"JDC" (space) message & send to 7575

حکومتِ پاکستان غریب کیوں!

یقین مانیں پاکستان اتنا غریب نہیں ہے جتنی حکومتِ پاکستان کنگال ہو چکی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں صوبائی حکومتوں کے مالی حالات مرکز سے بہت بہتر ہیں۔ ہم یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ دبئی کی پراپرٹی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے لحاظ سے پاکستانی اس وقت تیسرے نمبر پر ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پاکستانی شہریوں نے وہاں ساڑھے دس ارب ڈالر کی پراپرٹی خریدی ہے تو پھر حکومتِ پاکستان ہی اتنی غریب کیوں ہے؟ آئیے اسباب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان کے حکمرانوں کو آغاز ہی سے فارن ایڈ کی عادت پڑ گئی تھی۔ معروف امریکن ایڈ کا پروگرام PL480‘ 1954ء میں شروع ہوا اور 1991ء تک چلا۔ 1960ء کی دہائی میں امریکن امداد کل فارن ایڈ کا 55 فیصد تھی۔ ہمارے بجٹ کا 35 فیصد حصہ امریکہ فنانس کرتا تھا۔ امریکن امداد کا بڑا حصہ گندم‘ خوردنی تیل اور خشک دودھ کی شکل میں آتا تھا۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ امریکن امداد نے حکومتِ پاکستان کو غریب کیسے کر دیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں مفت خوری کی لت لگ گئی ہے لہٰذا ہمیں ٹیکس جمع کرنے اور خود انحصاری کی طرف بڑھنے کی ضرورت بہت کم محسوس ہوئی۔ 1991ء میں جب سرد جنگ ختم ہوئی تو PL480 کی سیڑھی پاکستان سے کھینچ لی گئی۔ بہانہ ایٹمی پروگرام کے پھیلاؤ کا لگایا گیا لیکن حقیقت یہ تھی کہ اب امریکہ کو پاکستان کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ لیکن دریں اثنا ہماری عادتیں خراب ہو چکی تھیں۔ کراچی میں امریکی گندم کے جہاز لنگر انداز ہوتے تھے تو گندم کی بوریاں اونٹ گاڑیوں پر لاد کر ریلوے سٹیشن پرلائی جاتی تھیں۔ اونٹوں کے گلے میں تختی لٹک رہی ہوتی تھی جس پر Thank you America لکھا ہوتا تھا۔ یہ نہیں معلوم کہ یہ حرکت امریکہ کی ڈیمانڈ پر ہوتی تھی یا ہم خود ہی بڑھ چڑھ کر امریکہ کے لیے اظہارِ تشکر کرنا چاہتے تھے اور اِس خواہش میں حد سے آگے بڑھ گئے لیکن جب PL480 کی سیڑھی کھینچ لی گئی تو ہم دھڑام سے نیچے گرے اور محسوس کیا کہ ٹیکس کا دائرہ بڑھانا ضروری ہے‘ خود انحصاری کی طرف سفر وقت کا تقاضا ہے لیکن ہماری اشرافیہ ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ ہماری پارلیمنٹ میں فیوڈل لارڈ بیٹھے تھے اور انہیں زرعی انکم ٹیکس کی اصطلاح سے چِڑ تھی۔1990ء میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک (ADB) نے ایک قرض زرعی انکم ٹیکس سے مشروط کیا۔ اس وقت کے نگران وزیراعظم بہت بڑے لینڈ لارڈ تھے۔ معاملہ کابینہ میں پیش ہوا وہاں بھی لینڈ لارڈ بیٹھے ہوئے تھے چنانچہ سخت مخالفت ہوئی یہاں تک کہا گیا کہ زرعی انکم ٹیکس لگایا گیا تو زرعی پیداوار پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور ملک میں قحط کی صورت حال پیدا ہو گی لیکن مجوزہ ٹیکس چونکہ بہت ہی معمولی تھا لہٰذا وزیراعظم نے یہ کہہ کر منظوری دے دی کہ پاکستان کو فارن ایکسچینج کی اشد ضرورت ہے مگر آج بھی زرعی انکم ٹیکس کا قومی خزانے میں حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ حالیہ بجٹ میں موجودہ حکومت نے ہر پرچون فروش پر سو روپے روزانہ ٹیکس تجویز کیا تھا‘ اس ٹیکس کو بجلی کے بل کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا یعنی زیادہ بجلی استعمال کرنے والا دکاندار زیادہ ٹیکس دے گا۔ تاجر طبقے کی طرف سے مزاحمت ہوئی۔ مریم نواز نے اس ٹیکس کے خلاف بیان ٹویٹر پر لکھ دیا۔ حکومت نے ٹیکس واپس لے لیا۔ مریم بی بی کے ایک ٹویٹ سے حکومتِ پاکستان کا اربوں کا نقصان ہو گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ملک میں پرچون فروشوں کی تعداد اٹھارہ لاکھ کے قریب ہے۔ دراصل تاجر طبقہ مسلم لیگ (نواز) کا ووٹر ہے لہٰذا جمہوریت کا حسن برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ تاجروں کا ٹیکس معاف کر دیا جائے۔ حکومت کنگال ہوتی ہے تو ہوتی رہے ہمیں ووٹ چاہئیں اور اقتدار۔
اور اب آتے ہی ا ٹھارہویں آئینی ترمیم اور اس کے نتیجے میں دیے جانے والے نیشنل فنانشل ایوارڈ کی جانب۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد جو کنفیوژن پھیلی ہے اس کی ایک جھلک ہم نے حالیہ سیلاب میں دیکھ لی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا سبجیکٹ اب صوبوں کے پاس ہے اور این ڈی ایم اے وفاق کے پاس ہے نتیجتاً کنفیوژن میں ہونے والی تباہی ہم نے دیکھ لی ہے۔ خیر اٹھارہویں ترمیم ہمارا آج کا موضوعِ سخن نہیں البتہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت مرکزی حکومت اپنے جمع کردہ ریونیو کا 57.5 فیصد صوبوں کو دینے کی پابند ہے بقیہ 42.5 فیصد سے وہ کئی بڑے بڑے کام کرتی ہے۔ بجٹ کا چالیس فیصد سے زائد حصہ اس سال قرضوں اور سود کی ادائیگی میں صرف ہوا ہے۔ دس فیصد پاکستان سٹیل‘ پاکستان ریلوے اور پی آئی اے جیسے سفید ہاتھیوں کو زندہ رکھنے میں لگ جاتا ہے۔ باقی جو بچتا ہے اس سے ساری فیڈرل حکومت چلتی ہے۔ تنخواہیں اور پنشن دی جاتی ہے اور پنشن کے اخراجات تنخواہوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ پھر وزراء اور مشیروں کی فوج ظفر موج ہے۔ موجودہ حکومت کے وزیروں کے دوروں پر ذرا غور کریں۔ قطر میں ہوائی جہاز بھر کے جاتا ہے۔ یہاں پورا ملک نیاگرا فال بنا ہوا ہے مگر سپیکر قومی اسمبلی ٹورونٹو کے پاس نیاگرا فال کی سیر کرتے ہوئے پائے گئے ہیں۔
اسلام آباد کی حکومت کو کوستا بھی ہوں مگر داد بھی دیتا ہوں کہ ان حالات میں بھی ہمیں ہر ماہ پنشن مل جاتی ہے لیکن وہ دن دور نہیں جب آئی ایم ایف پنشن پر ٹیکس لگانے کا مطالبہ کرے گا۔ آخری این ایف سی ایوارڈ سے پہلے مرکزی حکومت کا محصولات میں حصہ اچھا خاصا تھا اور اٹھارہویں ترمیم اور ایوارڈ کے بعد مرکز کا شیئر خاصا شرنک کر گیا ہے۔ عجیب ستم ظریفی ہے کہ ٹیکس وصول مرکز کرتا ہے اور پھر بیشتر حصہ صوبوں کو دے دیتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مرکز کو صوبے ٹیکس جمع کرنے کے سروس چارجز دیتے اور مرکز صوبائی اخراجات کی نگرانی بھی کرتا لیکن ایسا نہیں ہوا تو پھر چہ عجب کہ ایک صوبائی سیکرٹری کے گھر سے چند سال پہلے ستر کروڑ روپے کا کیش برآمد ہوا۔
چند سال پہلے تک پوزیشن یہ تھی کہ مرکزی وزارتِ خزانہ کے کہنے پر سٹیٹ بینک اضافی کرنسی نوٹ چھاپ دیتا تھا‘ مرکزی حکومت کی سفید پوشی کا بھرم اسی اختیار کی وجہ سے قائم تھا۔ پھر یوں ہوا کہ آئی ایم ایف نے قرض دینے سے پہلے یہ شرط لگائی کہ نوٹ چھاپنے والا اختیار حکومتِ پاکستان سے واپس لے لیا جائے۔ امریکہ میں بڑا مستعمل محاورہ ہے کہ There is no free land تو کچھ ایسی ہی بات آئی ایم ایف نے کہی کہ ہماری رقم چاہیے تو شرائط ماننا ہوں گی اور بقول وزیراعظم شہباز شریف Beggars can't be choosers تو جناب ہماری مرکزی حکومت کی حالت ایسے 75 سالہ نواب صاحب جیسی ہے جو شروع سے اخراجات میں غیر محتاط تھے‘ ان کے چار بیٹے تھے جو سب جوان تھے۔ چاروں نے تقاضا کیا کہ ہمیں اخراجات کے لیے زیادہ رقوم دی جائیں البتہ جاگیر کے اخراجات ابا جان ہی چلائیں گے۔ آتے جاتے مہمانوں کی خاطر تواضع بھی وہی کریں۔ جاگیر پر حملے کا خدشہ ہو تو دفاع بھی نواب صاحب ہی کریں گے۔ چند سال بعد جب نواب صاحب کنگال ہونے لگے تو بیٹوں کو بلا کر ساری صورت حال سمجھائی۔ بیٹوں کا جواب تھا کہ آپ نے ساری عمر نوابی کی ہے۔ تمام بڑے بڑے نوابوں سے دوستی ہے۔ اب آپ ان سے قرض لے لیا کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں