"JDC" (space) message & send to 7575

پاکستان اور عرب عوام

عالمِ عرب کا نام آتے ہی ہمارے ذہن میں دو تصورات آتے ہیں‘ ایک پٹرول کی دولت اور دوسرا مقاماتِ مقدسہ۔ لاکھوں پاکستانی ہر سال حج اور عمرہ کے لیے سعودی عرب اور زیارات کے لیے شام اور عراق جاتے ہیں۔ ہماری حکومتوں کا عرب حکمرانوں سے رابطہ رہتا ہے‘ سفارت خانوں کے ذریعہ بھی اور براہِ راست بھی۔ پاکستان میں ہر نئی حکومت کا لیڈر سب سے پہلے سعودی عرب‘ چین اور ترکی جانے کا خواہش مند ہوتا ہے۔
پاکستانی اور عرب عوام کا باہمی رابطہ کمزور ہو رہا ہے۔ وہاں ہم حج زائرین یا زیارات زائرین تک محدود ہر رہے ہیں۔ عرب ممالک کے ساتھ ہماری تجارت بھی اس حجم کی نہیں جتنی ہونی چاہیے۔ پاکستان میں عرب سرمایہ کاری انڈیا کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں عرب طلبہ کی اچھی خاصی تعداد ہوتی تھی جو کہ اب کم ہو گئی ہے۔ اسلام آباد میں بھی عرب کمیونٹی سکڑ گئی ہے۔ آئیے! وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میرا اسلام آباد میں مقیم عرب لوگوں سے رابطہ رہتا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے ہمارے ہاں مقیم عربوں کی اور عرب دنیا کے عوام کی پاکستان کے بارے میں منفی رائے سکیورٹی خدشات کے حوالے سے رہی ہے۔ اس ضمن میں بدترین وقت 2008ء سے 2012ء کے درمیان تھا‘ جب سوات آپریشن ہو رہا تھا۔ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر حملہ ہوا۔ سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملہ ہوا۔ ہمارے شہروں میں روزانہ شدت پسندی کے واقعات ہوتے تھے‘ عرب میڈیا پر مجھے اکثر کہا جاتا تھا کہ پاکستان دہشت گردوں کا مرغی خانہ ہے جہاں روزانہ نئے چوزے نکلتے ہیں‘ جو جلد ہی جوان ہو جاتے ہیں۔ اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری جیسے کئی لوگ عرب ممالک سے ہی آئے تھے‘ اس لیے عرب میڈیا ہمارے حالات پر مسلسل نظر رکھے ہوئے تھا۔ عرب حکمرانوں کو خوف تھا کہ یہ لوگ افغانستان اور پاکستان سے فارغ ہو کر واپس اپنے وطن آئیں گے۔
انہی دنوں میں ایک عرب ملک کے قومی دن کی تقریب میں شرکت کے لیے ڈپلومیٹک انکلیو گیا ہوا تھا۔ ایک عرب سفارت کار سے میں نے پوچھا کہ آپ پاکستان میں خوش ہیں؟ اس نے جواباً پوچھا کہ آپ کے سوال کا جواب سفارتی انداز سے دوں یا صراحت سے؟ میں نے کہا کہ آپ بلاجھجک سچی بات بتائیں۔ کہنے لگا: برادر ہم لوگ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے ڈپلومیٹک انکلیو میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔انہی دنوں اسلام آباد میں مقیم ایک عرب صحافی کی شادی ہوئی۔ اس کی دلہن کا تعلق فلسطین سے تھا۔ میں نے مبارک باد دی تو کہنے لگا کہ بڑی مشکل سے یہ مرحلہ طے ہوا ہے۔ کئی جگہ بات چلی مگر آخر یہی جواب ملتا تھا کہ جہاں آپ رہتے ہیں وہ جگہ خطرناک ہے‘ ہم نہیں چاہتے کہ اپنی بیٹی کے بارے میں مسلسل پریشان رہیں۔
اور اب آتے ہیں عرب طلبہ کی جانب۔ ایک زمانے میں پاکستان میں عرب سٹوڈنٹس کثیر تعداد میں ہوتے تھے۔ یہ فارغ التحصیل ہو کر واپس اپنے ملکوں میں جاتے تھے تو ہمارے سفیر ہوتے تھے۔ اب عرب طلبہ کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ انڈیا میں ان کی تعداد پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ وجوہات یہ بتائی جا رہی ہیں کہ حکومت پاکستان نے وظائف کم کر دیے ہیں اور پاکستانی یونیورسٹیوں نے اجانب کیلئے فیس کئی گنا بڑھا دی ہے۔ پاکستان میں موجود عرب طلبہ ایک اور تلخ حقیقت بھی بیان کرتے ہیں اور وہ یہ کہ انڈیا میں معیارِ تعلیم پاکستان سے بہتر ہے۔ اس کے علاوہ یہ کہ ترکی اور پاکستان میں طالب علم کا ماہانہ خرچ تقریباً مساوی ہے لہٰذا عرب سٹوڈنٹ ترکی کو ترجیح دیتے ہیں۔
عرب خلیجی ممالک میں ورکرز انڈیا‘ پاکستان‘ سری لنکا‘ بنگلہ دیش اور نیپال وغیرہ سے گئے ہیں۔ ان سب ممالک میں سے پاکستانی ورکرز عزتِ نفس کا زیادہ خیال رکھتے ہیں جبکہ بنگلہ دیشی‘ سری لنکن اور نیپالی اس کہاوت کی مکمل پاسداری کرتے ہیں کہ نوکری اور نخرہ ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ ان قومیتوں میں سے سب سے زیادہ تنخواہ فلپائنی ورکر پاتے ہیں کیونکہ وہ بیک وقت کئی کام جانتے ہیں مثلاً ایک فلپائنی ڈرائیور عین ممکن ہے کہ الیکٹریشن اور پلمبر کا کام بھی جانتا ہو۔
عرب ممالک میں بھی دنیا بھر کی قومیتوں کی درجہ بندی قائم ہے اور یہ عوامی اور ذہنی سطح پر ہے۔ اس سماجی درجہ بندی میں امریکن اور یورپین سب سے اوپر ہیں‘ عوامی زبان میں ان کے نام کے ساتھ خواجہ کا سابقہ لگتا ہے۔ ترکی ایشین ملک ہے لیکن صدیوں تک عرب ممالک پر حکمران رہا ہے۔ ترک باشندوں کے لیے عمومی طور پر صدیق کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ پاکستانی اور بنگلہ دیشی ورکر کو یا رفیق کہہ کر بلایا جاتا ہے۔ یہ لفظ ویسے تو توہین آمیز نہیں لیکن اجانب کے لیے سماجی طور پر ایک نچلا درجہ ہے۔
اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہم اس صورتحال تک کیسے پہنچے۔ عرب دنیا میں ہمارا امیج خراب کرنے میں ہیومن سمگلنگ کا بڑا ہاتھ ہے۔ میں جب سلطنتِ عمان میں پاکستانی سفیر تھا تو یہ مسئلہ خطرناک حد کو چھو رہا تھا۔ پاکستانی غریب ورکر زمینی سرحد سے ایران میں داخل ہوتے تھے۔ ان لوگوں کی سہولت کاری پاکستان‘ ایران اور عمان میں موجود ایجنٹ کرتے تھے۔ اب آپ پوچھ سکتے ہیں کہ عمانیوں کا اس میں کیا فائدہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر قانونی طور پر آنے والا ورکر کم اجرت پر کام کرتا ہے۔ پاکستانی اور ایرانی ایجنٹ اس سے اپنا کمیشن وصول کرتے ہیں۔ اس قبیح فعل کو روکنا ہماری ایف آئی اے کی ذمہ داری ہے مگر اپنے اس فرض کی ادائیگی میں ایف آئی اے خاصی ناکام نظر آتی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں لیبیا اور اٹلی کے درمیان دو کشتیوں کو حادثات پیش آئے‘ دونوں میں مختلف ملکوں کے لوگ تھے جو غیر قانونی طور پر اٹلی جا رہے تھے۔ دونوں کشتیوں میں پاکستانیوں کی اچھی خاصی تعداد تھی۔
عمومی طور پر پوری دنیا میں منفی خبریں میڈیا کی دلچسپی کا باعث بنتی ہیں۔ 1980ء میں جب افغانستان میں سوویت عسکری مداخلت کے خلاف مزاحمت ہو رہی تھی تو عرب میڈیا کے کئی لوگ باقاعدگی سے اسلام آباد اور پشاور آتے تھے۔ نائن الیون ہوا تو ہمارا خطہ پھر ان کی دلچسپی کا محور تھا۔ سوات آپریشن کے دوران مجھے یاد ہے کہ عرب چینلز پر میرے اکثر انٹرویو ہوتے تھے۔ ان دنوں عرب ٹی وی جرنلسٹ خاصی بڑی تعداد میں ہمارے ہاں موجود تھے۔ پھر پاکستان میں دہشت گردی بتدریج کم ہوئی اور ادھر عرب سپرنگ شروع ہو گیا تو عرب میڈیا ہمہ وقت شام‘ لیبیا‘ تیونس اور یمن کی خبروں میں مصروف ہو گیا۔ پاکستان میں موجود عرب جرنلسٹ کم ہوتے گئے۔
منشیات کی سمگلنگ کے حوالے سے خلیجی ممالک میں سخت قوانین ہیں۔ ایک بڑے ملک میں اس جرم کی سزا موت ہے جو سرعام دی جاتی تھی۔ جلاد مجرموں کی گردنیں شہر کے ایک مصروف چوک میں ایک ہی جھٹکے میں اڑا دیتے تھے اور اگلے روز یہ خبر میڈیا میں نمایاں طور پر نشر ہوتی تھی۔ سزا پانے والوں میں پاکستانی شہری بھی ہوتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ سزائے موت پانے والوں میں کئی ایسے غیر قانونی تارکین وطن بھی شامل ہوتے تھے جنہوں نے پاکستانی پاسپورٹ حاصل کر لیے تھے۔
پاکستان کا بیرونِ ملک امیج دیکھ کر بد سے بدنام برا والی کہاوت یاد آتی ہے‘ ہم یقینا اتنے برے نہیں جتنے دنیا کو نظر آتے ہیں لیکن ہمارا پاسپورٹ مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے حالانکہ اکثر پاکستانی مسافروں کا جرائم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایک گندی مچھلی پورے جال کو گندا کر دیتی ہے۔ ہمارا امیج کیسے بہتر ہو سکتا ہے‘ یہ بحث پھر کبھی سہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں