بڑھتے ہوئے سٹریٹ کرائمز

میں جب بھی کراچی جاتی تھی‘ مجھے یہی فکر لاحق رہتی تھی کہ کب کوئی گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹائے گا اور مجھ سے فون‘ پرس اور جیولری چھین لے گا۔ میرے کزنز میرا مذاق اڑاتے تھے کہ تم پیدا تو کراچی میں ہوئی تھی لیکن رنگ تم پر اسلام آباد کا چڑھ گیا ہے۔ میں ہنستے ہوئے کہتی کہ جب میں پلی بڑھی خطہ پوٹھوہار میں ہوں تو ظاہری بات ہے کہ مجھے وہاں کی ہی عادت ہو گی۔ میرا بچپن مری‘ بھوربن میں گزرا ہے۔ ہم وہاں بے فکر کھیلا کودا کرتے تھے، وہاں کبھی کسی ناخوشگوار صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اسی طرح جب ہم اسلام آباد شفٹ ہوئے تو یہاں بھی ہم بچے پارکس اور مارکیٹوں میں آرام سے چلے جاتے تھے، کبھی جرائم کے بارے میں سنا بھی نہیں تھا۔ عید‘ تہوار پر ہم دادا‘ دادی کے پاس چلے جاتے اور دیگر محلے دار بھی آبائی علاقوں کو لوٹ جاتے، گلیاں اور سیکٹر وغیرہ خالی ہو جاتے تھے کیونکہ اسلام آباد زیادہ تر پردیسوں کا شہر تھا۔ پھر آہستہ آہستہ جب بزرگ رخصت ہو گئے تو زیادہ تر لوگ عید‘ تہوار اسلام آباد میں ہی منانے لگ گئے۔
ایک بار تیز بارش میں ہم سب مری جا رہے تھے کہ زیرو پوائنٹ کے پاس ٹائر پنکچر ہو گیا۔ نوے کی دہائی میں اسلام آباد بہت ویران ہوتا تھا‘ سڑکوں پر ٹریفک بہت کم ہوتی تھی۔ جہاں گاڑی خراب ہوئی تھی‘ وہاں بازار اور مکینک کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ڈیڈی اور میری بہن تیز بارش میں ٹائر تبدیل کرنے لگے اور بارش میں بھیگ گئے۔ اسی اثنا میں دو اسلام آباد پولیس کے اہلکار آئے اور میری بہن کو کہا: آپ گاڑی میں بیٹھو۔ انہوں نے ٹائر تبدیل کیا اور چلے گئے اور میں انہیں گاڑی میں بیٹھے ٹائر بدلتا دیکھ رہی تھی۔ اس کے بعد بھی جب کبھی پولیس سے واسطہ پڑا‘ تجربہ خوشگوار ہی رہا۔ میری دونوں بہنوں نے جب نئی نئی گاڑی چلانا سیکھی تو پولیس اہلکاروں سے سرزنش بھی ہوئی اور شاباش بھی ملی۔ اس سارے عرصے میں ہم نے کبھی سٹریٹ کرائمز کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ اس عادت کے ساتھ جب ہم کراچی جاتے تو یکدم لاپروا ہو کر باہر نکلتے تھے، پھر خیال آتا کہ موبائل‘ جیولری اور پیسے چھپانے ہیں تو عجیب سی بے چینی طاری ہو جاتی۔ میں ایک بار کلفٹن میں شاپنگ کر رہی تھی کہ وہاں گولیاں چلنا شروع ہو گئیں۔ دکاندار نے فوری طور پر شٹر نیچے گرا دیا۔ باقی سب لوگ آرام سے شاپنگ کرتے رہے لیکن مجھے گولیوں کی آواز سے الجھن ہو رہی تھی جبکہ شٹر گرائے جانے سے میں خوف میں مبتلا ہو گئی تھی۔ دکاندار نے مجھے دیکھا تو بولا: باجی لگتی تو آپ کراچی والی ہیں لیکن لگتا ہے کہ اس شہر میں نہیں رہتیں۔ مجھے ہنسی آ گئی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ سب کب ختم ہو گا؟ اس نے کہا کہ دس منٹ میں صورتحال کنٹرول میں آ جائے گی، اس کے بعد جب میں بازار سے نکلی تو شاپنگ سے توبہ کر لی۔
کراچی کے لوگوں نے سٹریٹ کرائمز کی وجہ سے بہت تکلیف اٹھائی ہے، جان و مال کا نقصان برداشت کیا ہے، کراچی آپریشن کے بعد وہاں امن و امان کی صورتحال کافی بہتر ہو گئی ہے۔ اسلام آباد اس کے مقابلے میں ہمیشہ محفوظ ہی رہا؛ البتہ جب دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو اسلام آباد بھی دہشت گردی کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ طویل جنگ کے بعد حالات بہتر ہو گئے اور شہر میں دیگر جرائم کی شرح بھی کافی کم رہی؛ تاہم اب کچھ عرصے سے چوری‘ ڈکیتی‘ کار چوری اور سٹریٹ کرائمز میں خاصا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ایک ہی بینک سے نکلنے والے دو صارفین کے پیچھے ڈاکو لگ گئے اور تھوڑی دور جا کر ان سے رقم چھین کر فرار ہو گئے۔ پھر اسلام آباد کے سوشل میڈیا گروپس میں لوگ مسلسل شکایات کر رہے ہیں کہ کسی کا پرس‘ کسی کا موبائل تو کسی کا لیپ ٹاپ چھن لیا گیا۔ مجھے یہ سب پڑھ کر بہت پریشانی ہوئی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے‘ وہ بھی شہرِ اقتدار میں‘ جہاں اہم ملکی و غیر ملکی شخصیات قیام پذیر ہیں۔ اگر اس ہائی سکیورٹی زون میں بھی عام عوام محفوظ نہیں تو دیگر علاقوں کی صورتحال کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کوئی منظم گروہ سٹریٹ کرائمز اور گداگری میں ملوث ہے۔ یہ پوری پلاننگ کرکے کارروائی کرتے ہیں۔
گداگری جیسی لعنت کے پیچھے بھی ایک منظم مافیا ہے جو بچوں سے یہ کام کرواتا ہے۔ اسلام آباد میں یکدم بھکاری بچے بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ جنہیں سکول میں ہونا چاہیے تھا وہ گاڑیوں کے آگے آکر بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے اگرچہ اسلام آباد پولیس اور شہری انتظامیہ بہت بار ایکشن لے چکی ہے لیکن کچھ عرصے بعد یہ مافیا دوبارہ متحرک ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے اُن کا حق مارا جاتا ہے جو واقعی مستحق ہوتے ہیں۔ اسلام آباد کے شہریوں نے اکثر اس امر کا مشاہدہ کیا ہو گا کہ گداگر بچوں کو ٹھیکیدار گاڑیوں میں صبح کے وقت سڑکوں پر چھوڑ جاتے ہیں اور رات گئے پک کر لیتے ہیں۔ اسلام آباد پولیس نے اب پھر پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف سخت کریک ڈائون کیا ہے اور اب پولیس کی کوشش ہے کہ حکومت کے تعاون سے ان بچوں کی بحالی پر کام کیا جائے۔ اگر ان کیلئے روزگار‘ رہائش اور کھانے پینے کا مناسب بندوبست نہ کیا گیا تو یہ دوبارہ اس مافیا کے چنگل میں پھنس جائیں گے۔ اس کے علاوہ جو دیگر جرائم سامنے آ رہے ہیں‘ ان میں سڑکوں پر خواتین کو ہراساں کرنا، راہگیروں سے پرس اور فون چھین لینا، گھروں کے باہر لگی اشیا کا چوری ہو جانا، کار‘ موٹر سائیکل کی چوری، ڈکیتی، اغوا اور قتل کے کیسز وغیرہ ہیں۔
2020ء اسلام آباد کے لیے کافی بھاری رہا، اس پورے سال میں گھروں میں ڈکیتیوں کے علاوہ بازاروں میں بھی کافی چوریاں ہوئیں اور شہریوں نے مالی کے ساتھ جانی نقصان بھی اٹھایا۔ سال کی سب سے بڑی واردات اسلام آباد کی قدیمی سپر مارکیٹ میں ہوئی جس میں ڈاکو تقریباً ساڑھے چار کروڑ کا سونا لوٹ کر لے گئے۔ اس دوران پولیس نے بہت سے کیسز حل بھی کیے، متعدد گینگز کو پکڑا اور مالِ مسروقہ برآمد کرکے اصل مالکان کے حوالے کیا؛ تاہم شہریوں میں بے چینی اور خوف بڑھ رہے ہیں۔ ایک تو کورونا‘ دوسری طرف معاشی دبائو‘ اوپر سے شہر کے حالات ابتری کی طرف گامزن ہیں۔ اب تو میں خود بھی باہر جاتی ہوں تو فون پرس میں رکھتی ہوں اور جیولری نہیں پہنتی۔ پولیس کی جانب سے اس دوران ایک اچھا اقدام یہ سامنے آیا کہ عوام کے ساتھ سوشل میڈیا پر لنک ہوگئی، اس سے یہ فائدہ ہوا کہ پولیس اور عوام میں رابطہ آسان ہو گیا ہے۔ لوگوں کو تھانے نہیں جانا پڑتا اور سوشل میڈیا پر اٹھائے گئے مسئلے پر بھی فوری ایکشن لیا جاتا ہے۔ میں نے خود بھی دو‘ تین اہم معاملات کی نشاندہی کی تو پولیس نے فوری ایکشن لیا اور معاملے کو حل کیا۔ اس کے علاوہ بھی کتنے ہی کرائمز‘ جو آن لائن رپورٹ ہوئے‘ پر فوری ایکشن لیا گیا اور عوام کو ریلیف ملا۔
پولیس کی موبائلز اب مختلف سیکٹرز میں گشت کرتی نظر آتی ہیں، پارکس میں سائیکل سکواڈ گشت کرتا ہے تاکہ سڑکوں اور پارکس میں عوام کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔ پولیس حکام کھلی کچہریوں کا بھی انعقاد کرتے ہیں تاکہ عوام کے مسائل موقع پر حل ہو سکیں۔ حال ہی میں اسلام آباد میں ایگل سکواڈ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے‘ یہ اہلکار موٹر سائیکلوں پر شہر میں گشت کرتے ہیں‘ خواتین کو تشدد سے بچانے کیلئے جینڈر پروٹیکیشن یونٹ فعال کیا گیا ہے جس میں خواتین خود جا کر بھی مسئلہ رپورٹ کر سکتی ہیں۔ گزشتہ دنوں بارہ کہو میں یرغمالیوں کو جس بہادری سے پولیس نے چھڑایا‘ اس پر پولیس کی کافی تحسین ہوئی ہے۔ ایک شخص نے بچوں کو گن پوائنٹ پر یرغمال بنا لیا تھا‘ پولیس نے مہارت سے کارروائی کرتے ہوئے بچوں کو بھی بچا لیا اور مجرم کو بھی گرفتار کیا۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں ڈکیتی کی ایک واردات میں کانسٹیبل محمد ارشد کو ایک اور پولیس وین کے ڈرائیور محمد ثقلین کو 5 گولیاں لگیں لیکن دونوں نے اپنی جان پر کھیل کر ڈکیتی کی واردات کو ناکام بنایا۔ چونکہ یہ دنوں کوئیک آپریشن فورس کا حصہ نہیں تھے‘ لہٰذا انہوں نے سیفٹی گیئر بھی نہیں پہن رکھا تھا۔ اگرچہ پولیس کے فوری رسپانس سے عوام اور پولیس کے مابین اعتماد بحال ہوا ہے؛ تاہم بڑھتے ہوئے سٹریٹ کرائمز لمحہ فکریہ ہیں اور حکومت اور پولیس کو فوری طور پر ان کے سدباب پر کام کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں