کبھی تو ہم پانی کو ترستے ہیں تو کبھی اتنا پانی ہوجاتا ہے کہ ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی اور یہ پانی سیلاب کی صورت تباہی لاتا ہے اورآخر میں بحیرہ ٔعرب کی نذر ہوجاتا ہے۔ ہم بہت کم پانی ذخیرہ کررہے ہیں اور یہ قیمتی نعمت ضائع ہوکر سمندر برد ہورہی ہے اور بڑے شہروں میں پانی کا مسئلہ سنگین سے سنگین ترہوتا جارہا ہے ۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ بچپن میں قومی ٹیلی وژن پر ایک اشتہار آیا کرتا تھا‘ جس میں یہ بتایا جاتا تھا کہ کالا باغ ڈیم بننے سے صوبہ سرحد(موجودہ خیبر پختونخوا) کا کوئی شہر زیر آب نہیں آئے گا‘ لیکن کالا باغ ڈیم آج تک نہ بن سکا‘ تاہم پاکستان کے سب سے بڑے ڈیم تربیلا کی تعمیر1968ء میں شروع ہوئی اور اس کی مکمل تکمیل 1984ء میں ہوئی اور اس پر 149 بلین ڈالر لاگت آئی‘ا سی طرح دریائے جہلم پر1967ء میں منگلا ڈیم بنایا گیا اور اس میں 5.9 ملین ایکڑ پانی محفوظ کیا جا سکتا ہے۔یہ ایوب خان کا سنہری دور تھا‘ جس میں پاکستان نے خوب ترقی کی‘اس کے بعد ہمارے بڑے آبی منصوبے سیاست کا شکار ہونے لگے‘ اگر ہم اپنے پڑوسی ملک بھارت کی طرف دیکھیں تو وہاں صورت ِ حال اس کے برعکس ہے‘ وہاں پر کبھی کسی ڈیم پر سیاست نہیں ہوتی‘ بس ڈیم کی تعمیر ہوتی ہے۔
انڈس بیسن سے نکلنے والا پانی چین سے مقبوضہ کشمیر سے گلگت بلتستان ‘کے پی کے‘ صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ میں داخل ہوکر بحیرۂ عرب میں گرجاتا ہے۔یہ ہمارے اوپر منحصر ہے کہ ہم پانی کو بجلی آبپاشی اور دیگر ضروریات کے استعمال کریں۔سندھ طاس کا معاہدہ پاکستان اوربھارت کے درمیان ہوا ؛مشرقی دریاؤں میں راوی‘ بیاس ‘ ستلج ہیں اور مغربی دریاؤں میں سندھ جہلم اور چناب شامل ہیں۔ مغربی دریاؤں پر پاکستان کا حق ہے اور مشرقی دریا بھارت کے حصے میں آئے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنی تقریروں میں یہ بارہا کہہ چکے کہ مشرقی دریاؤں کا پانی ہمارا ہے‘ اس کی ایک بوند بھی پاکستان کو استعمال نہیں کرنے دیں گے۔بات صرف یہاں تک ختم نہیں ہوتی‘ بلکہ چناب اور جہلم جوکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے ہیں ‘ان پر بھی بھارت نے بڑے آبی منصوبے شروع کردئیے۔نئی دہلی کی جانب سے مسلسل سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر جارہی ہے۔1960ء میں سندھ طاس معاہدہ ہونے کے بعد سے لے کر آج تک بھارت پانی کے معاملے پر سیاست کر رہا ہے۔ پہلے مشرقی دریائوں کے پانی کو استعمال کیا اور اب‘ پاکستان کے حصے میں آنے والے تین مغربی دریائوں کے پانی کو روکنے کا بندوبست کر رہا ہے‘ یہ بھارت اور اس کے بعض حامی طبقات تھے‘ جنہوں نے کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے کو اس قدر تنازعات کا شکار بنا دیا کہ گزشتہ کئی حکومتیں خواہش کے باوجود اس کی تعمیر کا آغاز نہ کر سکیں۔برسہا برس تک پاکستان میں کوئی ڈیم نہ بن سکا۔ ادھر بھارت نے دریائے چناب کا 65 ہزار کیوسک پانی روک کر پاکستان کو صحرا میں تبدیل کرنے کی سازش کا آغاز کردیا ہے۔ اس مقصد کیلئے بگلیہار ڈیم اور سلاسل ڈیم میں 57 ہزار 600 کیوسک پانی ذخیرہ کرنا شروع کردیا گیاہے‘ مگر یہ کوئی پہلی بار نہیں‘ بلکہ پاکستانی دریائوں پر ڈیم تعمیر کرنے کا سلسلہ تو برسوں سے جاری ہے؛ بلاشبہ بھارت کی نیت ٹھیک نہیں اور پاکستان کو پانی کی قلت کا شکار کرنے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے‘ اس حوالے سے مذاکرات کو ہر صورت نتیجہ خیز بنانا ضروری ہے‘ بصورتِ دیگر بھارت پاکستان کیخلاف آبی جارحیت میں اضافہ کردے گا ‘جو پاکستان کی زرعی معیشت کیلئے تباہ کن ہوگا ‘جو بعض اندرونی صورت ِ حال کے باعث پہلے ہی دبائو میں ہے۔
بھارت ان منصوبوں کی وجہ سے چناب کا پانی روک سکتا ہے اور جب چاہیے سیلاب کی صورت میں چھوڑ سکتا ہے۔بھارت کی آبی جارحیت جاری ہے اور پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے سنجیدہ حلقے اس بات کا مطالبہ کررہے ہیں کہ پاکستان میں ڈیم بنائیں جائیں۔ واپڈا نے حال ہی میں دیامیر بھاشا ڈیم کیلئے ٹھیکہ ایف ڈبلیو او اور چین کی کمپنی پاور چائنہ کو دیا ہے اور دونوں اشتراک سے ڈیم تعمیر کریں گے۔اس منصوبے کی لاگت1406اعشاریہ 5 ارب روپے ہے۔ یہ ڈیم آٹھ سال میں مکمل ہوگا۔اس منصوبے سے16 ہزار سے زائد نوکریاں حاصل ہوگی اور اس سے4500 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔دیامر بھاشا ڈیم دریائے سندھ پر قائم کیا جائے گا۔اس کی اونچائی 272 میٹر ہوگیا اور اس میں8اعشاریہ 10 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہوگی‘ تاہم اس کی ڈیم کی تعمیرتعطل کا شکار رہی ‘ جس میںبلاشبہ بھارتی سازشیں کارفرما رہی۔بھارت‘ گلگت بلتستان پر اپنا دعویٰ کرتا رہا ہے اور اس ڈیم کی راہ میں رکاوٹ رہا ہے۔
عمران خان نے وزیر اعظم بنتے ہی جن منصوبوں کا وعدہ کیا‘ ان میں سے ایک نئے ڈیموں کی تعمیر تھا۔دو سال قبل جب انہیں حکومت سنبھالے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا۔ حکومت نے نئے ڈیموں کیلئے کوشش شروع کی۔ حکومت نے عالمی اداروں سے فنڈز کی چارہ جوئی کی تو انہوں نے بھارتی اثر کے تحت فنڈز کو بھارتی این او سی سے مشروط کر دیا۔ چین کی حکومت سے اس معاملے میں مدد کی درخواست کی گئی۔ چینی حکام نے 14ارب ڈالر لاگت کا تخمینہ لگایا۔ بعدازاں چین کی سخت شرائط کے باعث پاکستان نے وقتی طور پر منصوبے پر عملدرآمد روک دیا۔ اس دوران سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈیم فنڈ قائم کرنے کی ہدایت کی۔ اس فنڈ میں مسلح افواج ‘ کابینہ اور سرکاری و نجی اداروں کے ملازمین سمیت عام لوگوں نے 12ارب روپے سے زیادہ جمع کروایا۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے بہت سا کام ہو چکا ۔ اراضی خریدی جا چکی اور سڑکیں و رہائشی کالونی تعمیر کر دی گئی۔ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اعلان کے تیسرے دن واپڈا نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ چین کی کمپنی پاور چائنہ اور پاکستان کی فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کو مشترکہ طور پر دے دیا ہے‘ جس میں متبادل سسٹم کی تعمیر‘ مین ڈیم اورنانگیر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تکمیل شامل ہے۔
واضح رہے کہ بھارت نے بھاشا ڈیم کیخلاف مہم کے دوران چین کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم سے توجہ ہٹانے کیلئے خالصتاً انسانی بہبود کے منصوبے کو دفاعی پہلو سے دنیا کے سامنے پیش کر کے رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ چین نے جس طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور دیگر عالمی فورمز پر پاکستان کی کشمیر پالیسی کی حمایت کی اسی جذبے سے چین نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کا بھی دفاع کیا ہے‘ نیز 4500میگاواٹ منصوبہ پاک چائنہ دوستی کا ایک نیا سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے‘ نیز منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم کے بعد دیامر بھاشا ڈیم پہلا میگا پراجیکٹ ہے ‘جو پاکستان کی ترقی کیلئے ناگزیر ہے۔پاکستان اس وقت صرف دس فیصد پانی سٹور کرتا ہے۔ ہمارا فریش واٹر کا جو ٹوٹل سالانہ فلو ہے‘ وہ145 ملین ایکڑ فٹ ہے اور ہم صرف 13 ملین ایکڑ ذخیرہ کرتے ہیں؛یہ شرح بہت کم ہے ‘اس لیے یہ بہت ہی ضروری ہے کہ ہم پانی کا ذخیرہ کریں ‘ تاکہ اس سے سستی بجلی پیدا ہو سکے ‘جو ہماری صنعتوں کیلئے ناگزیر ہے۔