بریسٹ کینسر‘ ایک جان لیوا مرض!

پاکستان میں پیچیدہ بیماریوں پر بات کرنا اور ان کا علاج کرانا قطعاً کارِ آسان نہیں۔ بطور صحافی جب ہم فیلڈ میں کسی سٹوری پر کام کر رہے ہوتے ہیں تو طبی عملہ بہت تعاون کرتا ہے لیکن ایک بار میں نے سوچا کہ ایک عام شہری کی طرح ایک ہسپتال جاکر معلومات لینے کی کوشش کرتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ کیا ہوتا ہے۔ میں نے جب ایک بڑے ہسپتال کے ایڈز انفارمیشن ڈیسک سے ایڈز پر معلومات لینا چاہیں تو وہاں موجود شخص ہنسنے لگا۔ مجھے معلومات فراہم کرنے سے زیادہ‘ اسے اس بات میں دلچسپی تھی کہ مجھے یہ معلومات کیوں درکار ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ بنا کوئی سوال پوچھے‘ معلوماتی کتابچہ میرے حوالے کرتا لیکن ہمارے ہاں بیماریوں کو بھی عزت‘ غیرت اور گناہ کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ جب میں نے اپنا تعارف کروایا تو اس کی ہنسی یکدم غائب ہو گی، فوراً کہنے لگا کہ آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ آپ میڈیا سے ہیں‘ رپورٹ بنا رہی ہیں۔ میں نے بتایا کہ میں یہی دیکھنا چاہتی تھی کہ عام مریضوں کے ساتھ ان بیماریوں کو لے کر کیا سلوک ہوتا ہے۔ لوگ ایڈز‘ کینسر اور ان جیسی دوسری بیماریوں کو لے کر سسکتے رہتے ہیں مگر کسی سے بھی شیئر کرنے سے گھبراتے ہیں۔ ایک خاتون‘ جن کے دو بچے تھے‘ اپنی بیماری چھپاتی رہیں، وہ پڑھی لکھی تھیں لیکن اس موضوع پر بات کرنے سے کتراتی رہیں۔ ایک دن اچانک جب ان کی موت ہو گئی تو ان کا گھر بکھر کر رہ گیا۔ اگر وہ تھوڑی سی ہمت کرکے یہ بات کسی کو بتا دیتیں اور ان کا علاج شروع ہو جاتا تو ان کے بچے یوں دربدر نہ ہوتے لیکن ہمارا معاشرہ اور لوگوں کے رویے مریضوں کو چپ رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ کینسر کی ویسے تو بہت سی اقسام ہیں اور کئی ان میں سے جان لیوا بھی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ایک قابلِ علاج مرض ہے۔ مردوں میں معدے‘ پھیپھڑے‘ جگر‘ بڑی آنت‘ دماغ‘ خوارک کی نالی‘ گردن‘ منہ‘ کان‘ گردے‘ کولون‘ خون کا سرطان اور پروسٹیٹ کینسر وغیرہ عام ہیں جبکہ خواتین زیادہ تر سرویکل کینسر، بچہ دانی کا کینسر، تھائیرائیڈ کینسر، جلد کا کینسر، چھاتی کا کینسر، بڑی آنت کا کینسر اور بیضہ دانی کے سرطان جیسی بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں۔ 
ہمارے معاشرے میں بہت سی بیماریوں کے ساتھ ٹیبو (Taboo)اور سٹگما جڑ گیا ہے، ایڈز کو لے لیں‘ لوگوں کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ یہ بیماری صرف بے راہ روی سے ہوتی ہے جبکہ یہ ایک غلط مفروضہ ہے، حقیقت ایسے نہیں ہے۔ اسی طرح خواتین اپنے پوشیدہ اعضا کو لے کر بہت حساس ہوتی ہیں‘ اگر ان میں کوئی بیماری جنم لے تو وہ کسی کو نہیں بتاتیں‘ یہ رویہ بالکل غلط ہے۔ جس طرح عام بیماریاں ہیں‘ جسم کے دیگر اعضا ہیں، اسی طرح نسوانی اعضا بھی متاثر ہو سکتے ہیں اور یہ قطعاً کسی گناہ کا نتیجہ نہیں ہے۔ اس لئے خواتین کو چاہیے کہ اگر جسم میں درد یا کوئی تبدیلی محسوس کریں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے بات کریں۔ خاتون‘ چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ‘ اسے ہر کچھ ماہ بعد لیڈی ڈاکٹر یا لیڈی ہیلتھ ورکر سے اپنا معائنہ کرانا چاہیے کیونکہ اس وقت ہمارے معاشرے میں چھاتی کا سرطان خوفناک تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس کی شرح نوجوان اور بزرگ خواتین‘ دونوں میں بہت زیادہ ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق چالیس سال سے بڑی عمر کی خواتین کو سال میں ایک بار میموگرافی ضرور کروانی چاہیے تاکہ یہ پتا چل سکے کہ ان میں کینسر کی علامات تو نہیں ظاہر ہو رہیں۔ جو خواتین چالیس سال سے کم عمر ہیں‘ اگر وہ بھی درد یا تکلیف محسوس کریں تو فوری طور پر معائنہ کروائیں۔ کینسر ہونے کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہیں‘ جیسے تمباکو نوشی‘ شراب نوشی‘ چھالیہ‘ شیشہ‘ نسوار اور گٹکے وغیرہ کا استعمال، اس کے علاوہ آلودگی‘ ملاوٹ‘ وزن کی زیادتی‘ ورزش سے جی چرانا وغیرہ جیسے عوامل بھی کینسر کا سبب بن سکتے ہیں جبکہ تابکاری یا موروثی طور پر بھی یہ بیماری ہو سکتی ہے۔ اگر آپ کو اپنی طبیعت ٹھیک نہ لگے تو فوری طور پر علاج پر توجہ دیں۔اگر چھاتی کے سرطان کی بات کریں تو اس کے پیچھے بہت سی وجوہات ہیں جس میں سب سے بڑی وجہ برائلر مرغی اور بازار میں بکنے والا دودھ ہے‘ جن جانوروں کو ہارمونز کے انجکشن دیے جاتے ہیں‘ ان کا گوشت اور دودھ مضر صحت ہے۔ ان کی وجہ سے خواتین ہارمونز کی خرابی، پی سی او ایس اور تھائیرائیڈ وغیرہ جیسی بیماریوں کا شکار ہو رہی ہیں، خواتین میں غیر ضروری بالوں اور کینسر کا بھی عمومی طور پر یہی سبب ہے۔ چھاتی کا سرطان ہونے کے پیچھے بہت سے طبی اور ماحولیاتی عوامل بھی کارفرما ہیں۔ اگر یہ بیماری خاندان میں موجود ہو تو بھی اس بیماری کا امکان بڑھ جاتا ہے، سہل پسندی، موٹاپا، غیر متوازن ہارمونز، بچوں کی پیدائش تیس سال کے بعد ہونا، بریسٹ ٹشو ڈینس ہونا، اس کے ساتھ مرغن غذائیں، ہارمونز ٹریٹمنٹ، ریڈی ایشن اور کاسمیٹک امپلانٹس بھی کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں خواتین میں اس کی بڑی وجہ مرغن غذائیں اور موٹاپا ہیں۔ خواتین کو چاہیے کہ اپنی طرزِ زندگی میں تبدیلی لائیں، باقاعدگی سے ورزش کریں اور متوازن غذا کھائیں۔ خواتین گھر پر شیشے کے آگے یا نہاتے وقت اپنا معائنہ خود بھی کر سکتی ہیں کہ کہیں کوئی زخم یا گلٹی تو نہیں۔ اگر کوئی گلٹی ہو‘ اس کا رنگ تبدیل ہو جائے‘ زخم بن جائے‘ دانے نکل آئیں‘ زخم سے پیپ آئے‘ جسم میں درد محسوس ہو‘ چھاتیوں کے سائز میں زیادہ فرق آ جائے تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ جلد تشخیص اور جلد علاج سے جان بچائی جا سکتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہر گلٹی کینسر نہیں ہوتی لیکن پھر بھی اگر گلٹی محسوس ہو تو ڈاکٹر کو ضرور دکھائیں۔ بریسٹ کینسر کبھی ایک جگہ تک محدود رہتا ہے اور کبھی جسم کے دوسرے حصوں میں پھیلانا شروع ہو جاتا ہے‘ جو مزید خطرناک ہو سکتا ہے، اس لئے علاج پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ خواتین جن کی عمر تیس سال سے اوپر ہو جائے‘ انہیں الٹراسائونڈ اور میمو گرافی کروانی چاہیے۔ عمومی طور پر کینسر کا علاج سرجری‘ ریڈی ایشن‘ آپریشن‘ ادویات اور کیموتھراپی سے کیا جاتا ہے۔
عالمی سطح پر اکتوبر کو بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگاہی پھیلانے والے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے لہٰذا ایک دوسرے سے بات کریں۔ یہ بیماری قابلِ علاج ہے‘ اگر اس کی جلد تشخیص کر لی جائے۔ عورت ایک خاندان کو لے کر چلتی ہے‘ اگر وہ صحت مند ہوگی تو ہی گھر کا نظام بہتر طور پر چل سکے گا۔ پاکستان میں ہر سال ہزاروں خواتین اس مرض کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں‘ اس لئے اس پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔ مرد حضرات اپنے گھر میں اپنی بیویوں کو اس بیماری سے آگاہ کریں‘ پھر یہ خاتون گھر میں دیگر خواتین کو اس جان لیوا بیماری کے بارے میں آگاہی دے۔ کینسر سے بچنے کے لیے متوازن غذا کھائیں، برائلر مرغی، کیمیکل والے دودھ اور چینی کا استعمال ترک کر دیں۔ تیل اور گھی کا استعمال چھوڑ دیں، بچوں کو دودھ ضرور پلائیں کیونکہ یہ کینسر کے خطرے کوکم کرتا ہے۔ بریسٹ کینسر کا علاج طویل اور تکلیف دہ ہوتا ہے، ایسے وقت میں عورت کو اپنے گھر والوں کی مکمل سپورٹ چاہیے ہوتی ہے‘ اگر ان کے بال جھر جائیں یا ان کا کوئی عضو بیماری کی وجہ سے کاٹ دیا جائے تو ان کے ساتھ تخصیصی رویہ ہرگز مت اپنائیں۔ اس موقع پر خاتون کو گھر والوں کے ساتھ ماہرنفسیات کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ صحت کے شعبے پر توجہ دے اور آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات پر بھی توجہ دے۔ خواتین کے لئے میموگرافی‘ الٹراسائونڈ اور چیک اپ کی سہولت کو عام کرے۔ ان ٹیسٹوں اور علاج کی قیمت کم ہونی چاہیے تاکہ ہر کوئی علاج کروا سکے۔ کینسر کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے‘ وگرنہ صرف مہم چلانے سے کچھ نہیں ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں