فضا میں خوف کا راج تھا۔ ہر کوئی مستقبل کے بارے میں پریشان تھا۔ موت کب کس کے دروازے پر دستک دے گی ؟کسی کو معلوم نہیں تھا۔وبا آتی ہے ‘ تو اپنے ساتھ سب کو لے جاتی ہے۔وبا انسان کو انسان سے الگ کردیتی ہے۔انسان اپنے سائے سے ڈرنے لگتا ہے اور موت کا خوف اور انتظار معاشرتی جمالیاتی ادبی فنی مباحث ادبیات اور فلسفیانہ افکار پر جمود طاری کردیتا ہے۔
کچھ ایسا ہی سولہویں صدی میں لندن میں ہوا‘ جب وہاں طاعون کی وبا پھیل گئی۔طاعون بہت دردناک بیماری تھی‘ یہ چوہوں سے پھیلتی تھی۔اس وقت انگلینڈ ‘ سکاٹ لینڈ ‘آئرلینڈ پر چارلس دُوم کی حکومت تھی۔یہ بیماری جب پھیلنے لگی تو بادشاہ رعایا کو وبا کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود آکسفورڈ محفوظ مقام پر چلا گیا۔رعایا اب‘ مکمل طور پر وبا کی لپیٹ میں تھی۔یہ بوبونک طاعون کی وبا تھی‘ جس میں جسم پر پھوڑے اور گلٹیاں نکل آتی تھیں۔انسان بخار میں مبتلا ہوجاتا تھا اور بغل کی گلٹیوں میں درد اس کو سکون نہیں لینے دیتا تھا۔میونسپلٹی کے لوگ چوہوں کو پکڑ پکڑ کر مارنے لگے ‘چوہوں کو مار کر جلا دیا گیا‘ لیکن وبا ہر طرف پھیل چکی تھی ۔ہر دوسرا بندہ بیمار تھا اور طبیب علاج کو تیار نہ تھے۔وہ اس بات سے خوفزدہ تھے کہ کہیں بیماری انہیں نہ لگ جائے۔طاعون وبا سے انسان تڑپ رہے تھے اور علاج موجود نہیں تھا۔
لندن کے غریب علاقوں میں اس وقت نہ ہی نکاسیٔ آب کا نظام تھا اور نہ ہی وہاں سے دھوپ اور ہوا کا گزر تھا۔گندگی کے ڈھیر تھے اور جانوروں کا فضلہ ہرطرف پھیلا تھا ‘سانس لینا بھی دشوار تھا۔لندن شہر کے میئر جان لارنس نے شہر کے دروازے بند کردئیے‘ تاکہ کوئی شہر سے باہر نہ جاسکے‘جس گھر میں بھی طاعون سے موت ہوتی ‘وہاں لال نشان لگا دیا جاتا‘ تاکہ سب اس جگہ سے دُور رہا جائے۔بہت سے لوگ طاعون نہیں‘ بلکہ بھوک‘ پیاس اور گرمی سے مرگئے‘ کیونکہ شہر سے باہر جانے کی اجازت نہ تھی۔پہلے تو یہ حکم جاری کیا گیا کہ جس گھر میں طاعون سے موت ہوئی ‘لاش کوگھر میں ہی رکھیں‘ لیکن جب تعفن پھیلا‘ تو لندن کے مئیر کی طرف سے سپاہی گھوڑا گاڑیوں میں شہر میں اعلان کرنے لگے‘ جس کے گھر میں طاعون سے موت ہوئی ہے‘ لاش باہر نکال دیں۔لاشوں کے انبار لگ گئے۔ دن بھر لاشیں اٹھا کر سپاہی ایک گڑھے میں تمام لاشوں کو پھینک دیتے اور جب جگہ ختم ہوجاتی تو کچھ لاشوں کوآگ بھی لگا دیتے۔نہ کوئی اپنے پیارے کی آخری رسومات ادا کرپاتا اور نہ ہی تدفین۔لندن کی ایک تہائی آبادی طاعون کی زد میں آئی۔گلیاں سنسان تھیں ‘صرف مریضوں یا سوگواران کے رونے کی آوازیں باہرآتی اور کوئی بندہ نہ بندے کی ذات کا وجود سڑکوں پر نظر آتا۔بہت سے بیمار لوگوں کو قرنطینہ میں بھیج دیا گیا اور بہت سے لوگ گھروں میں قید تنہائی کاٹ رہے تھے۔گھروں میں اناج اور پانی ختم ہورہا تھا اور لوگ سوچ رہے تھے کہ طاعون نے نہ مارا‘ تو یہ بھوک پیاس ہمیں مار دے گی‘جن کو قرنطینہ میں رکھا گیا تھا‘ وہ بخار میں مبتلا تھے‘ قے کا تعفن ہر طرف پھیل رہا تھا‘مریضوں کو منہ سے خون آرہا تھا‘ انہیں سانس لینے میں داشوری ہورہی تھی ‘ گلٹیوں کا درد اور جسم پر کالے دھبے موت کی نوید دے رہے تھے۔مریض چیخ رہے تھے ‘لیکن کوئی طبیب بھی کچھ کرنے سے قاصر تھے‘ کیونکہ علاج موجود ہی نہ تھا۔کچھ مریض قرنطینہ سے بھاگنا چاہتے تھے ‘لیکن باہر جانے کی اجازت نہ تھی‘ تاکہ وبا نہ پھیلے۔ پورے ایک سال بعد جب خزاں کا موسم آیا‘ تو اس وبا کی شدت میں کمی ہوئی اور زندگی معمول پرآنے لگی۔
لیکن اب کے وبا اپناروپ بدل کر پھر آئی ہے اور اس بار اس کا نام کووڈ19 ہے۔ یہ کوروونا وائرس کی نئی شکل ہے اور چین کے شہر ووہان کی جنگلی جانوروں کی مارکیٹ سے پھیلی ہے‘ جہاں چمگادڑ‘ لومڑی ‘گیڈر‘ سور‘ کتے اور سانپ کا گوشت بکتا تھا۔ لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ دیکھو حرام کھاتے تھے‘ ان کے ساتھ اچھا ہوا‘ لیکن وبا کا کوئی مذہب یاذات نہیں ہوتی۔بس‘ پلک جھپکتے اس وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔یہ سانس کی بیماری ہے‘ جو انسان کی نظام تنفس پر حملہ کرتی ہے اور انسان مرجاتا ہے۔ہر طرف شور مچ گیا ۔دنیا جو گلوبل ولیج بن چکی‘ کورونا وائرس نے سب کو ایک دوسرے سے کاٹ دیا ہے۔ہوائی اڈے بند ہیں‘ تفریحی مقامات ویران پڑچکے ہیں‘ مالز میں گاہک نہیں‘ سڑکیں خالی ہیں ‘سب ڈر کر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں ‘ایک دوسرے سے بات کرنے سے کترارہے ہیں کہ کون سا سانس کورونا بھی ساتھ لے آئے۔ملکوں نے اپنی سرحدیں بند کردی ہیں۔ زائرین پر اپنے اور دوسرے ملک میں زمین تنگ کردی گئی ہے۔ تجارت بند ہوچکی ہے۔میل جول بند ہوچکا‘ یہاں تک کہ کھیل بھی بند ہوچکے‘ ہر کوئی گھر میں قید ہے‘صرف وہ لوگ جن کے پاس گھر نہیں‘ وہ باہر رہنے پر مجبور ہیں۔
امیروں نے سال بھر کا راشن ذخیرہ کرلیا اور اپنے محل نما گھروں کو قرنطینہ بنا لیا ہے‘ لیکن غریب کیا کرے؟ وہ کورونا سے نہیں‘ بھوک پیاس سے مر سکتا ہے‘ اس لیے وہ باہر نکلنے پر مجبور ہے۔جن مریضوں کو مشتبہ ہونے کی وجہ سے قرنطینہ کردیا گیا ہے‘ وہ چیخ رہے ہیں کہ یہاں کھانا پینا نہیں‘ ہمیں سہولیات نہیں دی جارہی ہیں‘ صرف قید کر کے رکھا گیا ہے‘جو ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں‘ وہ کہہ رہے ہیں کہ یہاں چادریں خون آلودہ ہیں ‘کوئی ڈاکٹر‘ نرس ہمارے پاس نہ آرہا اور نہ ہی علاج کیا جا رہا ہے۔ ہمیں سانس لینے میں تکلیف ہورہی ہے‘ لیکن وینٹی لیٹرز دستیاب نہیں‘ ہم کورونا سے نہیں ‘ناکافی طبی سہولیات سے ضرور مر جائیں گے۔مریضوں کے ساتھ اچھوتوں والا سلوک کیا جارہا ہے۔ وہ بیماری سے نہیں شرمندگی اور اس نفرت سے مرجائیں گے ‘جو معالج ان کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں۔مریض ہسپتالوں کے گندے بستروں پر پڑے سوال کررہے ہیں کہ میٹرو اور اورنج ٹرین بنانے والو نے اچھے ہسپتال کیوں نہ بنائے؟وزیراعظم صاحب ہسپتال کے قرنطینہ وارڈ میں کیوں نہیں جھانک رہے؟ کیا محل کی دیواریں اتنی اونچی ہیں کہ مریضوں کی آہ و بکا سنائی نہیں دے رہی یا کرسی پر براجمان ہونے والے ہر شخص کی ترجیح عوام نہیں صرف طاقت اور حکمرانی ہوتی ہے۔
شوکت گلی گلی ڈگڈگی پر بندر کا تماشا دکھاتا‘ وہ ڈگڈگی بجاتا اور بندر اس پر ناچتا۔میں نے اس کو چھت سے آواز دی کوروونا سے ڈر نہیں لگتا؟ باہر کیوں نکلے؟ اس نے کہا: باجی ہمیں کوروونا نہیں غربت مار دے گی۔میں اس وائرس سے پہلے یومیہ دو سوروپے کماتا تھا ۔گوجرخان سے یہاں اسلام آباد آیا ۔میرے پاس بندر مسڑ ریمبو بندریا اور اس کاایک بچہ ہے‘ ان کو کہاں سے کھلاؤں؟ اپنے آٹھ گھر والوں کو کہاں سے کھلاؤں؟ گھر سے نکلنا تو ہوگا۔مجھے جانوروں سے مشقت لیناپسند نہیں ‘لیکن میں چپ رہی‘ کیونکہ یہ شوکت کی روٹی روزی کا معاملہ تھا۔میں نے شوکت کو کہا :میسیج کردو وزیراعظم عمران خان پیسے دیں گے۔ وہ کہنے لگا: نہ فون ہے ‘نہ میسیج کرناآتا ہے‘ ہم تک مدد کیسے پہنچے گی؟وہ خلا میں دیکھنے لگا اور مسڑ ریمبو بھی آسمان پر کچھ تلاش کرنے لگا ۔میں نے ان کو پیسے دئیے اور رخصت کردیااور خود سوچنے لگی کہ کورونا وبا سے کتنے لوگ مریں گے‘ یہ تو میڈیا بتاہی دے گا ‘ لیکن شوکت جیسے جو لوگ بھوک سے مریں جائیں گے‘ ان کا کسی کو بھی اتاپتا نہیں ہو گا۔