سیاست کی بساط

گزشتہ دنوں میں نے اپنے کالم ''امپورٹڈ وزرائے اعظم اور مشیران‘‘ میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا تھا کہ کس طرح دہری شہریت کے حامل لوگ پاکستان کے سیاسی دھارے میں شامل ہوتے ہیں، قومی سلامتی کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں اور پاکستانیوں کے مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں جبکہ عام پاکستانی تو بنا شناختی کارڈ کسی سرکاری عمارت میں داخل بھی نہیں ہوسکتا۔ مجھے دہری شہریت والوں کی قابلیت یا حب الوطنی پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر انہیں پاکستان کی خدمت کا اتنا ہی شوق ہے تو غیر ملک کی شہریت سرنڈر کریں، پھر دل لگا کر کام کریں۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے، لوگ عہدہ چھوڑ دیتے ہیں لیکن غیر ملکی شہریت نہیں چھوڑتے۔
بہت سے لوگ آئے‘ یہاں حکمرانی کے مزے لئے‘ پھر اقتدار ختم ہوتے ہی اپنے اصل وطن لوٹ گئے۔اس وقت اشد ضرورت ہے کہ اہم سرکاری عہدوں اور سیاسی پوزیشنز پر سے غیر ملکی اور دہری شہریت کے حامل افراد کو ہٹایا جائے۔ جس نے ملک کی خدمت کرنی ہے، جس نے مشیر بننا ہے یا جو حکومتی ترجمان مقرر ہونے کا خواہشمند ہے تو وہ پہلے غیر ملکی شہریت ترک کرے، اس کے بعد اس کے لئے ملکی خدمت کا میدان کھلا ہے۔ جب الیکشن لڑنے کے لئے یہ قانون ہے اور تمام اراکین اسمبلی پر یہ لاگو ہوتا ہے تو باقی لوگوں پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔ 2018ء میں سپریم کورٹ نے دہری شہریت والے سینیٹرز کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روک دیا تھا۔ اس لئے قانون سب کے لئے ایک ہونا چاہیے۔ اہم سرکاری اور قومی نشستوں پر صرف پاکستانی شہریوں کا حق بنتا ہے۔
پی ٹی آئی کی اصل قیادت پہلے دن سے مشیروں کی فوج سے نالاں تھی۔ کچھ لوگ دبی دبی آواز میں یہ کہتے بھی رہے کہ مشیر اور معاونین وزیراعظم کے اردگرد زیادہ منڈلاتے ہیں اور اصل پی ٹی آئی ورکرز اور الیکشن جیت کر آنے والے لوگوں کو ان سے دور کر دیا گیا ہے۔ یہ بات بھی عیاں ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر ہونے والی گروپ بندی نے بھی پارٹی کو نقصان پہنچایا ہے۔ منتخب لوگوں کی چپقلش اور محاذ آرائی نے بھی معاونین کو آگے آنے اور اپنی جگہ بنانے کا موقع فراہم کیا ہے۔
بہت عرصے سے یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ معاونین اپنے اثاثے اور شہریت سامنے لائیں۔ معاملے کو بہت طول دینے کے بعد یہ ممکن ہوا کہ ان مشیران اور معاونین کے اثاثے پبلک ہوئے۔ اس میں ٹیکس کی تفصیلات موجود نہیں تھیں اور یہ بھی اعتراض کیا جا رہا ہے کہ اثاثوں کی قیمت کم ظاہر کی گئی ہے۔ ان معاونین میں سے سات دہری شہریت کے حامل نکلے۔ بیشتر مشیران ارب پتی ہیں اور بیرونِ ملک جائیداد کے مالک ہیں۔ یہ تفصیلات منظر عام پر آتے ہی ہر طرف سے تنقید شروع ہوگئی۔ میڈیا پر بھی وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کو ہدفِ تنقید بنایا گیا کہ عمران خان وزیراعظم بننے سے پہلے خود کہا کرتے تھے کہ دہری شہریت کا مطلب اس ملک کے ساتھ وفاداری ہوتا ہے جس کی شہریت رکھی ہو۔ اگر آپ کے پاس دوسرے ملک کا پاسپورٹ ہے تو آپ کو اسمبلی میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ جن کا جینا مرنا پاکستان میں ہے وہی یہاں سیاست کریں۔ لیکن حکومت میں آکر خود عمران خان نے ہی غیر ملکی مشیربھرتی کر لئے۔
اپوزیشن کے علاوہ سوشل میڈیا صارفین نے بھی اس معاملے پر کھل کر تنقید کی اور اسے پی ٹی آئی کا ایک اور یوٹرن قرار دیا۔ حساس قومی سلامتی کے معاملات میں غیر ملکیوں کی شمولیت بذاتِ خود ایک سکیورٹی رسک ہے لیکن یہاں پر کچھ لوگ مشیروں کے معاملے کو اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ جوڑ کرہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان کوئی موازنہ نہیں ہے۔ دہری شہریت والے بیشتر مشیران کوئی زرمبادلہ پاکستان نہیں بھیجتے، ان کی جائیداد اور خاندان باہر ہیں۔ دوسری طرف بہت سے اوورسیز پاکستانیوں کے خاندان یہاں بستے ہیں اور وہ باہر سے ملک کو زرمبادلہ بھیجتے ہیں، ان کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے۔ غریب لوگوں کے اقامے اور مشیران کے اقاموں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ غریب مزدور کو ارب پتی امیروں کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم کے دو دُہری شہریت والے مشیر مستعفی ہوگئے ہیں، تیسرے نے کہا کہ یہ میڈیا ٹرائل کی وجہ سے ہوا ہے لیکن سنا جا رہا ہے کہ اصل کہانی کچھ اور ہے۔ جہانگیر ترین تانیہ ایدورس کو لائے، بتایا گیا کہ وہ گوگل سے نوکری چھوڑ کر پاکستان آئی ہیں اور عوام کو امید دلائی گئی کہ اب پاکستان کا سسٹم ڈیجیٹل ہو جائے گا؛ تاہم وہ اس تمام عرصے میں متاثر کن کارکردگی نہیں دکھا سکیں اور جب جہانگیر ترین منظر عام سے ہٹے تو اس سے ان کی سپورٹ بھی ختم ہوگئی۔ تانیہ ایدروس نے ڈیجیٹل پاکستان فائونڈیشن کمپنی بنا رکھی تھی جو ایس ای سی پی کے ساتھ رجسٹرڈ ہے۔ اس کمپنی کے ڈائریکٹرز میں جہانگیر ترین بھی شامل تھے اور ان کے وکیل بھی کمپنی کا حصہ تھے۔ تانیہ ایدروس نے کمپنی سے استعفیٰ نہیں دیا اور وجہ یہ بتائی کہ یہ ایک نان پرافٹ کمپنی ہے۔ وزیراعظم کی سرزنش کے بعد انہیں مستعفی ہونے کا کہا گیا۔
دوسری طرف وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا بھی مستعفی ہوگئے۔ ان پر بہت تنقید ہوئی کہ ان کے دور میں دوائیاں مہنگی ہوگئیں، ٹیسٹوں کی قیمت بڑھ گئی، علاج مہنگا ہوگیا۔ پھر پورے ملک میں کورونا پھیل گیا، پاکستانی مریض رل کر رہ گئے۔ جس وقت کورونا آیا اس وقت ماسک اور ہینڈ سینٹائزر مارکیٹ سے غائب ہو گئے، اس کے بعد آکسی میٹر، آکسیجن سلنڈر اور کورونا میں استعمال ہونے والی ادویات بلیک میں ملنے لگیں۔ لوگوں نے جان بچانے والے انجکشن لاکھوں روپے میں خریدے۔ عوام نے کورونا کی وبا میں جتنی خواری ادویات کی حصولی میں کاٹی ہے‘ اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ ڈاکٹر ظفر کا ڈبلیو ایچ او کا تجربہ پاکستان کے کسی کام نہیں آیا۔ مشیرِ صحت کورونا کے ٹیسٹ کے دام ایک جیسے نہیں کرا سکے، ہر لیب نے اپنا ریٹ مقرر کیا اور اپنی من مانی کی۔ 
کسی کو بھی دہری شہریت والوں کی حب الوطنی پر شک نہیں‘ اوورسیز پاکستانی ہمارا اثاثہ ہیں لیکن اگر وہ پاکستان میں حساس اداروں میں کام کرنے کے خواہشمند ہیں تو انہیں دوسری ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف ترک کرنا ہوگا۔ ایسا کہاں ہوتا ہے کہ کسی اور ملک کی وفاداری کا حلف لینے والے کسی دوسرے ملک کے حساس قومی سکیورٹی معاملات کا حصہ ہوں؟
عمران خان کی حکومت اپنے دو سال مکمل کر چکی ہے جبکہ آئینی مدت کی تکمیل کے لیے ابھی مزید تین سال اس کے ہاتھ میں ہیں۔ اس کے پاس ابھی کافی وقت ہیں، اس کو چاہیے کہ اپنی اُس ٹیم کو واپس لائے جو 2009ء اور 2010ء میں پارٹی کا چہرہ تھی۔ جب ان کی ریلیوں اور جلسوں میں لاکھوں لوگ نہیں ہوتے تھے لیکن ان کے اردگرد وفادار ساتھی ضرور موجود تھے۔ کسی بھی پارٹی کا اثاثہ اس کے سیاسی عہدیداران اور ورکرز ہی ہوتے ہیں۔ اس وقت ان کو سامنے لایا جانا چاہئے کہ وہ عوامی مسائل کو زیادہ گہری طرح جانتے ہیں۔ باہر کے ممالک سے آنے والے افراد جو محض کچھ عرصے کے لئے آتے ہیں‘ نہ یہاں کے حقیقی مسائل سے آگاہ ہو تے ہیں اور نہ ہی وہ انہیں حل کر سکتے ہیں۔
معامات کو درستی کی جانب گامزن کرنے کے لیے اصل قیادت کو اختیار دیں‘ خاص طور پر لوکل گورنمنٹ بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہے، اگر اس کو بااختیار بنایا جائے۔ فارن امپورٹڈ شخصیات کے سحر سے باہر آئیں اور مقامی ٹیلنٹ کو سامنے لائیں۔ پی ٹی آئی میں جاری شخصیات کی لڑائی پارٹی کے لئے اچھی ثابت نہیں ہوگی‘ اس لئے عمران خان کو جلد معاملات کو گرفت میں لینے کی ضرورت ہے۔ یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ عمران خان کسی کو معاف کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں جبکہ مزید دو استعفے متوقع ہیں۔ ملک میں نئی سیاست کی بساط بچھا دی گئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں