وہ روزانہ مررہی ہے اور تھوڑا جی رہی ہے‘ کیونکہ اگر وہ مر جائے گی تو اس کاگھر بکھر جائے گا۔تمام تر احتیاط کے باوجود اس کے لخت ِجگر کو کورونا ہوگیا ۔وہ ایک نرس کی طرح اس کی تیمارداری کررہی ہے۔ بیٹا بخار سے نڈھال ہے ‘ اس کو دوائی دینا‘اس کے منہ میں غذا ڈالنا ‘ اس کو سردی لگتی ہے‘ اس لیے اس نے جون کے گرم ترین مہینے میں پنکھے تک بند کررکھے ہیں‘وہ اس کو بھاپ دے رہی ہے ‘اس کیلئے قہوے بنا رہی ہے‘ تاکہ اس کے گلے کو سکون ملے اور وہ کھانسے نہیں۔ماسک اور دستانے مسلسل پہننے کی وجہ سے اس کے چہرے اور ہاتھوں پر خارش ہوتی ہے اور اس کی جلد خراب ہورہی ہے ‘لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرے گی تو دوسرے بچے بھی بیمار ہوجائیں گے۔ایک ایسے مرض میں تیمارداری سب سے مشکل کام ہے‘ جس کا علاج موجود نہ ہو‘ لیکن ماں تو ماں ہے‘ اس کے بچے ہی اس کی زندگی ہوتے ہیں۔ وہ سخت گرمی میں پی پی ای کٹ پہن کر اس کے کام خود کررہی ہے۔جب بیمار بیٹے کے کاموں سے فارغ ہوتی ہے تو پرسنل پروٹیکشن کی چیزیں اتارتی ہے‘ نہا دھو کر دوسرا لباس پہنتی ہے تو گھر کے دیگرکام شروع کردیتی ہے‘ باقی دو بچوں کو کھانا دیتی ہے‘ گھر کی صفائی ستھرائی کرنے کے بعد دوبارہ پی پی ای کٹ اور این نائن فائیو ماسک‘ دستانے پہن کر پھر بیماربیٹے کی تیمارداری میں لگ جاتی ہے۔اس کا شوہر بیٹے کیلئے ادویات آکسی میٹردیگر چیزیں سارا دن کی بھاگ دوڑ کے بعد بلیک میں خرید کرلاتا ہے۔گھر آکر وہ بھی لباس تبدیل کرکے بیٹے کے کاموں اور تیمار داری میں لگ جاتا ہے‘ اس کو باتھ روم لے کرجاتا ہے ‘کیونکہ آکسیجن لیول کم ہو تو نقاہت سے بیٹا باتھ روم میں گرسکتا ہے۔
الغرض ماں اور باپ دونوں اپنے دوسرے بچوں کے پاس بھی نہیں جاتے ‘تاکہ ان کو کورونا وائرس نہ لگ جائے۔ دس بارہ دن سے زائد ہو چکے کہ وہ دوسرے بچوں کو اپنے گلے بھی نہیں لگا سکے۔ دونوں ایک دوسرے سے چھپ کرروتے ہیں‘ تاکہ ہمت بندھی رہے۔وہ ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو بھی نہیں سکتے‘ وہ اپنا دکھ کسی کو بھی نہیں بتا سکتے‘ تاہم جب بہت دل بھر جاتا ہے‘ تو سجدے میں پڑے روتے رہتے ہیں۔بیٹے کو ہسپتال اس لئے داخل نہیں کروارہے‘ کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ ہسپتال داخل کروایا تو بیٹا تو اٹھ کر باتھ روم تک نہیں جاسکتا‘ لہٰذا ہسپتال میں کون اس کو باتھ روم لے کر جائے گا؟ماں باپ کی اس سخت ڈیوٹی نے جو ڈاکٹر زبھی نہیں‘ان کے بیٹے کی صحت بہتر ہو رہی ہے۔
کورونا جب سے آیا ہے‘ سب کی زندگی بدل گئی ہے۔یہ بیماری کس طرح چھپ کر حملہ آور ہوتی ہے‘ کسی کو پتہ بھی نہیں۔پاکستان کا طبی شعبہ اتنا فعال نہیں کہ زیادہ مریضوں کا بوجھ اٹھا سکے‘ لہٰذا ڈاکٹرز‘ نرسز‘ پیرا میڈیکل سٹاف کوشش تو کررہے ہیں‘ لیکن ان کے وسائل کم ہیں اور مسائل زیادہ ہیں۔اس وقت کورونا کی وبا کی وجہ سے عام لوگ بہت خوار ہورہے ہیں۔جیسے ہی کسی میں تشخیص ہوتی ہے کہ اس کو کورونا ہے ‘ تولوگ اس سے اچھوت والا سلوک شروع کردیتے ہیں۔متاثرہ شخص کو یا تو بغیر سہولیات والے قرنطینہ مراکز میں چھوڑآیا جاتا ہے یا ہسپتال یا گھر پر ہی ایک کمرے میں بند کردیا جاتا ہے۔یہاں پر اصل امتحان تیمارداروں کا شروع ہوتا ہے۔انہیں بغیر تربیت کے ہی نرس و ڈاکٹر کے فرائض انجام دینا پڑتے ہیں‘ لہٰذا اس ضمن میں ٹی وی اور ریڈیو پر حکومت کی طرف سے ایسے معلوماتی پروگرام نہیں نشر کئے جائیں ‘جس میں عام لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ گھر پر کورونا کے مریض کی حفاظت کیسے کرنی ہے۔ہسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں‘ جگہ نہ ہونے کی وجہ سے اکثر لوگ اپنے مریض کو گھر پر ہی رکھ لیتے ہیں اورخود ہی علاج شروع کردیتے ہیں۔اس کیلئے انٹرنیٹ کی مدد لی جارہی ہے‘ دیسی ٹوٹکے کئے جارہے ہیں اور جان پہچان کے ڈاکٹرز سے فون پر رابطہ کرکے ادویات پوچھی جا رہی ہیں۔یہاں پر جو تیماردار پر بیتتی ہے‘ وہ ایسی مشکل ہے ‘جو بہت تکلیف دہ ہے۔ادویات کا حصول مریض کی دیکھ بھال‘ لوگوں کی بے حسی اور نفرت سے انسان ٹوٹ کر رہ جاتا ہے۔ میرے ایک جاننے والے اپنے ابو کو بچانے کیلئے وینٹی لیٹر ڈھونڈتے رہے‘ سارے ہسپتالوں میں پتا کیا‘پھر کہیں جاکر ایک دُور دراز کے ہسپتال میں ان کو وینٹی لیٹر ملا‘ پر تب تک دیر ہوچکی تھی اور ان کے والد کورونا سے دم توڑ گئے۔جنازے اور تدفین میں صرف چار گھر والے تھے‘ انہوں نے دوسروں کی صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی قل یا ختم نہیں کروایا‘اپنے رشتہ داروں کو شرکت سے روک دیا کہ کوئی اس بیماری میں مبتلا نہ ہوجائے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے ابو کا سانس رکنا‘ ان کی تکلیف‘ ہماری بے بسی اور ہمارے صحت کے ناقص نظام کی وجہ سے ہوا۔ یہ چیزیں ہماری زندگی پر نقش ہوگئی ہیں‘ہم کبھی بھی یہ سب نہیں بھول سکتے کہ لوگوں نے وبا میں بھی ہم سے منافع کمایا۔سوشل میڈیا کووڈ19 پوزیٹو کی پوسٹوں سے بھرا پڑا ہے۔ ایک طرف لوگ بیماری کے دوران اپنی تکلیف بیان کررہے تو دوسری طرف تیمار داری کرنے والے چیزوں کی تلاش میں دربدر بھٹک رہے ہیں۔میرے ایک فالور نے پوسٹ کیا کہ انہیں اپنی ساس کی جان بچانے کیلئے انجیکشن ایکیٹمرا چاہیے‘ انہیں وہ55 ہزار کا ملا‘ وہ بھی جب سوشل میڈیا پر انہوں نے مدد مانگی‘ تو کسی نے ان کو یہ فراہم کر دیا۔ جس وقت پاکستان میں پہلا کورونا کیس سامنے آیا تو ماسک اور سینی ٹائزز ایسے غائب ہوئے ‘جیسے کبھی پاکستان میں تھے ہی نہیں‘ پھر ان کو بلیک میں بیچا گیا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر یہ بات پھیلا دی کہ سنا مکی کے قہوے سے کورونا ٹھیک ہوتا ہے تو یہ 200 روپے سے چھلانگ لگا کر2500 روپے کلوکا ہوگیا۔آکسی میٹر دو ہزار سے بیس ہزار روپے کا ہوگیا اور آکسیجن سلنڈرزنایاب ہوگئے۔اس کے بعد پلازمہ کی بولی لگنے لگی اور پھر جب برطانیہ سے ایک خبر آئی کہ حالیہ کلینکل ٹرائلز میں ایک دوا'' ڈیکسامیتھا زون‘‘ کورونا کے شدید علیل مریضوں کی زندگی بچانے میں مددگار ہوئی ہے‘ تویہ بھی مارکیٹ سے غائب ہو گیا۔ اب‘ اس کو بلیک کیے جانے کا امکان ہے۔
تیماردار کہتے ہیں کہ حکومت کہاں ہے ؟حکومت پورے ملک میں ایک نرخ کیوں نہیں مقرر کرتی؟ ماسک صرف دس روپے کا ہونا چاہیے۔ چھوٹا سینی ٹائزر100 روپے کا ہونا چاہیے اور آکسی میٹر صرف 1500 کا ہونا چاہیے اور یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ حکومت اور محکمہ صحت کی ذمہ داری ہے۔پورے ملک میں کورونا سے بچانے والی اشیا کے ایک دام ہونے چاہئیں۔جہاں کورونا نے عام لوگوں کے گھر اجاڑ دئیے ‘ان کی معاشی کمر توڑ دی تو دوسرا طرف صحت کے شعبے سے وابستہ لوگ کروڑ پتی بن رہے ہیں۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کیوں نہیں دیکھ رہی کہ کورونا کے مریضوں کے تیمار دار دھکے کھارہے ہیں ‘ان کو ادویات نہیں مل رہیں اور اگر مل رہی ہیں تو بلیک میں مل رہی ہیں۔دوائیوں کو ‘ کورونا کے علاج میں استعمال ہونے والی اشیا اور انجیکشنزکی قیمت اتنی مقرر کی جائے کہ ہر عام شہری اس کو خرید سکے‘ اس کے ساتھ اس کی دستیابی کو بھی ممکن بنایا جائے۔الغرض تیمار دار اورلواحقین بھی اتنی ہی تکلیف میں ہیں‘ جتنے کورونا کے مریض۔ اس دردا ور تکلیف میں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی‘ کیونکہ کورونا وبا سے زیادہ تو یہاں ذخیرہ اندوز ی اورمنافع خوری کی وبا عروج پر ہے۔