عوامی مسائل پر بات کریں!

پاکستان میں نان ایشوز کے ایشوز بن جاتے ہیں اور اصل ایشوز منوں مٹی تلے دب جاتے ہیں۔ پوری دنیا اس وقت کورونا کی موذی وبا میں مبتلا لوگوں کی بحالیٔ صحت اورویکسین کی تیاری و تقسیم میں مگن ہے‘ عوام کو اس مرض سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے‘ اس بات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے کہ اس وبا سے کتنا معاشی نقصان ہوا ہے‘ عوام پر اس کے کیا نفسیاتی اور معاشرتی اثرات مرتب ہوئے ہیں‘ کتنے لوگ اس وبا میں بیروزگار ہوئے ہیں‘ کتنے ایسے ہیں جن کی صحت اب تک مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکی مگر پاکستان میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ تمام تر فوکس اور سرگرمیوں کا محور سیاست ہے۔ سکول‘ کالج‘ یونیورسٹیاں بند ہیں مگر باقی سب کچھ کھلا ہے، شاید کورونا صرف تعلیمی اداروں میں پھیلتا ہے اور باقی جگہوں سے تو گزرتا بھی نہیں۔تفریح گاہیں کھلی ہیں، ہزاروں مہمانوں پر مشتمل شادیاں ہو رہی ہیں، بازار لوگوں سے کھچا کھچ بھرے پڑے ہیں، کھانے پینے کی جگہوں پر تل دھرنے کی جگہ نہیں اور سب سے بڑھ کر جلسے‘ جو فری کورونا آوٹ لیٹ بنے ہوئے ہیں؛ہمارے جلسے میں آئیں اور مفت کورونا لے کر جائیں۔ لیڈران کو اپنی خودنمائی سے آگے کچھ نظر نہیں آ رہا۔ ہجوم میں ادائوں کے ساتھ ہاتھ ہلانے اور خوب جوش و خروش کے ساتھ تقاریر کرنے کا شوق انہیں گھروں میں چین نہیں لینے دے رہا۔ آندھی ہو یا طوفان‘ سردی ہو یا گرمی‘ انہوں نے جلسے کرنے ہیں۔
کورونا وبا ایک ایسی وبا ہے جو سانس لینے سے پھیل رہی ہے‘ تاحال دنیا میں اس کا کوئی علاج نہیں‘ صرف احتیاط کرکے ہی اس سے بچا جا سکتا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ ویکسین کورونا کا علاج نہیں‘ محض ایک حفاظتی تدبیر ہے مگر احتیاط ہم نے نہیں کرنی۔ پہلے سیاست دان گلگت بلتستان میں انتخابی مہم چلاتے رہے‘ وہاں بہت سے لوگ حتیٰ کہ بعض سیاست دان اس بیماری کا شکار ہوئے۔ اس کے بعد پی ڈی ایم کے فورم سے ملک بھر میں جلسے کئے گئے۔ جہاں سے تعصب‘ اشتعال انگیزی اور لسانیت کو بڑھاوا دینے کے ساتھ ساتھ کورونا بھی خوب پھیلایا گیا۔ بلاول بھٹو زرداری خود بھی اس مرض میں مبتلا ہوئے لیکن جلسے نہیں رکے۔ مریم نواز صاحبہ کی دادی جان رحلت فرما گئیں‘ ان کے خاوند کیپٹن (ر) صفدر کورونا کا شکار ہو گئے لیکن جلسوں کے شیڈول میں کوئی تعطل نہیں آیا۔ شاید سیاست دانوں کو وبا سے ڈر نہیں لگتا مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وبائی امراض اللہ کی تنبیہ اور عذاب ہوتے ہیں۔ ہر اچھا‘ برا انسان ان کی لپیٹ میں آ سکتا ہے‘ اس لئے وبا میں احتیاط کرنا ضروری بلکہ فرض ہوتا ہے۔
دنیا میں اس سے پہلے بھی بہت سی وبائیں آئی ہیں جن میں لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے اور لاکھوں کی تعداد میں متاثر ہوئے۔ طاعون، چیچک، گردن توڑ بخار، ہیضہ، زرد بخار، ہسپانوی فلو، برڈ فلو، ٹی بی، سوائن فلو، سارس، مرس اور دیگر کئی وبائیں انسانیت پر حملہ آور ہوئیں۔ ان میں سے زیادہ تر وبائیں مخصوص علاقوں تک محدود رہیں‘ اس وجہ سے باقی دنیا ان سے متاثر نہیں ہوئی مگر کچھ نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ ایبولا اور زکا وائرس ماضی قریب میں ہی میں دنیا پر حملہ آور ہوئے؛ تاہم کورونا وائرس اب تک کا سب سے خوفناک وائرس سمجھا جا رہا ہے جس نے چند ہی دنوں میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ سانس سے پھیلتا ہے اور انسان کے نظامِ تنفس پر حملہ کرتا ہے اور بعض کیسز میں اس وائرس کے متاثرہ شخص کے پھیپھڑے چند ہی دنوں میں ناکارہ ہو جاتے ہیں اور کچھ دنوں میں انسان ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے بچائو کا واحد حل یہی ہے کہ انسان بار بار ہاتھ منہ دھوئے، سماجی فاصلہ اختیار کرے، ہاتھ ملانے سے گریز کرے، منہ پر ماسک پہنے اور رش والی جگہوں پر جانے سے گریز کرے؛ تاہم پاکستان کے سیاسی لیڈران ان تمام ایس او پیز کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔
اب خدا خدا کر کے جلسے تھمے ہیں تو سینیٹ الیکشن کی دھوم مچ گئی ہے۔ 11 مارچ کو سینیٹ آف پاکستان کی 52 نشستیں خالی ہو رہی ہیں اور انتخابات سے ان پر نئے سینیٹرز منتخب ہوں گے۔ وفاقی حکومت یہ الیکشن فروری میں کروانے پر غور کر رہی ہے اور چاہتی ہے کہ اوپن ووٹنگ آپشن ہو۔ اس پر ایک گرما گرم بحث نے جنم لیا ہے اور تمام ٹی وی چینلز پر یہی بحث چھائی ہوئی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ سینیٹ الیکشن میں کھلی رائے شماری ہو یا پھر ہاتھ اٹھا کر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا جائے۔ سینیٹ الیکشن کے حوالے سے حکومت جلدی میں کیوں ہے؟ انتخابات اسی وقت کروائے جائیں جب حسبِ روایت سینیٹرز کی مدت پوری ہونے پر کروائے جاتے ہیں؛ تاہم خفیہ رائے شماری مجھے بھی نہیں پسند۔ اس طرح سینیٹ الیکشن ایک بیوپار بن جاتا ہے۔ اچھا ہے کہ الیکشن میں اوپن رائے شماری ہو۔ اس کے لئے قانونی ماہرین کے مطابق آئینی ترمیم کرنا ہو گی‘ یہ محض صدارتی آرڈیننس سے ممکن نہیں ہو گا مگر یہ ترمیم کرنا اتنا آسان نہیں کیونکہ اپوزیشن اتنی آسانی سے نہیں مانے گی حالانکہ یہ تو جمہوریت اور ووٹ کے تقدس و بقا کے لئے اچھا فیصلہ ہے لیکن معاملہ اتنی آسانی سے حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ 
سوال یہ ہے کہ راج نیتی کے اس سارے کھیل میں عوام کہاں ہیں؟ ان کا فائدہ‘ بھلا‘ خدمت کہاں ہیں؟ ان کی فلاح کے لئے کیا کِیا جا رہا ہے؟ اس پر کوئی بات نہیں ہو رہی۔ عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں‘ اشیائے ضروریہ ان کی استطاعت سے کوسوں دور نکل گئی ہیں‘ دوائیاں مہنگی تر ہوتی جا رہی ہیں‘ میڈیکل ٹیسٹ عوام کی سکت سے باہر ہیں۔ پھر کورونا کی وبا کی دوران منافع خوروں نے جس طرح کمائی کی‘ اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہر چیز کے دام سو فیصد تک بڑھ گئے۔ ایک وقت تھا مارکیٹ میں ماسک‘ ہینڈ سینی ٹائزر، آکسی میٹر، تھرما میٹر، آکسیجن سلنڈر اور کورونا سے بچائو کی اشیا غائب ہو گئی تھیں اور بلیک میں دستیاب تھیں مگر کئی گنا زیادہ قیمت پر! کورونا کے مریضوں کی جان بچانے والا ایک انجکشن جو چند ہزار کا تھا‘ لاکھوں میں فروخت ہوتا رہا۔ مجبور مریض اور ان کے لواحقین منت واسطے کرتے رہے لیکن چیزیں مفقود رہیں اور حکومتی رِٹ کہیں نظر نہیں آئی۔ اب جب کورونا کی دوسری لہر چل رہی ہے‘ حکومت اور اپوزیشن کی بے حسی عروج پر ہے۔ کئی گھروں سے ایک ایک دن میں دو دو جنازے اٹھ رہے ہیں‘ ان کے پیارے تسلی دینے نہیں آ سکتے‘ وہ لوگ گھروں میں گھٹن کا شکار ہیں اور اپنے فوت شدگان کو آخری بار چھو تک نہیں سکتے‘ ان کو خود غسل نہیں دے پاتے‘ ایسے صدمات کے بعد ان کو شدید نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے لیکن گھر تک کیسے مدد پہنچے گی‘ ایسی کوئی ایپ سروس نہیں جس سے کورونا سے وفات پا جانے والوں کے لواحقین کو کوئی نفسیاتی یا طبی مدد مل سکے۔لوگوں کے کاروبار کورونا کے سبب تباہ ہو گئے‘ ان کی نوکریاں چلی گئیں‘ وہ کس سے شکایت کریں‘ کون ان کی مدد کرے گا جب سیاستدانوں‘ حکومت اور میڈیا کی ترجیح عوام ہیں ہی نہیں؟ اس وقت سب کی ترجیح عوام ہونا چاہئیں اور سارا فوکس کورونا وبا اور اس سے نمٹنے کے لئے کام پر ہونا چاہیے۔ مریضوں اور ہسپتالوں کے لئے کام کیا جائے، ادویات اور ویکسین کی مسلسل فراہمی ممکن بنائی جائے۔ کورونا کے مریضوں کا علاج رعایتی نرخوں پر کیا جانا چاہیے اور مستحق مریضوں کا علاج مفت ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ڈاکٹرز اور طبی عملے کی تنخواہوں میں اضافہ بھی کیا جانا چاہیے، ان کی حفاظت کے لئے تمام تر ضروری اقدامات کرنا چاہئیں۔
گزشتہ دنوں پیاری ہیر دنیا سے رخصت ہو گئی۔ فردوس بیگم پاکستان کی معروف اداکارہ تھیں اور ہیر کے کردار کو اپنی جاندار اداکاری سے امر کر گئیں۔ ان کی وفات برین ہمیرج سے ہوئی۔ اللہ ان کو جنت نصیب کرے۔ اس کے علاوہ ایک اور صدمہ مجھے شدید رنجیدہ کر گیا، اسلام آباد کے سینئر صحافی طارق ملک وفات پا گئے۔ وہ کورونا کے باعث علیل ہوئے اور چند دنوں میں ہی دنیا چھوڑ گئے۔ ساری صحافتی برادری ان کی وفات پر شدید دکھ کا شکار ہے اور یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ ان کے لواحقین کو حکومت مالی امداد دے۔ وہ سفید پوش تھے‘ ساری زندگی تدریس اور رپورٹنگ میں گزر گئی۔ فرائض کی ادائیگی کے دوران ان کو کورونا ہوا اور چند ہی دنوں میں وہ چل بسے۔ اللہ ان کو غریقِ رحمت کرے، آمین! 
دنیا سے لوگ لمحوں میں رخصت ہو رہے ہیں‘ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے وقت میں سب اپنے دل نرم کرکے ایک دوسرے کو معاف کر دیں اور اور اس وقت سب کی توجہ کا مرکز صرف شعبہ صحت ہونا چاہیے۔ اس متعدی مرض کے پھیلائو کو کیسے روکنا ہے‘ اس پر سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ آنسو بہاتی آنکھوں کو کیسے پونچھنا ہے‘ غم زدہ لوگوں کی دل جوئی کیسے کرنی ہے‘ یہ مسائل ہماری توجہ کا مرکز ہونا چاہئیں۔ سکول‘ کالج بند ہو گئے ہیں لیکن والدین بھاری فیسیں بھر رہے ہیں۔ معاشی طور پر ان کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ اکثر لوگوں کے کاروبار بند ہو گئے ہیں، بہت سے لوگوں کی نوکریاں چلی گئی ہیں، جو لوگ اس وبا میں معاشی طور پر تباہ ہوئے ہیں‘ ان کی مدد کیسے کی جائے گی‘ کاش کہ یہاں سیاسی مسائل سے بالاتر ہو کر ان مسائل پر کوئی بحث ہوتی، کاش کہ اعلیٰ ایوانوں میں عوام کی بات ہو‘ سیاست اور راج نیتی تو کورونا کے بعد بھی ہوتی رہے گی‘ آئو !عوام کی بات کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں