شہر اقتدار میں گمنام آدمی

لودھراں کا جواں سال فیروز چند سال قبل یتیم ہو چکا۔ اس کے ابو ایک مزدور تھے اور امی گھر پر پاپڑ بنایا کرتی تھیں۔وہ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے اور جوتوں کی ایک دکان پر کام کرتا ہے۔ایک دن اس کے ابو کام پر گئے تو گھر واپس نہیں آئے‘ بلکہ ان کی نعش واپس آئی‘اس دن کے بعد گھر کا پورا بوجھ فیروز کے کندھوں پر پڑھ گیا۔ایک امیرشخص نے اس کی بہن کا رشتہ مانگا۔ وہ دوسری شادی کا خواہش مند تھا‘ لہٰذا بغیر جہیز کے یہ رشتہ فیروز اور اس کی امی کو معقول لگا اور انہوں نے بہن کو اس امیر شخص کے ساتھ بیاہ دیا‘ لیکن وہ اچھا انسان نہ نکلا۔وہ اس کی بہن کو روزانہ مارتا پیٹتا۔آخر کچھ عرصہ بعد فیروز کی بہن تین بچوں کے ساتھ گھر واپس آگئی۔فیروز اور اس کی امی دونوں محنت کرتے ‘ کیونکہ چار لڑکیوں اور تین بچوں کی کفالت ان کے ذمے تھی۔فیروز کے امیر رشتہ دار بھی اس کو نہیں پوچھتے ہیں‘ کیونکہ ان کو اپنے غریب اور ان پڑھ رشتہ داروں سے نفرت ہے۔فیروز کا بہت دل دکھتا‘ کیونکہ اس کی بہن کے بچے پھٹے پرانے کپڑوں میں پھرتے تھے‘اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ ان کیلئے کچھ خرید پاتا۔بس وہ اور اس کی امی اتنا کماپاتے تھے کہ دو وقت روٹی کھائی جا سکے۔فیروز کا سارا دن دکان پرجوتے ترتیب سے رکھنے میں گزر جاتا ۔وہ پورا دن سخت محنت کرتا اور اکثر رات کو سوتے میں بھی اسے آٹھ نمبر کا جوتا‘نو نمبر کا جوتا‘ دس نمبر کا جوتا ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
پھر فیروز کی دوسری بہن کا رشتہ برادری میں سے آیا اور رشتہ دار اس کو بیاہ کر لے گئے ‘اصل میں ان کو مفت کی نوکرانی چاہیے تھی۔بڑی بہن کو بھی برادری نے صلح کے بعد گھر بھیجوا دیا‘ سب کو برادری کی بات تو ماننا پڑتی ہے۔اب اس کی دونوں بہنیں مار کھاتی ہیں۔پر یہ تو ہمارے معاشرے میں ہر دوسرے تیسرے گھر کی کہانی ہے کہ عورت چپ کر کے مار کھائے‘ کیونکہ شادی کے بعد بس اس کی لاش ہی سسرال سے واپس آنی چاہیے ‘ویسے بھی ہر بار غلطی عورت کی ہوتی ہے‘ہر معاملے میں قصوروار عورت کو قرار دینا ہمارے معاشرے کی رسم ہے۔
فیروز صرف 200 روپے دیہاڑی پر ملازمت کرتا ہے‘ وہ کہاں اپنی برادری میں کچھ بول سکتا ہے۔ایک دن گلی میں چاولوں کی دیگ تقسیم ہوئی‘ اس دن فیروز ‘اس کی دو بہنوں اور ماں نے پیٹ بھر کر چاول کھائے۔ اگلے دن اس کی اماں نے کہا کہ میرے دل پر بوجھ ہورہا ہے‘ شاید اتنے دن بعد پیٹ بھر کر کھایا تو جسم کو راس نہیں آیا۔دو گھنٹے کے بعد اس کی اماں کا انتقال ہوگیا۔ فیروز کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ ڈاکٹر کو بلاتا‘ اس نے ایک حکیم صاحب کو بلایا اور کہا کہ وہ دیکھیں کہ اس کی امی کو کیا ہوگیا ہے؟حکیم نے کہاکہ اس کی امی کو بدہضمی نہیں ہوئی‘ بلکہ دل کا دورہ پڑا اور وہ چل بسی۔اب‘ فیروز کا باپ زندہ تھا‘ نہ ہی ماں‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا۔اس کی جیب میں صرف 90 روپے تھے اور ماں کے دوپٹے میں صرف 20 روپے تھے‘ اتنے میں تو قبر نہیں ملتی ہے۔مسجد کے مولوی صاحب نے لاوڈ سپیکر پر چندے کی اپیل کی۔اس دن فیروز کے گھر چنے والے چاولوں کی ایک چھوٹی دیگ بھی آگئی اور اس کی ماں کو چند گز زمین بھی مل گئی۔ فیروز اور اس کی بہنوں نے اپنی امی کی فوتیدگی پر آنے والے چاولوں کو ہاتھ بھی نہ لگایا۔ شاید غریب کو اچھا کھانا بھی راس نہیں آتا ہے۔ 
کچھ عرصہ بعدفیروز کی بہنوں نے اس کوشادی کرنے کا کہا‘ لیکن اس کے پاس تعلیم تھی‘ نہ ہی پیسا‘ ایسے میں کون اس کو اپنی بیٹی دیتا ؟ وہ شادی کا نام سن کر گھبراجاتا تھا‘ کچھ دن بعد منجھلی بہن کا خاوند فوت ہوگیا ۔وہ اپنے ایک بچے کے ساتھ گھر آگئی۔یوں اب چار لوگ فیروز کی زیر کفالت تھے‘ لہٰذا امی ابو کی وفات کے دو تین سال بعد وہ بیس سال کا نہیں‘ بلکہ تیس چالیس سال کا لگنے لگا؛ سر کے بال گر گئے‘ بدن کمزور ہو گیا‘ فیروز بس سارا دن جوتے اوپری منزل سے دکان میں پھینکتا رہتا کہ 200 روپے مل جائیں تو اس کے گھر والے کھانا کھاسکیں۔اس نے کبھی سنیما نہیں دیکھا‘ وہ کبھی گھومنے نہیں گیا۔ بس‘ اس کی زندگی جوتوں کی دکان سے کچے گھر تک ہے۔
کچھ عرصہ بعد فیروز لودھراں سے اسلام آباد آ گیا اوریہاں آ کر اس نے ایک بڑے بنگلے میں آٹھ ہزار روپے میں ایک گھریلو ملازمت شروع کردی۔ وہ دو ہزار بہنوں کو بھیج دیتا اور باقی چھ ہزار خود رکھ کر جمع کرنا شروع کردئیے‘ تاکہ گھر کی دیواریں پکی کروا سکے۔بیگم صاحبہ صاحب نے ایک سٹور میں اس کیلئے بستر لگوا دیا‘ چھوٹا پنکھا اور ریڈیو وہاں موجود تھا۔وہ جو بھی کھانا دیتے‘ فیروز کھالیتا‘ اس کے ذمے گھر کے کتوں کی رکھوالی ‘پرندوں کی دیکھ بھال‘ لان اورگاڑیوں کی صفائی کرناتھی۔بیگم صاحبہ اور صاحب آتے جاتے اپنے پالتو جانوروں کو ہاتھ ہلا کر چلے جاتے‘ لہٰذاتمام پالتو جانور مالکوں سے زیادہ فیروز سے مانوس تھے‘ کیونکہ وہی تو دن رات ان کا خیال رکھتا تھا۔فیروز کا بھی اسلام آباد شہر میں کوئی اپنا نہیں تھا تو اس کا وقت انہی کے ساتھ گزرتا۔کچھ ماہ بعد فیروز کے پاس اتنے پیسے جمع ہوگئے تھے کہ گھر کی دیواروں کو پکا کرواسکے‘ لیکن اسے چھٹی نہیں مل رہی تھی۔اس نے ایک سیکنڈ ہینڈ موبائل خرید لیا تھا‘ تاکہ اپنی بہنوں کی خیریت معلوم کرسکے۔ اس کو تسلی ہوجاتی کہ مولوی صاحب بھی ان کا خیال رکھتے تھے‘پھر اچانک کورونا وائرس آگیا ۔بیگم صاحبہ اورصاحب نے کہا کہ ہم آدھے ملازموں کو نکال رہے ہیں ‘تو یوں فیروز کوواپس لودھراں جانا تھا۔وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک دم سے اجنبی شہر میں وہ بے آسرا ہوجائے گا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس نے آخری بار جانوروں کو بہت پیار کیا۔ اس نے سامان سمیٹا ‘چند کپڑے ‘ایک پرانا موبائل اور تھوڑی بچت کے علاوہ تھا ہی کیا؟ اس کے پاس‘ مگر پھر بھی بیگم صاحبہ نے اس کا تمام سامان چیک کیا‘ لیکن تنخواہ نہیں دی۔وہ بھی چپ چاپ بس اڈے کی طرف چل دیا ‘ مگروہاں تو سب بند تھا۔اس رات بہت بارش ہوئی‘ وہ ساری رات ایک درخت کے نیچے بھیگتا رہا اور روتا رہا۔اس رات اسے اپنے امی ابو بہت یاد آئے۔اس کی جمع پونجی بھی رومال میں گیلی ہوگئی‘ اس کو ڈر تھا کہ کہیں فون اور پیسے استعمال کے ہی قابل نہ رہے تو اس انجان شہر میں اس کا کیا ہوگا؟
صبح سویرے اس نے مولوی صاحب کو فون کیا اور ان کے توسط سے اسے شہر اقتدار اسلام آباد کے ایک اور گھر میں رہنے کے لیے عارضی طور پر جگہ تو مل گئی‘ لیکن نوکری نہیں ملی۔ اس نے اپنے گیلے نوٹوں کو دھوپ میں خشک کیا اور نوٹوں کو دیکھ کر وہ سوچتا رہا کہ یہ پیسہ بھی کیا چیز ہے؟انسان کو یہ کورونا وائرس اکیلا تھوڑی مار رہا ہے؟ غربت ‘ بے حسی ‘ تنہائی اورنہ جانے کتنے دکھ ہیں‘ جوانہیں دیمک کی طرح چاٹ کر ختم کر رہے ہیں؟ کب ٹرینیں چلیں گیں تو فیروز اپنے علاقے لودھراں لوٹ سکے گا ؟ تاہم ابھی تک وہ شہر اقتدار میں ایک گمنام آدمی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں