ سازش کیلئے ضروری شرط یہ ہے کہ وہ خفیہ طریقے سے کی جائے۔ ظاہر ہے کہ جو بات چھپ کر کرنی ہے اس کا اعلان نہیں کیا جاتا چہ جائیکہ سفیر سے کہا جائے کہ ہم تمہاری موجودہ حکومت سے خوش نہیں ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ امریکہ نے یہ بات نہیں کی مگر یہ غیر سفارتی لہجہ ضرور تھا ایک قسم کی دھمکی بھی تھی لیکن سازش پھر بھی نہیں تھی۔
ہماری نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا ردعمل نہایت متوازن تھا۔ سفارتی سطح پر دھمکی دی گئی تھی تو اُس کا جواب بھی سفارتی لیول پر احتجاج تھا۔ امریکہ سے ایسی دھمکی کوئی نئی بات نہیں۔ پرویز مشرف کے زمانے میں نائب امریکی وزیر خارجہ رچرڈ آرمیٹج نے کہا تھا کہ پاکستان نے افغانستان میں تعاون فراہم نہ کیا تو ہم اسے پتھر کے زمانے میں دھکیل دیں گے۔ ہماری اپوزیشن میں بھی پختگی ناپید ہے حالانکہ یہ لوگ ایک عرصہ حکومت کر چکے ہیں۔ یہ کہنا کہ خط فارن آفس میں ڈرافٹ کیا گیا یا یہ کہ ہمیں سفیر کا تار اصل صورت میں دکھایا جائے مضحکہ خیز بات ہے۔ خفیہ تاروں کیلئے کوڈ استعمال ہوتے ہیں اور انہیں دوسرے لوگوں تک پہنچانا ضروری ہو تو اصل الفاظ کا نعم البدل استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اسد مجید خان کا شمار ہمارے ٹاپ کے سفارت کاروں میں ہوتا ہے۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ سفیر محترم نے امریکی سفارت کار سے جو سنا وہ من و عن پاکستان لکھ بھیجا‘ یہ ان کی حب الوطنی اور ایمانداری کی دلیل ہے۔ رہی یہ بات کہ خط وزارت خارجہ میں ڈرافٹ کیا گیا‘ یہ انتہائی بودی اور عقل سے عاری دلیل ہے۔ اگر ایسی بات ہوتی تو کیا وزارت خارجہ امریکن ایمبیسی سے اسلام آباد میں احتجاج کر سکتی تھی؟
دوسری جانب دیکھیں تو تحریک انصاف کی حکومت نے سازش کا شوشہ صرف سیاسی فائدے کیلئے چھوڑا‘ لیکن ایسے حساس موضوعات کو وقتی سیاسی مفاد کیلئے استعمال کرنا ملک کیلئے خطرناک ہو سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں سازشوں کی تاریخ پرانی ہے۔ راولپنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض جیسے محب وطن بھی دھر لیے گئے۔ اگرتلہ سازش کے مرکزی ملزم کو ہم نے بعد میں الیکشن لڑنے کی اجازت دی اور جب نتائج ہماری پسند کے نہ آئے تو ہمارے اکثر لیڈروں نے ڈھاکہ میں اسمبلی سیشن اٹینڈ کرنے سے انکار کر دیا‘ ماسوائے خان عبدالولی خان کے۔ بھٹو صاحب نے خان عبدالولی خان کے خلاف حیدر آباد سازش کیس بنایا۔ حکومت بدلی تو جنرل ضیاالحق نے خان عبدالولی خان کو محب وطن قرار دیا۔ نہ جانے کیوں مجھے وزیراعظم عمران خان کا آناً فاناً اسمبلی توڑنا گورنر جنرل غلام محمد کا پارلیمنٹ توڑنا یاد دلا گیا۔ تب بھی نتائج کوئی اچھے نہیں نکلے تھے۔
سفارت کاری ٹھنڈے دل و دماغ کا کام ہے۔ یہاں غیر ضروری اور بے وقت کی بڑھکیں اکثر نقصان پہنچا جاتی ہیں اور اُس ملک کو تو بڑھکوں سے مکمل پرہیز کرنا چاہئے جس کے اقتصادی حالات پاکستان جیسے ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ہمارے وزیراعظم نے 2019ء میں ترکی کے صدر اردوان اور ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد سے جلد بازی میں وعدہ کر لیا تھا کہ کوالالمپور میں ایک سربراہی اجلاس اٹینڈ کریں گے جہاں او آئی سی کو فعال بنانے پر غور ہوگا۔ برادر ملک سعودی عرب اس سمٹ میں شرکت نہیں کر رہا تھا اور پھر پاکستان کو بھی اس اجتماع میں جانے سے معذرت کرنا پڑی۔
چند ہفتے پہلے یورپی یونین کے اسلام آباد میں موجود سفرا نے حکومت پاکستان کو روس یوکرین جنگ کے حوالے سے ایک علانیہ خط لکھا کہ پاکستان روسی جارحیت کی مذمت کرے۔ ایسا علانیہ مطالبہ واقعی سفارتی آداب کے خلاف تھا‘ ہمیں چاہئے تھا کہ سینئر ترین یورپی سفیر کو فارن آفس بُلا کر اپنی رائے اُسے بتا دیتے لیکن ہمارے وزیراعظم نے میلسی کے جلسہ میں برسر عام پوچھا کہ یورپی یونین کے ممبر ممالک کے سفرا نے ایسا مطالبہ نیو دہلی میں بھی کیا ہے؟ پی ٹی آئی کی حکومت خارجہ پالیسی کو مسلسل غیرت کی گولیاں کھلا رہی ہے۔ اگر وہ ایسا کرنے سے پہلے کشکول توڑ سکتی تو بات بن سکتی تھی لیکن ایسا ہوا نہیں۔ پچھلے سال وزیراعظم سے مفروضے پر مبنی سوال پوچھا گیا کہ اگر امریکہ آپ سے فضائی اڈے مانگے تو فوراً جواب ملا: Absolutely Not ۔ ملک میں خوب واہ واہ ہوئی کہ عرصے بعد کوئی غیرت مند لیڈر آیا ہے لیکن میرے خیال میں وزیراعظم اگر کہتے کہ میں مفروضوں پر مبنی سوالوں کے جواب نہیں دیتا تو بہتر ہوتا۔
دسمبر 2021ء تک پاکستان پر اکیس کھرب روپے بیرونی قرضہ تھا۔ داخلی قرضے اس کے علاوہ ہیں۔ آئی ایم ایف نے اگلی قسط کیلئے مذاکرات معطل کر دیے ہیں کیونکہ ملک سیاسی عدم استحکام کی زد میں ہے۔ FATF کی تلوار مسلسل ہمارے سر پر ہے۔ امریکہ ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ امریکہ کو جانے والی برآمدات ساڑھے چھ کروڑ ڈالر بنتی ہیں۔ یورپ کیلئے پاکستانی برآمدات کی مالیت اس سے دوگنا ہے۔ اس طرح سے ہماری دوتہائی برآمدات امریکہ اور یورپ جاتی ہیں۔
مندرجہ بالا شماریات سے دو چیزیں واضح ہوتی ہیں‘ اول یہ کہ پاکستان بہت زیادہ مقروض ہے۔ ہمارے زرمبادلہ کے ظاہر کردہ ذخائر اور اصل ذخائر میں بہت فرق ہے کیونکہ ان میں ایک حصہ دوست ممالک کی طرف سے رکھائی گئی رقوم بھی ہیں۔ پاکستان زرعی ملک ہے لیکن گندم‘ دالیں اور خوردنی تیل امپورٹ کرتا ہے۔ ہمارے فاقہ مستی کے دن ہیں لیکن پھر بھی بڑھکیں لگانا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔
میں لمبے تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جنگل میں رہنا ہے تو شیر کے ساتھ تعلقات مناسب ہونا ضروری ہیں۔ امریکہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں ہے۔ وہ فیٹف میں ہماری ڈور کھینچ سکتا ہے۔ آئی ایم ایف میں اس کا اثر و رسوخ باقی ممالک سے زیادہ ہے اور اگر خدانخواستہ امریکہ اور یورپ پاکستان پر تجارتی پابندیاں لگا دیں تو ہمارے بے شمار کارخانے بند ہو جائیں‘ پھر بے روزگاری کا طوفان آئے گا۔ اس حالت میں کیا ہم اپنے بے روزگار عوام کو غیرت کا ناشتہ‘ لنچ اور ڈنر کرائیں گے؟ اس لیے ضروری ہے کہ خارجہ پالیسی کو دھیمے سروں میں رکھا جائے۔ ہر بیرونی دھمکی کو سازش نہ گردانا جائے۔ عوامی جلسوں میں خارجہ امور کو نہ گھسیٹا جائے۔ اس سے کہیں ضروری ہے کہ اقتصادی ترقی پر تمام توجہ رکھی جائے اور سب سے پہلے کشکول توڑا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں