سگ گزیدگی کے بڑھتے واقعات!

میں جانوروں سے بہت پیار کرتی ہوں اور میری کوشش ہوتی ہے کہ ان پر ہر ممکن شفقت کی جائے مگر ہمارے ہاں عمومی رویہ جانوروں کے ساتھ بدسلوکی کا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ ہم سڑکوں‘ جنگلوں‘ بازاروں اور چڑیا گھروں میں آئے روز دیکھتے رہتے ہیں۔ کوئی کتا‘ بلی اگر گلی میں آجائے تو لوگ اسے مارنے لگتے ہیں‘ کوئی اس کی دم کھینچتا ہے‘ کوئی پتھر مارتا ہے‘ کوئی دم پر کچھ باندھ دیتا ہے اور کوئی تو ان معصوم جانوروں کو زہر دے دیتا ہے۔ اگر آوارہ جانور میونسپلٹی کے ہاتھ لگ جائیں تو وہ ان جانوروں کو سیدھا گولی مار دیتے ہیں۔ بندروں اور بھالوئوں کو نکیل ڈال کر ڈگڈگی پر نچایا جاتا ہے‘ ان کو بھوکا رکھاجاتا اور کرتب سکھانے کیلئے سخت اذیتیں دی جاتی ہیں‘ یہاں تک کہ سانپ جیسے موذی جانور کو بھی پٹاری میں بند کرکے قابو کرلیا جاتا ہے۔ اپنے شغل میلے کے لیے لوگ کتوں کی لڑائی کراتے ہیں‘ مرغوں کی لڑائی دیہی علاقوں کا ایک بڑا مشغلہ ہے، درجنوں جانور اور پرندے ایسے کھیلوں میں مر جاتے ہیں۔ گھوڑوں کی ریس پر جوا کھیلا جاتا ہے۔ ایسا ہی حال پرندوں کا ہے‘ جنہیں پنجروں میں قید کر کے مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ امیروں کے تو شوق ہی نرالے ہیں‘ انہوں نے گھروں میں شیر اور اژدھے پال رکھے ہیں، دوسرے ملکوں سے لاکھوں روپے کے جانور امپورٹ کر کے گھروں میں انہیں بطورِ نمائش رکھا جاتا ہے۔ اکثر جانور یہاں کے ماحول میں ایڈجسٹ نہیں ہوپاتے اور جلد ہی مرجاتے ہیں۔ یہی لوگ جو غیر ممالک سے آئے مہنگے جانوروں سے پیار کرتے ہیں‘ عمومی طورپر اپنے ملک میں موجود جانوروں اور پرندوں سے حقارت بھرا سلوک کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر جانور ہم سے ڈرتے ہیں اور ہم ان سے دور بھاگتے ہیں‘ حالانکہ صرف درندے انسانوں کیلئے خطرہ ہیں‘ باقی جانور اور پرندے انسانوں کو کچھ نہیں کہتے؛ تاہم اگر جانوروں‘ پرندوں کو بے جا تنگ کیا جائے تو وہ بھی انسان دشمنی پر اتر آتے ہیں لیکن زیادہ تر جانور بے ضرر ہوتے ہیں۔ البتہ جنگلی جانوروں، کچھ آبی مخلوقات، زہریلے حشرات الارض اور کتوں وغیرہ کے کاٹنے سے انسان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے‘ اس لیے جہاں جانوروں وغیرہ کو تنگ کرنے سے گریز کرنا چاہیے وہیں ان سے مناسب فاصلہ بھی رکھنا چاہیے تاکہ وہ انسانوں پر حملہ آور نہ ہوں۔ لاہور چڑیاگھر میں ایسا ایک واقعہ پیش آ چکا ہے کہ ایک ریچھ نے ایک بچے کو دبوچ کر ہلاک کر دیا تھا، اسی طرح بھارت میں ایک شخص شیروں کے پنجرے میں میں گر گیا تھا تو اس کو شیر نے کھا لیا تھا۔ ایسے ہی مگرمچھ‘ سانپ‘ لومڑی‘ بھیڑیے اور شارک وغیرہ کے حملوں میں ہر سال ہزاروں لوگ جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔لوگ سیر و سیاحت کے لیے شمالی علاقہ جات کی طرف جاتے ہیں مگر نیشنل پارک کے پروٹوکولز کو فالو نہیں کرتے اور جانوروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک سیاح نے مارخور جیسے نایاب جانور کے شکار کی کوشش کی حالانکہ یہ ممنوع ہے۔ اسی طرح لوگ جنگلات میں موجود جانوروں کے بچوں یا انڈوں کو چھیڑتے ہیں‘ جس کی وجہ سے بے ضرر جانور بھی انسانوں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کتوں کے حملے سے زخمی ہو جاتی ہے اور کچھ صورتوں میں اموات بھی ہو جاتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتے انسانوں پر حملہ آور کیوں ہوتے ہیں؟ میرے پاس خود کتے موجود ہیں اور یہ بہت وفادار جانور ہوتا ہے۔ مالک کو دیکھتے ہی خوشی سے دم ہلاتا ہے‘ اچھل کود کرتا ہے ۔میں ان کا بہت خیال رکھتی ہوں‘ انہیں وقت پر کھانا دیتی‘ انہیں واک کراتی اور ویکسین لگواتی ہوں؛ تاہم اگر ان کو مارا جائے‘ کھانا ان سے چھین لیا جائے تو یہ مالک پر بھی حملہ کر سکتے ہیں۔ میرے پاس جو ڈاگز ہیں‘ وہ اگر ایک بار کسی کو دانتوں میں دبوچ لیں تو‘ کہا جاتا ہے کہ‘ دس، پندرہ منٹ سے پہلے منہ نہیں کھولتے۔ وہ بھی اس صورت میں جب ان کے ناک پر کوئی گرم چیز لگائی جائے۔ اب سوچیں اتنی دیر میں انسان کا کیا حال ہوگا؟ اس لیے میں ایک منٹ کی بھی غفلت نہیں برتتی کہ یہ کسی پر حملہ نہ کر دیں، ''سیلفی عوام‘‘ کو میں ان سے دور ہی رکھتی ہوں۔
ہمارے ہاں گلی‘ کوچوں میں ہوتا یہ ہے کہ لوگ کتوں سے برا سلوک کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ انسان دشمن بن جاتے ہیں۔ اگر کتے کو روٹی ڈالی جائے تو یہ لوگوں کا وفادار بن جائے گا اور ان کی حفاظت بھی کرے گا۔ کچھ کیسز میں جانور بھوکے ہوتے ہیں‘ اس لیے بھی حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ جو سب سے خطرناک اور تشویشناک بات ہے وہ ان میں بائولے پن یعنی ریبیز کی بیماری ہے۔ اگر پاگل کتا کسی انسان کو کاٹ لے تو انسان بیمار ہو جاتا ہے اور اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے لیکن جس کتے کو ویکسین لگی ہوتی ہے‘ وہ اگر کسی کو کاٹے تو انسان انجکشن لگوانے کے بعد محفوظ ہو جاتا ہے؛ تاہم ہمارے ملک میں جانوروں کی فلاح کیلئے کام کرنے والی تنظیمیں بہت کم ہیں اور بیمار جانور ہی گلی کوچوں میں گھومتے رہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورتحال میں کرنا کیا چاہیے؟ کتوں کو مارنا اس مسئلے کا حل نہیں ہے، وہ بھی جاندار ہیں‘ ان کو بھی جینے کا حق حاصل ہے۔ ریبیز میں مبتلا کتے کو تکلیف سے نجات دینے کے لیے ایسا کیا جا سکتا ہے مگر صحتمند کتوں کو مارنا میرے نزدیک مناسب نہیں۔ ہر علاقے میں کوئی ایسی جگہ بنائیں جہاں یہ آرام کر سکیں‘ کھا پی سکیں۔ لوگ ان کو پانی‘ ڈاگ فوڈ‘ ابلا ہوا گوشت‘ ہڈیاں اور بچا ہوا کھانا ڈال دیا کریں‘ اس طرح یہ لوگوں سے مانوس ہو جائیں گے اور کسی پر حملہ آور نہیں ہوں گے۔ اس کے علاوہ ٹریپ‘ نیوٹر اینڈ ریٹرن تھراپی بھی بہت کارآمد ہے۔ ان کو پکڑا جائے اور ان کی نسل بڑھانے کی صلاحیت ختم کر کے ان کو ویکسین لگائی جائے اور واپس ان کے علاقے میں چھوڑ دیا جائے۔ اس طرح ان کی آبادی کنٹرول میں رہے گی اور بائولے پن کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ لوکل انتظامیہ ان کو مخصوص کالر بھی پہنا سکتی ہے تاکہ لوگوں کو پتا چل جائے کہ یہ جانور نیوٹر اور ویکسین شدہ ہیں۔
اگر بائولا کتا آپ پر حملہ آور ہو جائے‘ جس کی نشانی یہ ہے کہ اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی ہوتی ہے، جسم جگہ جگہ سے خراب ہوتا ہے‘ تو فوری طور پر اپنی جان بچانے کی کوشش کریں، کتے کے آگے کوئی بیگ یا کھانے کی کوئی چیز پھینک دیں تاکہ وہ اس کے پیچھے بھاگے اور آپ پر حملہ آور نہ ہو۔ عام کتا کھانا‘ پانی دیکھ کر فوری طور پر نارمل ہو جاتا ہے لیکن ریبیز کا شکار کتا اپنے حواس میں نہیں ہوتا، کسی چھڑی وغیرہ کی مدد سے اس کو خود سے دور رکھیں۔ اگر ایسا کتا آپ کو کاٹ جائے تو ایک پل کی بھی تاخیر مت کریں اور خود کو فوری ویکسین لگوائیں وگرنہ آپ کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ جو لوگ گھروں میں کتے رکھتے ہیں‘ وہ انہیں اپنے حکم کی تعمیل کی عادت ڈالیں کیونکہ اکثر پالتو کتے بھی گلی اور پارکس میں لوگوں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ ان میں کسی چیز کا ڈر پیدا کریں‘ وہ سیٹی یاکوئی چھڑی ہو سکتی ہے۔ ان کے ساتھ اونچی آواز میں نہ بولیں تاکہ وہ آرام سے بیٹھ جائیں، مقصد ان کو کمانڈ میں رکھنا ہے دھمکانا یا مارنا نہیں۔ ان کا پسندیدہ ڈاگ بسکٹ اور پانی ہمیشہ ساتھ رکھیں تاکہ کسی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں کھانے کی مدد سے ان کی توجہ حملے پر سے ہٹائی جا سکے۔ جب اپنے کتوں کو واک کیلئے لے کر جائیں تو ان کو منہ پر ماسک پہنائیں تاکہ وہ کسی کو کاٹ نہ سکیں۔
اگر کتا آپ پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرے تو اس کی آنکھوں میں مت دیکھیں‘ نہ ہی بھاگنے کی کوشش کریں۔ یہ ظاہر کریں کہ آپ ڈر نہیں رہے اور اس کیلئے خطرہ بھی نہیں ہیں۔ کتا اگر آپ کو کاٹنا شروع کر دے تو اس کو ناک‘ گلے اور سر پر زور سے ماریں وہ آپ سے دور ہو جائے گا۔ یاد رکھیں! ہرکتے کے کاٹنے پر انسان کیلئے ویکسین لگوانا ضروری ہے‘ چاہے وہ بیمار ہو یا نہ ہو۔ اس وقت سندھ میں سگ گزیدگی کے واقعات تشویشناک حد تک بڑھ گئے ہیں، اس کیلئے حکومت کو ٹی این آر تھراپی اپنانی چاہیے اور ڈاگ شیلٹر ہومز قائم کرنے چاہئیں۔ علاوہ ازیں عوام کیلئے ہسپتالوں میں انجکشن اور ویکسین کثیر تعداد میں موجود ہونی چاہیے تاکہ کتوں کے کاٹنے کی صورت میں ان کو فوری طور پر مفت ویکیسن لگائی جا سکے۔ میں کتا مار مہم کے حق میں نہیں ہوں لیکن نس بندی اور ویکسین کے ذریعے ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں