اس سال جب جنوری میں روزنامہ دنیا کیلئے میں نے اپنا پہلا کالم لکھا تو وہ کورونا وائرس کے حوالے سے تھا۔ چین سے خبریں آ رہی تھیں کہ وہاں ایک عجیب وائرس سامنے آیا ہے جس سے نظامِ تنفس متاثر ہوتا ہے اور انسان کے پھیپھڑے بیکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ جب یہ کالم شائع ہوا تو بہت سے احباب نے کہا: جیا کیوں ڈرا رہی ہو‘ تم دیکھنا یہ وائرس پاکستان نہیں آئے گا، اس سے پہلے بھی تو برڈ فلو اور سوائن فلو آیا تھا، ہم محفوظ رہے تھے۔ میں بھی سوچ میں پڑگئی کہ کون ٹھیک کہہ رہا ہے اور کون غلط لیکن آگاہی دینا بھی تو ضروری تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ بیماری عالمی وبا کی صورت پوری دنیا میں پھیل گئی اور پاکستان بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ اگر ہم باڈر مینجمنٹ اچھی رکھتے اور قرنطینہ مراکز میں تمام ضروری سہولتیں فراہم کرتے تو شاید اتنی شدت سے اس وبا کی زد میں نہ آتے مگر یہ وبا پورے ملک میں پھیل گئی۔ لاک ڈائون کرنا ہے یا نہیں‘ اس پر بھی ایک لاحاصل بحث ہوتی رہی۔ سندھ میں مکمل لاک ڈائون کیا گیا‘ باقی ملک میں جزوی لاک ڈائون تھا۔ ایک طرف زندگیاں دائو پر تھیں اور دوسری طرف معیشت۔ فیصلہ سازوں کو مشکل ہوئی کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔
اس وائرس نے انسان کو انسان سے دور کر دیا۔ اکثر جب میں اپنی لائبریری میں بیٹھ کر سڑک کے اُس پار دیکھتی تو اتنا سناٹا اور خاموشی ہوتی‘ لگتا یہاں پر کوئی انسان بستا ہی نہیں ہے۔ میں بہت حساس واقع ہوئی ہوں‘ دنیا کی بے ثباتی پر میری آنکھیں جلد بھیگ جاتی ہیں۔ شور مچاتے چرند پرند سب نظر آتے‘ بہار کے موسم میں ہر طرف پھول کھل گئے بس انسان نظروں سے اوجھل تھے۔ سکول بند‘ بازار بند‘ تفریح گاہیں بند‘ ہر طرح کی سرگرمیاں بند۔ ہر کوئی گھروں میں دبک کر بیٹھ گیا۔ بیماری جیسے جیسے بڑھتی گئی بازاروں سے وہ اشیا غائب ہونا شروع ہو گئیں جو کورونا سے بچائو میں استعمال ہونا تھیں، معمولی قیمت کا ایک ماسک کئی سو روپوں تک جا پہنچا۔ سینی ٹائزرز، تھرمامیٹر اور آکسی میٹر بازاروں سے ایسے غائب ہوئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔ کچھ تاجروں نے وبا کا بھی لحاظ نہیں کیا اور خوب منافع کمایا۔ جان بچانے والی ادویات بازار میں ناپید ہو گئیں مگر یہاں ایسے بھی لوگ تھے جو دردِ دل رکھتے تھے اور جن کو خوفِ خدا تھا۔ انہوں نے گھروں میں محصور غریب لوگوں تک راشن اور کھانا پہنچایا‘ یہ بھی پروا نہیں کی کہ اس مشق میں خود ان کو بھی کورونا ہو سکتا ہے۔ لوگوں میں اشیائے خورو نوش اور ادویات مفت تقسیم کیں۔ اس کے ساتھ کچھ مخیر خواتین و حضرات مستحق افراد کو اور ہسپتالوں میں جاکر کھانا تقسیم کرتے رہے، کچھ افراد نے بڑی تعداد میں ماسک، صابن اور سینی ٹائزرز تقسیم کئے، کچھ نے غریبوں کی مالی مدد کی۔ جہاں یہ وبا کچھ لوگوں کو مزید لالچی‘ سفاک اور سنگ دل کر گئی‘ وہیں اللہ سے ڈرنے والے لوگوں کے دل مزید نرم کر گئی۔ کورونا کی وبا کی دوران زیادہ تر لوگوں نے گھروں سے کام کیا لیکن بہت سے لوگ اس وبا کے عروج پر بھی اپنے فرائض عام دنوں کی طرح انجام دیتے رہے‘ جن میں حکومتی ارکان، مسلح افواج، ڈاکٹرز، نرسز، پیرا میڈیک اور فارما سے تعلق رکھنے والے افراد، پولیس اور دیگر بہت سے ایسے شعبوں کے افراد تھے‘ جو مسلسل اپنی ڈیوٹی انجام دیتے رہے۔ ان میں بہت سے افراد اس بیماری کا شکار بھی ہوئے۔ اس دوران سب سے زیادہ مشکل صورتِ حال ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹرز اور سٹاف کو پیش آئی جنہیں کم سہولتوں اور کم بجٹ کے ساتھ ایک ایسی بیماری کا مقابلہ کرنا تھا جس کا علاج ہی موجود نہیں۔ اس بیماری کا مقابلہ کرتے کرتے کتنے ڈاکٹرز کے چہروں پر ماسک کا مستقل نشان پڑ گیا‘ کتنے ہی ڈاکٹرز مسلسل دستانے پہنے رکھنے سے جلدی امراض کا شکار ہو گئے۔ سخت گرمی میں بنا اے سی ڈاکٹرز پورے حفاظتی لباس میں کورونا وارڈز میں ڈیوٹی انجام دیتے رہے۔ کتنے ہی ڈاکٹرز خود مریضوں کے جنازے پڑھتے رہے کیونکہ لوگوں میں اس بیماری کو لے کر شدید خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔ طبی عملے نے کورونا سے جاں بحق ہونے والوں کی تدفین بھی کی۔ اس وبا کے دوران بہت سے مسیحا خود بھی جان کی بازی ہار گئے، اللہ ان تمام لوگوں کو غریقِ رحمت کرے، آمین!
وبائیں جب بھی آتی ہیں تو غریب‘ امیر، اچھے‘ برے کی تفریق کے بغیر سب کو نشانہ بناتی ہیں لیکن کرشماتی طور پر بچے اس بیماری سے محفوظ رہے۔ اس بیماری کا نشانہ زیادہ تر نوجوان اور بوڑھے افراد بنے۔ اس بیماری سے بچنے کے لئے ماسک پہننے، ہاتھ بار بار دھونے، سماجی فاصلہ اختیار کرنے کی احتیاطی تدابیر پر زور دیا گیا جبکہ علاماتِ بیماری کی صورت میں فوری طور پر خود کو قرنطینہ کر لینے کی ہدایت کی گئی۔ بہت سے لوگ قرنطینہ میں ہی ٹھیک ہو گئے؛ تاہم بہت سے لوگوں کو طبیعت بگڑنے پر ہسپتال منتقل ہونا پڑا۔ یہاں پر مشیت ِ ایزدی دیکھیں کوئی آئی سی یو اور وینٹی لیٹر سے زندہ واپس آ گیا تو کوئی‘ جودیکھنے میں بالکل ٹھیک لگ رہا تھا‘ دو تین دن میں اس بیماری سے چل بسا۔
اس سال کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب میں نے سوشل میڈیا کا استعمال کرنا چھوڑ دیا کیونکہ جب ٹائم لائن دیکھو‘ کسی کی بیماری کی اطلاع، کسی کی موت کی خبر، کسی کی تدفین کی اطلاع درج ہوتی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس سال کسی کو کوئی خوشی کی خبر نہیں ملی، کسی کو کچھ اچھا نہیں ملا اسی لیے ہر طرف بس موت کی منادی ہے۔ بہت سے اپنے بھی اس وبا میں لقمہ اجل بن گئے‘ ہم ایک دوسرے کو تسلی اور سہارا بھی نہیں دے سکے کیونکہ رابطے کا ذریعہ صرف فون یا وٹس ایپ تھا۔ کورونا کی وجہ سے ان لواحقین کو سہارا بھی نہیں دیا جا سکا جو خود قرنطینہ میں تھے۔خشک پتوں کی طرح لوگوں اس دنیا سے جانے لگے تو احساس ہوا کہ زندگی کتنی بے وقعت ہے۔ یہ حسن‘ جوانی‘ مال و دولت‘ رتبہ و طاقت‘ سب یہیں رہ جائے گا اور انسان لمحوں میں دنیا چھوڑ جائے گا۔ اپنے پیاروں کی موت پر لوگوں کو اکیلے روتے‘ گھٹتے دیکھا‘ ان کی داد رسی کے لیے بھی کوئی نہیں تھا۔ کچھ کو یہ غم سکون نہیں لینے دیتا تھا کہ وہ اپنے پیاروں کے ساتھ آخری لمحات میں نہیں تھے‘ ان کو اپنے ہاتھوں غسل نہیں دے سکے‘ ان کی تدفین نہیں کر سکے۔ یہ احساسات ان کو چین نہیں لینے دیتے تھے مگر کہتے ہیں کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہے‘ بالآخر صبر آ ہی جاتا ہے۔
وبا کا زور تھوڑا کم ہوا تو زندگی معمول کی طرف آنے لگی‘ بازار کھل گئے‘ تعلیمی سلسلہ بحال ہو گیا‘ تفریح گاہیں کھل گئیں اور زندگی کی رونقیں بحال ہونے لگیں لیکن کورونا کا دوسرا حملہ تو پہلے سے بھی زیادہ شدید تھا۔ ملک میں جلسے‘ احتجاج‘ شادیاں‘ تقریبات‘ میل ملاپ‘ سب عروج پر تھا، ہسپتال دوبارہ مریضوں سے بھرنے لگے۔ جس کسی کا کوئی پیارا رخصت ہوتا ہے‘ وہ اس بیماری کا کرب سمجھتا ہے‘ جو اس سے محفوظ رہے ہیں وہ اس تکلیف اور پریشانی کا تصور بھی نہیں کر سکتے جس سے کورونا کے مریض اور ان کے لواحقین گزرے ہیں۔ قدرت اس وبا کے دوران ہم سے کچھ چاہتی ہے‘ کیا ہم ان اشاروں کو سمجھ رہے ہیں؟ ہمیں زندگی میں دوڑنے کی رفتار کو کچھ کم کرنا ہوگا۔ ہمیں کچھ دیر سب کام روک کر تھوڑا آرام کرنا چاہیے‘ اپنے اردگرد رشتوں کو دیکھنا چاہیے‘ اُنہیں ہم سے کیا توقعات ہیں‘ کیا ہم انہیں وقت دے رہے ہیں؟ زندگی میں ایک مشین کی مانند کام کرتے ہوئے ہم کتنے رشتوں اور دوستوں کو پیچھے چھوڑ آئے ہیں‘ تھوڑا رک جائیں‘ تھوڑا ٹھہر جائیں! جب یہ وبا گزر جائے تو پھر اُس مشینی زندگی میں واپس چلے جانا۔ وبا نے جو معمولاتِ زندگی کو تھوڑا تبدیل کیا ہے‘ اس پر آپ کے پیاروں کا حق ہے۔ یقینا جو آج ہے‘ کل نہیں ہو گا‘ اس لئے کچھ لمحات ان کے نام جو آپ کے منتظر ہیں! اللہ کے ساتھ دل لگائیں اور عبادت میں وقت گزاریں۔ اس سے پہلے بھی دنیا میں وبائیں آتی رہیں‘ وقت کے ساتھ ان کا علاج اور ادویات بھی آ گئیں لیکن دورِ جدید کی یہ پہلی وبا ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ اب اگلے سال تک امید ہے کہ اس کی ویکسین پوری دنیا میں پہنچ جائے گی اور اس سے کچھ افاقہ ہو گا لیکن تب تک سماجی فاصلہ برقرار رکھیں، احتیاط کریں اور ایک دوسرے پر رحم کریں۔ یہ مشکلات کا سال تھا‘ امید ہے کہ اگلا سال خوشیوں کا سال ہو گا۔