آرمینیا اور آذربائیجان کی جنگ اور اصل تنازع

جنگ صرف تباہی لاتی ہے اس سے انسان ختم ہو جاتے اور خاندان اجڑ جاتے ہیں۔ جہاں بم پھٹتے ہیں‘ وہاں زمینیں بنجر ہو جاتی ہیں، محبت دم توڑ دیتی ہے اور زندگی روٹھ جاتی ہے۔ مجھے جنگیں پسند نہیں ہیں‘ میں چاہتی ہوں کہ دنیا میں ہر طرف امن ہو‘ ہر طرف سکون اور خوشحالی ہو‘ خوشی کے گیت گائے جائیں اور امن کی فاختائیں دنیا بھر میں پرواز کریں۔ کہیں بھی دنیا میں بارود کی بو نہ ہو لیکن ایسا کہاں ممکن ہے؟ انسان جہاں ہیں‘ ایک دوسرے سے لڑتے اور ایک دوسرے پر ظلم کرتے رہتے ہیں۔ ظلم کی داستانیں ماضی میں بھی رقم ہوئیں اور اب بھی ظالم مظلوموں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔
سوویت یونین دنیا کی سپرپاور تھا‘ اتنا طاقتور ملک کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ اس عروج کو کہیں زوال بھی ہے۔ دنیا کے تقریباً چھٹے حصے پر محیط، سب سے پہلا انسان بھی خلا میں اسی ملک نے بھیجا تھا مگر افغانستان جیسا ملک اس کی قبر ثابت ہوا اور یہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ روس کی فوجی قوت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا لیکن یہ پھر بھی ٹوٹ گیا۔ کوئی اس کا ذمہ دار گوربا چوف کو ٹھہراتا ہے تو کوئی مشرقی یورپ کے کیمونسٹ اتحادیوں کے الگ ہونے کو اس کی وجہ قرار دیتا ہے۔ کوئی امریکہ کی سرد جنگ تو کوئی روس کی تباہ حال معیشت اور کوئی طویل آمریت کو اس تقسیم کا ذمہ دار کہتا ہے۔ لیتھوینیا نے مارچ 91ء میں آزادی کا اعلان کیا مئی 91ء میں لیٹویا نے بھی آزادی کا اعلان کردیا یوں 100 قومیتوں کا خطہ بکھرنے لگا۔سویت یونین نے اس بغاوت کو کچلنے کی کوشش کی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور پندرہ الگ ریاستیں بن گئیں۔ اس وقت کے سوویت سربراہِ ریاست گوربا چوف نے کہا کہ ہم خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہے تھے جسے میں روکنا چاہتا تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے سے جو ریاستیں وجود میں آئیں وہ ہیں وسط ِایشیا میں قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان ترکمانستان، ازبکستان، بالٹک میں استونیا، لٹویا، لیتھوینیا، مشرقی یورپ میں بیلاروس، مالڈووا، یوکرائن، قفقاز میں آرمینیا، آذربائیجان، جارجیا اور روس۔
اس وقت ہمارے برادر‘ مسلم اکثریتی ملک آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین جھڑپوں میں شدت آگئی ہے جس کی وجہ علاقہ نگورنو کاراباخ ہے۔ یہ معاملہ دونوں ممالک کے درمیان روزِ اول سے چلا آ رہا ہے اور حال ہی میں ایک بار پھر دونوں ممالک آمنے سامنے آگئے ہیں۔ آرمینیا ایک عیسائی اکثریتی ریاست ہے۔ یہ 1991ء میں معرضِ وجود میں آیا‘ اس کا کل رقبہ 29ہزار 743مربع کلومیٹر ہے اور اس کا جی ڈی پی 12.43بلین ڈالر ہے۔ یہ لینڈ لاکڈ علاقہ ہے یعنی اس کی سرحد کسی سمندر کے ساتھ نہیں لگتی۔ سوویت یونین سے آزادی ملنے کے بعد آرمینیا نے آذربائیجان کے ساتھ جنگ شروع کر دی۔ یہ جنگ تین علاقوں میں لڑی گئی جس میں کاراباخ بھی شامل تھا۔ اس جنگ میں آرمینیا کو بھاری معاشی نقصان پہنچا۔ آذربائیجان نے آرمینیا کا ریل اور فضائی روٹ بلاک کر دیا۔ ترکی نے بھی اس جنگ میں برادر ملک کا ساتھ دیا۔ 1994ء میں اس جنگ کا اختتام ہوا؛ تاہم آرمینیا نے عالمی طور پر تسلیم شدہ آذربائیجان کے علاقے‘ جو اس کے کل رقبے کا 16فیصد تھا‘ پر قبضہ کر لیا۔ اس جنگ میں 30ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوئے اور 10لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔
اگر ہم حالیہ صورتحال کی بات کریں اور جغرافیائی محل وقوع کا جائزہ لیں تو ریپبلک آف آرمینیا کی سرحدیں ترکی، آذربائیجان، ایران اور جارجیا سے ملتی ہیں۔ ریپبلک آف آذربائیجان‘ جس کی زیادی تر آبادی مسلمان ہے لیکن آئینی طور پر یہ ایک سیکولر ملک ہے‘ کے ہمسایوں میں روس، ایران، ترکی، جارجیا، آرمینیا اور کیسپین ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی کی وجہ وہی مسئلہ ہے جو آج تک حل طلب ہے۔ نگورنوکاراباخ آذربائیجان کا علاقہ ہے‘ جس پر آرمینیا قابض ہے۔ حالیہ جھڑپوں میں 11سویلینز سمیت سو کے قریب افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ آرمینیا آذربائیجان کی سویلین آبادی کو نشانہ بنا رہا ہے۔ 
کاراباخ کے علاقے پر قابض ہونے کے بعد آرمینیا یہاں ایک کٹھ پتلی حکومت کا قیام عمل میں لایا جس کو ریپبلک آف ارتشاخ کا نام دے دیا۔ یہ علاقہ عالمی طور آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ جب سے آرمینیا میں نکول پشنیان نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا ہے‘ علاقے میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ اپنے عہدے کا چارج لینے کے بعد 9مئی 2018ء کو آرمینیا کے وزیراعظم نے نگورنوکاراباخ کا دورہ کیا۔ پھر 16 جون کو دوبارہ متنازع علاقے کا دورہ کیا اور فوجی پوزیشنز کا جائزہ لیا۔ 9جولائی کو آرمینیائی وزیراعظم نے اپنے بیٹے کو اس علاقے میں ملٹری سروس پر بھیج دیا۔ 8ستمبر 2018ء کو ایک بیان میں کہا کہ یہ علاقہ مستقبل میں آرمینیا کا حصہ ہوگا۔ وزیراعظم نکول کی آذربائیجان سے دشمنی پہلے دن سے واضح تھی۔ ان کے جارحانہ عزائم سب کے سامنے آ رہے تھے۔ مارچ اور مئی 2019ء میں ایک بار پھر وزیراعظم نکول نے متنازع علاقے کے دورے کئے۔ 30مئی کو آرمینیا نے سیز فائر کی خلاف ورزی شروع کر دی اور اس علاقے کو آرمینیا کا حصہ قرار دیتے ہوئے یہاں مختلف منصوبوں پر کام شروع کر دیا۔ امسال مارچ میں آرمینیا نے یہاں پارلیمانی اور صدراتی الیکشن کروائے اور ایک کٹھ پتلی حکومت بنائی اور اس علاقے پر باقاعدہ قبضہ جما لیا۔کورونا کے باوجود جولائی میں آرمینیا نے آذربائیجان کے چیک پوسٹوں پر حملہ کیا۔ ستمبر میں جب دوبارہ آرمینیا نے آذربائیجان کے علاقوں اور فوجی پوسٹوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ تو لڑائی میں شدت آ گئی۔ آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے جوابی کارروائی کا اعلان کیا جس پر جنگ کی شدت میں اضافہ ہو گیا۔ 26 ستمبر کو دونوں طرف سے بھاری گولہ باری کی گئی۔ 27 ستمبر کو آرمینیا نے آذربائیجان کی فوجی پوسٹوں اور سویلین آبادی پر حملہ کیا۔ جواب میں آذربائیجان نے بھی بھرپور حملہ کیا اور دس دیہات آرمینیا کے قبضے سے آزاد کروا لیے۔ اس وقت مورو پہاڑ پر آذربائیجان کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ آرمینیا کا ایک ایس یو 25 طیارہ بھی گر کر تباہ ہو چکا ہے‘ جس کا الزام آرمینیا نے ترکی پر لگایا ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال نگورنو کاراباخ بین الاقوامی طور پر آذربائیجان کا تسلیم شدہ علاقہ ہے جس پر آرمینیا ناجائز طور پر قابض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور ترکی کی جانب سے آرمینیا کو تاحال تسلیم نہیں کیا گیا اور اس جنگ میں دونوں ممالک اخلاقی طور پر آذربائیجان کا ساتھ دے رہے ہیں جبکہ آرمینیا کو روس کی اشیرباد حاصل ہے۔
قفقاز خطے میں جنگ پوری دنیا کے مفاد کے خلاف ہے۔ اس حوالے سے سلامتی کونسل کا اجلاس بھی طلب کیا گیا۔ جبکہ کئی ممالک بشمول پاکستان‘ آرمینیا کی طرف سے حملے کی مذمت کرتے ہوئے فوجی کارروائی کو بند کرنے کا کہا گیا۔ پاکستان کے سوشل میڈیا صارفین بھی آذربائیجان کے حق میں ٹویٹس کرتے رہے۔ #WeStandWithAzerbaijan اور #AzerbaijanIsNotAlone کے ہیش ٹیگز کے ساتھ ٹرینڈ بنائے گئے، بہت سے صارفین نے اس حوالے سے وڈیوز بھی پوسٹ کیں اور برادر ملک کو حمایت کا یقین دلایا۔ آذربائیجان پُرامید ہے کہ جلد نگورنو کاراباخ اسے واپس مل جائے گا۔ دوسری طرف آرمینیا نے ملک میں مارشل لا لگاتے ہوئے وسیع پیمانے پر جنگ کی تیاری شروع کر دی ہے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ جنوب مشرقی یورپ میں حالات بگڑے تو پوری دنیا پر اس کا اثر پڑے گا۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کو اس مسئلے میں آگے آنا چاہیے اور معاملے کا حل مذاکرات سے نکالنا چاہیے۔ نگورنوکاراباخ پر اصل حق آذربائیجان کا ہے اور یہ علاقہ اسے واپس ملنا چاہیے۔ کچھ لوگ اسے تیل کی جنگ قرار دے رہے ہیں مگر یہ صرف تیل کی جنگ نہیں‘ یہاں انسان بھی بستے ہیں اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی‘ یقینا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں