معاشرے میں بڑھتی عدم رواداری

ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی بڑھتی جا رہی ہے۔ چھوٹی سے بات پر اچانک بے جا غصہ، نفرت ہمیں سڑکوں‘ بازاروں اور مختلف ریلیوں میں عام نظر آتی ہے۔ کسی بھی بات کو لے کر لوگ احتجاج کرنے لگتے ہیں اور سڑکوں پر ٹائر جلانا شروع کر دیتے ہیں، ہم وطنوں کی گاڑیوں اور دکانوں وغیرہ کو آگ لگا دیتے ہیں‘ نعرے لگاتے ہیں‘ لوگوں کو ہراساں کرتے ہیں۔ کچھ مظاہرین کے ہاتھوں میں ڈنڈے ہوتے ہیں جبکہ کچھ ہتھیاروں کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں۔ جو بھی طبقہ ہو‘ جو بھی مطالبہ ہو‘ احتجاج کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ سڑکیں بند کر دی جائیں اور جلائو‘ گھیرائو کیا جائے۔ سونے پر سہاگا مقامی انتظامیہ ہوتی ہے جو معاملات کو سلجھانے کے بجائے کنٹینرز وغیرہ لگا کر خود ہی سڑکیں بند کر دیتی اور عوام کو مشکلات کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے۔ لوکل ٹرانسپورٹ بند کردی جاتی ہے، بعض علاقوں میں موبائل فون سروس، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا بھی بند کر دیا جاتا ہے، یوں عوام دونوں اطراف سے پستے ہیں۔ ایک طرف سے مظاہرین کے ہاتھوں اور دوسری جانب سے انتظامیہ کے ہاتھوں۔ ہمارے معاشرے میں اتنی انتہا پسندی کیوں ہے‘ یہ معاشرے میں کب اور کیسے سرایت کر گئی اور اس کا سدباب کیسے کیا جائے؟ کوئی اس پر بات کیوں نہیں کرتا؟
ہماری نوجوان نسل اس ملک کا نصف حصہ ہے‘ اگر وہ ڈنڈے لے کرسڑکوں پر آ جائے گی تو ہمارے عالمی امیج کا کیا ہو گا؟ ہمیں بطورِ قوم احتجاج کا طریقہ کیوں نہیں آتا؟ کیوں ہم اس ضمن میں مہذب ملکوں کی تقلید نہیں کرتے کہ ہسپتال، دفاتر اور سڑکیں کھلی رہیں اور پُرامن احتجاج بھی ہوتا رہے۔ مظاہرہ کرنے والے جس بھی طبقے سے ہوں‘ ان کے مطالبات سنے جانے چاہئیں‘ ان سے مذاکرات کرنا چاہئیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مظاہرین مشتعل ہو کر پولیس اور دوسرے سکیورٹی اداروں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں‘ ایسے میں اداروں کی جانب سے جوابی کارروائی کی جاتی ہے اور معاملہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ غور کریں کہ دونوں طرف پاکستانی ہیں‘ دونوں طرف مسلمان ہیں‘ معاملہ اس نہج تک پہنچنے سے پہلے حل کیوں نہیں کیا جاتا؟ کوئی بھی سخت فیصلہ لینے سے پہلے اس کے اثرات، عواقب و نتائج پر توجہ کیوں نہیں دی جاتی؟
بلاشبہ ریاست کا ہر فیصلہ اولین حیثیت رکھتا ہے‘ ہر شخص آئین پاکستان کے تابع ہے؛ تاہم جمہوری اقدار کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ اختلافِ رائے کیا جا سکتا ہے لیکن یہ اختلافِ رائے حدود قیود کا پابند ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں عالم یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں لڑ پڑتے ہیں، ایک دوسرے پر تشدد کرتے ہیں ، اپنے بیانات میں ایک دوسرے کی کردار کشی کرتے ہیں، رہی سہی کسر سیاسی پارٹیوں کے کارکنان مخالفین پر سیاہی پھینک کر اور انڈے‘ ٹماٹر مار کر پوری کر دیتے ہیں۔ ہر جماعت کے بڑے ان چیزوں پر خوش ہوتے ہیں۔ پاکستانی ٹویٹر ٹائم لائن دیکھیں‘ ہفتہ وار تین سے چار ٹرینڈ گالم گلوچ پر بنتے ہیں‘ اس میں خواتین کی بھی کردار کشی کی جاتی ہے۔ اگر آپ سمجھانے کی کوشش کریں کہ یہ سب غلط ہے‘ ایسا نہیں ہونا چاہیے تو جواباً آپ کو بھی گالیاں پڑتی ہیں اور نوبت دھمکیوں تک آ جاتی ہے۔ اپنی غلطی کسی کو نظر نہیں آتی لیکن دوسرے میں ہزار برائیاں دکھائی دیتی ہیں۔
یہ کلچر اس ملک کی اشرافیہ اور خود لیڈران ہی ختم کر سکتے ہیں‘ چاہے وہ سیاسی لیڈران ہوں یا مذہبی لیڈران‘ انہیں چاہیے کہ اپنے کارکنوں کو برداشت، صبر، اخوت، بھائی چارے اور ایثار کا سبق دیں۔ اس کے لئے سب سے پہلے خود مثال بنیں۔ جب تک لیڈران اپنے اندر تحمل نہیں پیدا کریں گے‘ ان کے کارکنوں میں بھی برداشت اور درگزر جیسے اوصاف نہیں آئیں گے۔ تمام جماعتیں اپنے کارکنوں کی تربیت کریں کہ جلسہ‘ دھرنا‘ احتجاج کرتے وقت قومی و نجی املاک کو نقصان نہیں پہنچانا‘ کسی ہم وطن پر حملہ نہیں کرنا‘ کسی کی گاڑی نہیں توڑنی اور کہیں پر آگ نہیں لگانی۔ جس طرح ہم احتجاج کرتے ہیں‘ اس سے ہم عالمی دنیا کو یہی پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں ڈھنگ سے احتجاج کرنے کا طریقہ بھی نہیں آتا۔
اس وقت ہمیں نصاب میں چند بنیادی تبدیلیاں درکار ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اسلامی تعلیمات اور اقدار کو نصابِ تعلیم میں شامل کرنا ہو گا۔ سکول‘ کالجز‘ یونیورسٹیز ہوں یا مدارس‘ ہمیں اپنے نصاب میں نئی نسل کو امن‘ ایثار‘ قربانی‘ بھائی چارے‘ محبت و احترام اور صلہ رحمی کا درس دینا ہو گا۔ ہمیں نئی نسل کو بھی سننا ہوگا کہ ان کے کیا مسائل ہیں‘ وہ کیا چاہتے ہیں۔ معاشرے سے انتہا پسندی ختم کرنے کے لئے ہمیں ملک میں منصفانہ نظام کو فروغ دینا ہو گا، نوجوانوں کے لئے روزگار اور کھیلوں کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے تاکہ وہ اپنی سرگرمیاں مثبت انداز میں آگے بڑھائیں۔ ہمارے ملک کے بچے بہت شوق سے کرکٹ‘ ہاکی اور فٹ بال کھیلنا پسند کرتے ہیں‘ ہر علاقے میں‘ ہر سکول میں‘ ہر مدرسے میں کھیل کے میدان ہونے چاہئیں تاکہ نوجوان نسل فارغ اوقات میں کھیلے کودے اور ورزش کرے۔
مجھے بہت افسوس ہوا جب میں نے دیکھا کہ مظاہروں میں لوگوں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ڈنڈے پکڑائے ہوئے تھے‘ ان کو ترغیب دے رہے تھے کہ وہ گاڑیوں کے شیشے توڑیں اور ٹائر جلائیں۔ ہم مغرب کے اسلامو فوبیا کا مقابلہ اس طرح نہیں کر سکتے۔ ہمیں سب سے پہلے خود سیرت النبی پر عمل کرنا ہو گا‘ خود کو اسلام کی پاک تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنا ہو گا۔ ہمیں اپنے جذبات کو قابو رکھ کر ہوش سے کام لینا ہوگا اور نبی پاکﷺ کی تعلیمات کو آگے پھیلانا ہو گا۔ میں نے پہلے بھی 'روزنامہ دنیا‘ کے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ہمیں قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر دنیا کی تمام زبانوں میں ترجمہ کرا کے سفارت خانوں اور دنیا بھر کی لائبریریوں میں بھجوانی چاہئیں۔ اس حوالے سے آن لائن پورٹل بنائے جائیں جہاں اسلامی تعلیمات کو مختلف زبانوں میں اَپ لوڈ کیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان اور ترک صدر رجب طیب اردوان اس ضمن میں اپنا عالمی کردار ادا کر سکتے ہیں کہ عالمی دنیا کو باور کروائیں کہ یہ کوئی آزادیٔ رائے نہیں کہ دوسرے مذاہب کی مقدس شخصیات کی شان میں گستاخی کی جائے اور کسی کے مذہبی عقائد کا مذاق اڑایا جائے۔ تمام مسلم ممالک اس پر مل کر اقوام متحدہ میں بات کریں اور اس ضمن میں چین سے بھی مدد لی جائے۔ مجھے امید ہے کہ اس معاملے کا حل مذاکرات اور افہام و تفہیم سے نکل آئے گا۔ ایک اور بات جس کی طرف میں توجہ مبذول کروانا چاہتی ہوں وہ یہ کہ کہیں بھی سوشل میڈیا پر کوئی گستاخانہ مواد دیکھیں تو اس کو آگے مت شیئر کریں بلکہ خاموشی کے ساتھ پی ٹی اے کو رپورٹ کریں۔ پوسٹ کرنے والے کا مقصد ہی اس طرح کی چیزوں کو پھیلا کر مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنا ہوتا ہے‘ ایسے مواد کو شیئر کر کے ان دشمنوں کے ہاتھوں میں مت کھیلیں بلکہ اس کو آن لائن رپورٹ کریں۔ہم سب کو خود میں بھی تبدیلی لانا ہو گی‘ خود میں نرمی‘ تحمل اور عاجزی پیدا کرنا ہو گی۔ پاکستان میں چاہے لبرلز ہوں‘ دائیں بازو کے افراد ہوں یا بائیں بازو کے‘ سب کو چاہیے کہ پہلے خود میں اعتدال پسندی پیدا کریں پھر دوسروں کو میانہ روی کا درس دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں