"JDC" (space) message & send to 7575

اصلی اور نقلی نیلسن منڈیلا

ہمارے سیاسی لیڈروں کودنیا کے عظیم انقلابی قائدین کے ساتھ اپنا نام کسی نہ کسی طرح منسوب کرنے کا شوق رہتا ہے۔ نواز شریف ایک زمانے میں نیلسن منڈیلا کے گرویدہ تھے۔ اب عمران خان کا کہنا ہے کہ نواز شریف بطور نیلسن منڈیلا واپس آنا چاہتے ہیں۔ اگلے روز فواد چودھری نے اسلام آباد کی عدالت میں کہا کہ حکومت گرفتار کر کے مجھے نیلسن منڈیلا بنا رہی ہے۔ جج صاحب کی حسنِ ظرافت پھڑکی اور کہا کہ اس کیلئے آپ کو 27سال جیل کاٹنا ہوگی۔
تو آئیے دیکھتے ہیں کہ اصلی اور نقلی نیلسن منڈیلا میں کیا فرق ہے۔ سب سے بڑا فرق تو یہ ہے کہ نیلسن منڈیلا کے طویل سیاسی کیریئر میں مکمل یکسوئی نظر آتی ہے‘ وہ ساری عمر افریقن نیشنل کانگریس (ANC)سے وابستہ رہے جبکہ ہمارے نیلسن منڈیلا نمبر ون یعنی نواز شریف نے اپنے سیاسی سفرکا آغاز تحریکِ استقلال سے کیا‘ پھر وہ ایک عرصے تک ایک آمر کی گود میں بیٹھے رہے۔ مسلم لیگ اُن کے زمانے میں دولخت ہوئی۔ ایک دھڑا جونیجو لیگ بن گیا اور دوسرا (ن) لیگ۔ اُن کا خاندان اب مکمل طور پر( ن) لیگ پر قابض ہے۔ ہمارے نیلسن منڈیلا نمبر دویعنی فواد چودھری ایک آمر کی کابینہ کا حصہ رہے‘ پھرپیپلز پارٹی کے دور میں وزیر رہے اور آج کل تحریک انصاف کے ترجمان ہیں۔ جہلم کے معروف سیاسی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ میں چونکہ پی ٹی آئی کا ووٹر رہا ہوں لہٰذا مجھے اچھے لگتے ہیں ان کی گرفتاری پر مجھے افسوس ہوا ہے جرم اتنا بڑا نہیں تھا جس قدر شدید ردعمل دکھایا گیا ہے۔ بات موضوع سے ہٹ رہی ہے۔ 1994ء میں ساری عمر کی جدوجہد کے بعد نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے صدر منتخب ہوئے تو کابینہ میں ان کی فیملی کا ایک شخص بھی شامل نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی منڈیلا کا پوتا یا پوتی یا نواسا نواسی آج اے این سی پر مسلط نہیں ہے جبکہ ہمارے نیلسن منڈیلا نے ہر اول دستے کے طور پر دخترِ نیک اختر کو لندن سے بھیج دیا ہے۔
میں چونکہ حال ہی میں جنوبی افریقہ سے ہو کر آیا ہوں اور وہاں روبن آئی لینڈ پر واقع اُس جیل کو دیکھنے کا موقع بھی ملا جہاں منڈیلا نے زندگی کے قیمتی سال ایسے حالات میں گزارے جن کا تصور کر کے بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دن کا بیشتر حصہ پتھر کوٹنا اور ایک تنگ کمرے میں قیدِ تنہائی۔ یہ وہ کمرہ تھا جہاں کوئی بیڈ نہیں تھا۔ وہ سالوں تک فرش پر بچھی ہوئی چٹائی پر سوتا رہا۔ کمرے کے ایک کونے میں رفع حاجت کیلئے ایک بالٹی تھی جو دن میں ا یک دفعہ صاف ہوتی تھی۔ اس پورے عرصے میں منڈیلا نے وہی کھانا کھایا جو عام قیدی کھاتے تھے۔ ہمارے ہاں تو میاں نواز شریف ہوں یا فواد چودھری کھانا باہر سے آتا ہے۔ نیلسن منڈیلا کو جیل سے نکلنے کیلئے میڈیکل سرٹیفکیٹ بنوانے کی ترکیب بھی نہ سوجھی۔ منڈیلا انسانی حقوق اور مساوات کا وہ عاشق تھا جس نے قیس کی طرح برسوں سختیاں برداشت کیں صحرا نوردی کی اور یہ ہمارے نام نہاد انقلابی وہ رانجھے ہیں جو اقتدار کے عاشق ہیں ضرور مگر سختیاں برداشت کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔یہ لیلائے اقتدار کے حصول میں اس لئے سر گرداں رہتے ہیں کہ کامیابی کے بعد چوری کھانے کو ملتی ہے۔
نیلسن منڈیلا نے 1994ء میں اقتدار سنبھالا اور 1999ء میں ٹرم پوری ہونے پر چھوڑ دیا۔وہ چاہتے تو ایک اشارے سے دوسری ٹرم لے سکتے تھے‘ لیکن وہ بولے کہ اب میں اَسی سال کا ہو گیا ہوں‘ لہٰذا ریٹائر ہونا چاہتا ہوں‘ زندگی کے باقی ماندہ چودہ سال منڈیلا نے خیراتی کاموںمیں گزارے۔نوبل امن انعام کے حقدار ٹھہرے‘ کتابیں لکھیں‘ 2013ء میں وفات پائی تو کل اثاثے 44لاکھ ڈالر تھے اور ان میں گاؤں کا ایک گھر اور جوہنسبرگ میں ایک گھر بھی شامل تھے۔ نوبل امن انعام کے ساتھ نقد ملنے والی رقم تقریباً نو لاکھ ڈالر کے برابر تھی۔ کتابوں کی رائلٹی اس کے علاوہ تھی۔ان کی مشہور خود نوشتLong Walk to Freedom ساری دنیا میں خوب خریدی گئی۔ ساؤتھ افریقہ سے باہر ان کی کوئی پراپرٹی نہ تھی۔ کیا میاں نواز شریف یا فواد چودھری نے آج تک کوئی کتاب لکھی ہے؟ میرے علم میں تو نہیں۔
میاں نواز شریف ایک مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور تین مرتبہ وزیراعظم پاکستان رہ چکے ہیں اور شنید ہے کہ چوتھی مرتبہ اقتدار میں آنے کی خواہش بھی موجود ہے۔ 2011ء سے پہلے ہمارے آئین میں تھا کہ کوئی بھی شخص دو مرتبہ سے زائد وزیراعظم نہیں بن سکے گا لیکن میاں صاحب کے دل میں تیسری مرتبہ اقتدار سنبھالنے کی شدید حسرت تھی لہٰذا (ن) لیگ نے آنکھیں بند کر کے اٹھارویں ترمیم پر سائن کر دیئے اور وفاق پاکستان کی چولیں ہلا دیں۔فواد چودھری نے یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ جنرل مشرف اور عمران خان کے دورِاقتدار میں حکومتوں میں شرکت کی اور مختلف خیالات کے حکمرانوں کے ہم خیال رہے۔ نیلسن منڈیلا نے تو کبھی ایسا نہیں کیا۔
فواد چودھری پر الزام ہے کہ ایک ریاستی ادارے یعنی الیکشن کمیشن کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2017 ء میں نکالے جانے کے بعد میاں نواز شریف بار بار ایک ہی سوال کر رہے تھے کہ مجھے کیوں نکالا اور پھر اسی سوال کی خود تشریح کرتے ہوئے ایک مقتدر ادارے کو خوب کوستے تھے۔ نیلسن منڈیلا نے ساری عمر نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کی وہ گورے اور کالے کی برابری کے دل سے قائل تھے۔ گورے لوگوں کی اقلیت اقتدار پر قابض تھی وہ کالوں کے ساتھ ایک بنچ پر بھی بیٹھنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ منڈیلا اقتدار میں آئے تو اپنے آپ پر ہوئے طویل ظلم کا بدلہ لے سکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا۔Truth and Reconciliation Commission بنایا۔ گوروں کو معاف کر دیا۔ برداشت اور رواداری کو فروغ دیا اگر وہ ا یسا نہ کرتے اور چُن چُن کر بدلے لینے لگتے تو ساؤتھ افریقہ کا حال بھی زمبابوے جیسا ہوتا۔ نفرتوں پر مبنی پالیسیاں ملکوں کو کمزور کر دیتی ہیں اور ہم نے پاکستان میں ایسا ہوتے دیکھا ہے۔ ہمارے ہاں رواداری اور برداشت کی سخت کمی ہے۔
کیا ہمارے مذکورہ بالا لیڈر جیل کی وہ سختیاں برداشت کر سکتے ہیں جو نیلسن منڈیلا نے سالہا سال تک برداشت کیں؟ یہ تو جیل کے تصور سے ہی خوفزدہ ہیں اور کئی سال تک لندن میں بیٹھے رہتے ہیں کہ خدانخواستہ کہیں دوبارہ جیل نہ جانا پڑ جائے‘ حالانکہ ان کی جیل بھی منڈیلا کے جیل سیل کے مقابلے میں کہیں آرام دہ اور کشادہ ہوتی ہے۔ہمارے نیلسن منڈیلا کا لندن میں اپنے اپارٹمنٹ سے باہر آنا محال ہے۔ باہر آتے ہیں تو نعرے لگنے شروع ہو جاتے ہیں اور فواد چودھری کو تو پاکستان سے باہر شاید کپتان کے کھلاڑی ہی جانتے ہوں‘کوئی غیر پاکستانی انہیں نہیں جانتا جبکہ نیلسن منڈیلا آخری وقت تک تمام دنیا میں معروف تھے اور آج بھی ہیں۔ 2004ء میں وہ ایتھنز آئے تھے‘ میں وہاں اُن دنوں سفیر تھا‘ ایک بڑے ہال میں یونانی حکومت نے تقریب منعقد کی تمام سفرا گئے پارلیمنٹ کے ممبر‘ وزرا‘ سیاسی لیڈر اور دانشور ان کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھے۔ جب منڈیلا نے تقریر شروع کی تو مکمل خاموشی تھی۔لیڈر ا پنے کردار سے بنتے ہیں۔ بنائے نہیں جاتے۔ منڈیلا اب جنوبی افریقہ کی تاریخ کا روشن باب ہے۔ ہر کوئی اس کا نام احترام سے لیتا ہے اور یہ میں خود دیکھ کر آیا ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں