"JDC" (space) message & send to 7575

شیرین ابو عاقلہ اور فلسطین

گزشتہ ماہ الجزیرہ ٹی وی کی ممتاز رپورٹر شیرین ابو عاقلہ کو فلسطین کے شہر جنین میں قتل کر دیا گیا۔ شیرین کا چہرہ مشہور عربی چینل دیکھنے والے ناظرین کیلئے معروف تھا۔ اُس نے پچیس سال الجزیرہ کیلئے دلیری کے ساتھ رپورٹنگ کی۔ دنیا کے مختلف مقامات سے اہم واقعات اور احداث کو کور کیالیکن بڑی وجۂ شہرت فلسطین میں اسرائیلی بربریت کی شاندار کوریج تھی۔ میرے لیے ذاتی طور پر شیرین کی اندوہناک موت صدمے سے کم نہ تھی۔
قتل کے ہنگام شیرین فلسطین کے شہر جنین میں اسرائیلی فورسز کی حریت پسندوں کے خلاف کارروائی پر تبصرے میں مصروف تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جنین میں حماس اور الجہاد الاسلامی کے خفیہ گروپ مقیم ہیں جنہیں سکیورٹی کی اصطلاح میں Sleeping Cells کہا جاتا ہے۔ جنین کا شہر دریائے اردن کے کنارے القدس الشریف سے ستر کلو میٹر شمال میں واقع ہے۔ یہ شہر اردن کے علاقے اغوار سے نظر آتا ہے۔ 11مئی کو اسرائیلی سکیورٹی فورس حریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے جنین گئی تو شیرین نے فوراً الجزیرہ کو ای میل بھیجی کہ میں جنین جا رہی ہوں۔ شیرین کا گھر مشرقی القدس میں ہے جہاں سے جنین پون گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ اُس نے بلٹ پروف جیکٹ پہنی‘ ہیلمٹ ساتھ لیا اور جنین روانہ ہو گئی۔
فلسطینی حریت پسند اسرائیل کی نظر میں دہشت گرد ہیں۔ نائن الیون کے بعد اسرائیلی نقطۂ نظر کو تقویت ملی ہے۔ اُس دن اسرائیلی سکیورٹی فورس نے حریت پسندوں کے گھروں پر چھاپے مارے تو لوگ ہزاروں کی تعداد میں باہر نکل آئے‘ جھڑپیں شروع ہو گئیں۔شیرین اپنے ناظرین کو لمحہ بہ لمحہ خبریں دے رہی تھی۔ ا تنے میں الجزیرہ کے ناظرین نے دیکھا کہ وہ اچانک زمین پر ڈھیر ہو گئی۔ وقوعہ کے وقت اُس نے بلٹ پروف جیکٹ پہن رکھی تھی جس پر جلی حروف میں Pressلکھا ہوا تھا۔ اچانک فائرنگ تیز تر ہو گئی شیرین دوسرے صحافیوں کے ساتھ کسی جائے امان کی تلاش میں تھی کہ ایک اسرائیلی گولی اُس کے کان کے نیچے لگی اور وہ مائیک سمیت زمین پر گر گئی۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ ہجوم میں مسلح فلسطینی بھی موجود تھے اور شیرین کی وفات انہی کی گولی سے ہوئی ہے۔ فلسطینی کہتے ہیں کہ شیرین کو اسرائیل نے عمداً قتل کیا ہے‘ان کے پاس ثبوت کیلئے اس کارتوس کا خول محفوظ ہے جو واردات میں استعمال ہوا۔ یہ 5.56ایم ایم کا کارتوس ہے جو صرف اسرائیلی سکیورٹی فورس کے پاس ہے یا نیٹو کی افواج اسے استعمال کرتی ہیں۔ اس کارتوس میں سٹیل کے چھرے استعمال ہوتے ہیں۔
شیرین فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی مظالم کی دلیرانہ کوریج کی وجہ سے بہت پاپولر تھی۔ اس کا جنازہ بھی غیر معمولی تھا۔ لوگوں کے جذبات بے قابو ہو رہے تھے۔ اسرائیلی حکومت کو نقضِ امن کا خدشہ تھا لہٰذا اس کا اصرار تھا کہ تابوت ایمبولینس کے ذریعے ہسپتال سے چرچ جائے گا مگر فلسطینی مصر تھے کہ وہ تابوت کندھوں پر اٹھا کر منزلِ مقصود تک پہنچائیں گے۔ جنازہ بہت بڑا تھا۔ مرحومہ عقیدے کے اعتبار سے کرسچین تھیں لیکن جنازے میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ وہ فلسطین کے دکھی دل کی آواز تھی۔
شیرین دہری شہریت کی حامل تھی‘اُس کے پاس امریکی پاسپورٹ بھی تھا اور اسی وجہ سے امریکی حکومت نے بھی اسرائیل سے غیر جانبدار تحقیق کا مطالبہ کیا جو اسرائیل نے مان لیا لیکن فلسطینی عوام کو ایسی کسی تفتیش پر اعتبار نہیں اس لیے فلسطینیوں نے تفتیشی ٹیم کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے۔ الجزیرہ ٹی وی والے معاملہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (International Criminal Court)لے جانا چاہتے ہیں لیکن میری رائے میں یہ اقدام بھی بے ثمر ثابت ہوگا‘ وجہ یہ ہے کہ اسرائیل ICCکی عملداری کو تسلیم نہیں کرتا۔
اب آتے ہیں فلسطین کے حالات کی طرف۔ یہاں 78فیصد رقبے پر اسرائیل قائم ہے۔ بقیہ 22 فیصدعلاقے پر محدود فلسطینی عملداری ہے۔ فلسطینی اتھارٹی‘ جس کے صدر محمود عباس ہیں‘ کے پاس مغربی کنارے کا کچھ حصہ ہے جو 1967ء تک اردن کے پاس تھا۔Ramallah فلسطینی اتھارٹی کا دارالحکومت ہے جہاں الفتح کی حکومت ہے جبکہ غزہ کی پٹی پر حماس حکمران ہے۔ الفتح اور حماس کے مابین نظریاتی اختلافات ہیں۔ الفتح فلسطین کے مسئلے کے سیاسی حل کی حامی ہے جبکہ حماس کی رائے میں عسکری حل کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں کیونکہ سیاسی حل آزمایا جا چکا ہے۔
فلسطین کی موجودہ صورت حال تکلیف دہ ہے 2002ء میں اسرائیل نے سکیورٹی کی آڑ لے کر اپنی سرحدوںپر 770کلومیٹر لمبی کنکریٹ کی دیوار بنانا شروع کی تھی لیکن دیوار بناتے بناتے جہاں جہاں زرخیز فلسطینی زمین نظر آئی دیوار کی لکیر تبدیل کر لی گئی۔ 2004ء میں یہ معاملہ بین الاقوامی عدالت(International Court of Justice) کے سامنے گیا اور عدالت نے اس دیوار کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا۔ اسرائیل نے فیصلہ ماننے سے انکار کیا اور حجت یہ تھی کہ ہم اس عدالت کی عملداری سے ابتدا سے ہی انکاری ہیں۔ یہ آٹھ میٹر اونچی دیوار اب تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
فلسطین کا تین چوتھائی سے زائد علاقہ اب اسرائیل کہلاتا ہے اور اب باقی ماندہ علاقے کی حالت بھی بیان ہو جائے۔ دریائے اردن کے مغربی علاقے کو تین سیکٹرز یعنی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سیکٹرA میں فلسطینی اتھارٹی کی عملداری ہے۔ یہ فلسطینی رقبے کا 18فیصد ہے۔ یہاں کے سول معاملات فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول میں ہیں لیکن اتھارٹی کے پاس صرف پولیس ہے اپنی کوئی فوج نہیں۔ سیکٹرBمیں سکیورٹی کا بندوبست اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کا مشترکہ ہے۔سیکٹر C جو مقبوضہ فلسطین کا 60فیصد ہے‘ یہاں مکمل طور پر اسرائیل کا کنٹرول ہے۔یہاں فلسطینیوں کی آبادی تین لاکھ ہے جبکہ چار لاکھ یہودی نئی بستیوں میں آباد ہو چکے ہیں۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ فلسطینی عوام کو اپنے ہی علاقے میں سفر کرتے ہوئے چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے جو اسرائیلی کنٹرول میں ہیں۔
فلسطینی آزادی واقعی برائے نام ہے۔ نہ ان کے پاس اپنا کوئی ایئر پورٹ ہے اور نہ بندرگاہ۔ اگر صدر محمود عباس نے بھی بیرونِ ملک سفر کرنا ہو تو اسرائیلی چیک پوسٹ سے گزر کر جانا پڑتا ہے اور اس کی پیشگی اطلاع ضروری ہے۔ وہ اردن کے راستے ہی بیرونِ ملک سفر کر سکتے ہیں۔ اوسلو معاہدے کے بعد غزہ کی پٹی پر ایک ایئر پورٹ بننا شروع ہوا تھا لیکن جب انتفاضہ شروع ہوا تو اسرائیلی بمباری سے یہ ایئر پورٹ تباہ ہو گیا۔ غزہ کی پٹی ایک جانب سے سمندر سے متصل ہے‘ یہاں ایک چھوٹی سی بندرگاہ ہے جسے ماہی گیر استعمال کرتے ہیں‘ سمندر اسرائیلی نیوی کے زیر تسلط ہے۔ فلسطینی ماہی گیر اپنی جان پر کھیل کر رزق کی تلاش میں سمندر کا رخ کرتے ہیں۔فلسطین میں عمومی طور پر القدس الشریف میں خاص طور پر جذبات دونوں جانب قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔پچھلے ہفتے انتہا پسند یہودی‘ جنہیں صہیونی کہا جاتا ہے‘ نے مسجد اقصیٰ کے سامنے اسرائیلی جھنڈے اٹھا کر بہت بڑی پریڈ کی۔ یہ پریڈ یا منظم مظاہرہ ہر سال 1967ء کی جنگ میں اسرائیل کی فتح منانے کیلئے کیا جاتا ہے لیکن اس سال یہ مظاہرہ عددی اعتبار سے بہت بڑا تھا۔
فلسطین کی موجودہ افسوسناک صورتحال کے بارے میں لکھتے ہوئے مجھے بار بار احساس ہو رہا تھا کہ پاکستان کتنی بڑی نعمت ہے لیکن ہم اس نعمت کی قدر کرنے کے بجائے اقتدار کی بے معنی جنگیں لڑ رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن سر جوڑ کر بیٹھیں اور قومی مسائل کا حل تلاش کریں۔ ملک سب کا ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں