کراچی سے میرا جنم کا رشتہ ہے، مجھے دیکھتے ہی لوگ پوچھتے ہیں کہ تم کراچی سے ہو؟ میں مسکرا کر کہتی ہوں: جی ہاں! میں شہرِ قائد میں پیدا ہوئی تھی اور مجھے اس پر فخر ہے؛ تاہم میرا بہت کم وقت وہاں گزرا ہے لیکن جب بھی وہاں جانا ہوتا ہے‘ شہر سے ایک محبت اور انسیت محسوس ہوتی ہے۔ ایک پیارا شہر‘ جس کی آب و ہوا میں اپنائیت ہے لیکن اس کے ساتھ بہت ناانصافی ہو رہی ہے، جتنی بھی آواز بلند کر لو‘ کوئی شنوائی نہیں ہوتی اور حکمران غفلت کی نیند سوتے رہتے ہیں۔ کئی عشروں سے شہر میں حکومتی بدانتظامی عروج پر ہے۔ میں اب اسلام آباد میں رہتی ہوں اور ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ مون سون سے پہلے ہی تمام برساتی نالوں وغیرہ کی صفائی ہو جاتی ہے۔ یہ صفائی اس لیے ضروری ہے کہ جب بارشیں ہوں تو پانی کے بہائو میں رکاوٹ نہ آئے اور پانی مسلسل بہتا رہے۔ اگر ایسا نہیں ہو گا تو یہ رہائشی علاقوں میں داخل ہو جائے گا۔ اسلام آباد کے ہر سیکٹر میں ایک قدرتی نالہ موجود ہے جس کو شہری انتظامیہ نے باڑ لگائی ہوئی ہے اور چھوٹے پل بنا کر شہریوں کیلئے محفوظ بنا رکھا ہے تاکہ نالہ پار کرنے میں آسانی رہے اور باڑ کی وجہ سے لوگ اس میں گرنے سے بھی محفوظ رہیں۔ کچھ جگہوں پر کنکریٹ کی دیواریں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔ بارشوں کے موسم سے پہلے ہی تمام انتظامات مکمل کر لیے جاتے ہیں، نالوں کی صفائی، گٹروں کی صفائی اور اس کے علاوہ شہریوں کو وارننگز بھی جاری کر دی جاتی ہیں۔ اسلام آباد میں بڑے بل بورڈز نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ یہ بھی بارش اور طوفان میں بہت بڑا خطرہ بن سکتے ہیں مگر کراچی میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ شہرِ قائد کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ میں نے گزشتہ برس بھی مون سون سے پہلے اس موضوع پر کالم لکھے تھے‘ کراچی جیسے صنعتی حب کو بارش کی تباہ کاریوں سے بچانے کیلئے چند تجاویز بھی دی تھیں لیکن کچھ نہیں ہوا۔ کبھی کراچی میں لوگ گرمی سے مر جاتے ہیں تو کبھی لوڈشیڈنگ میں ہیٹ وویو کا شکار ہو جاتے ہیں، کبھی بارش میں کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو جاتے ہیں تو کبھی سیلابی پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔ اس بار بھی کراچی کے حالات میں کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی۔
پیر کے رو ز کراچی میں موسلادھار بارش ہوئی اور جل تھل ہو گیا۔ پہلی بارش کے ساتھ ہی سوشل میڈیا شہریوں کے ٹویٹس اور سٹیٹس سے بھر گیا۔ کچھ لوگوں نے بتایا کہ بارش کے ساتھ ہی بجلی غائب ہو گئی تھی، کچھ جگہوں پر پانی کھڑا ہو گیا جس سے شہری گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے ٹویٹ کیا کہ جیسے ہی بارش کی پہلی بوند گری‘ کراچی سے بجلی غائب ہو گئی۔ ملیر، گلشن اقبال، نارتھ ناظم آباد، لیاقت آباد، لیاری، بفر زون، کلفٹن اور ڈیفنس کے علاقوں میں شہری بجلی کی طویل بندش کی شکایت کر رہے تھے۔ اسلام آباد میں شدید طوفان اور بارشیں معمول کا حصہ ہیں مگر یہاں تو بہت کم لائٹ جاتی ہے، جو سسٹم یہاں ہے‘ وہ کراچی میں کیوں نہیں موجود؟ ملیر ہالٹ میں ایک پندرہ سالہ لڑکا اور دو قربانی کے جانور کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہو گئے، بارش میں کھمبوں میں تو کرنٹ موجود تھا لیکن شہریوں کی بڑی تعداد بجلی سے محروم تھی۔ بہت سی شاہراہیں پانی میں ڈوب جانے کی وجہ سے ٹریفک کی روانی بھی شدید متاثر ہوئی۔ اس تمام صورتحال میں صوبائی حکومت یہی کہتی رہی کہ کراچی میں سب اچھا ہے۔ کراچی کے پوش ایریاز کا بھی وہی حال تھا جو دیگر علاقوں کا تھا، سڑکوں پر پانی جمع ہو گیا، لوگوں گھروں میں پھنس گئے، کچھ افراد کی گاڑیوں میں پانی بھر گیا، کچھ لوگوں کے گھروں میں پانی داخل ہو گیا۔ بارشوں سے بچائو کے انتظامات مون سون سے پہلے کیے جاتے ہیں؛ تاہم سندھ کی صوبائی حکومت سوشل میڈیا کی حد تک تو سب اچھا ہونے کا نعرہ لگاتی رہتی ہے لیکن شہری اور میڈیا ان کے دعووں کا سارا پول کھول دیتے ہیں۔ تیز بارشوں سے پہلے ندی‘ نالوں اور گٹروں کی صفائی بہت ضروری ہے، برقی آلات کی مرمت اور بڑے بل بورڈز کو ہٹانا بھی لازم ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ تمام ایمرجنسی سروسز متحرک رہیں اور شہریوں کو کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں فوری مدد فراہم کی جائے۔ صوبائی حکومت تو زبانی خرچ پر ہی یقین رکھتی ہے۔ اس ضمن میں ایمرجنسی ریلیف ہیلپ لائن قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کراچی اور گرد و نواح میں پھنسے لوگوں کی بارش اور سیلاب میں مدد کی جا سکے۔
ملک کے دیگر علاقوں میں بھی بارشیں شروع ہو چکی ہیں اور یہ مون سون کا پہلا سپیل ہے۔ چونکہ بارشوں سے ڈیم بھر جاتے ہیں تو ڈیموں سے بھی اضافی پانی کا اخراج کر دیا جاتا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ مزید چھوٹے ڈیمز بنائے جائیں اور پانی کی ایک ایک بوند کو محفوظ بنایا جائے۔ ڈیموں سے پانی چھوڑنے کے باعث قریبی اور نشیبی علاقے ڈوب جاتے ہیں اور کچھ علاقوں میں سیلاب آ جاتے ہیں‘ اس لیے برسات کے پانی کو ذخیرہ کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک طرف یہ پانی زراعت میں کام آئے گا اور دوسری طرف اس سے سیلابی کیفیت بھی نہیں پیدا نہیں ہو گی۔ گھروں میں بھی بارش کے پانی کو انڈر گرائونڈ ٹینکوں میں جمع کیا جا سکتا ہے اور اس پانی سے لان‘ پودوں کو پانی دینے اور گاڑیوں کو دھونے کا کام لیا سکتا ہے۔ اسی طرح انتظامیہ کو بھی بارش کا پانی کا محفوظ بنا کر استعمال کرنا چاہیے، یہی کام سوسائٹیز کو بھی کرنا چاہیے۔
بارشوں سے گرمی کے ستائے ہوئے عوام کو تھوڑا بہت سکون ملتا ہے تو بجلی غائب ہو جاتی ہے۔ نشیبی علاقوں میں گھروں میں پانی بھر جاتا ہے اور گاڑیاں پانی میں ڈوب جاتی ہیں۔ دو پل کی راحت حکومتی بدانتظامی کی وجہ سے زحمت میں بدل جاتی ہے۔ گزشتہ برس بھی کراچی میں شہریوں کے گھروں میں پانی آگیا تھا اور لوگوں کا لاکھوں بلکہ کروڑوں کا نقصان ہوا تھا۔ حکومت کی جانب سے امداد کے بلند بانگ اعلان ہوئے تھے لیکن کسی کو کچھ نہیں ملا۔ اس سال بھی وہی صورتحال بنتی نظر آ رہی ہے۔ کراچی میں پہلی بارش ہی زحمت بن گئی۔ گزشتہ برس بہت سے لوگوں کی اموات کرنٹ لگنے سے ہوئی تھیں، یہ سراسر کے الیکٹرک کی انتظامی غفلت ہے کہ گھروں میں تو اندھیرا تھا لیکن کھمبوں میں موجود کرنٹ سے معتدد لوگ جاں بحق ہو گئے۔ اگر ذرا سی توجہ دی جائے تو بہ آسانی اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے مگر کوئی اس جانب خیال ہی نہیں کرتا، شاید عام لوگوں کی زندگی ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی۔
محکمہ موسمیات کے مطابق بارشوں کا حالیہ سلسلہ جولائی کے دوسرے عشرے کے اختتام تک جاری رہے گا، سوال یہ ہے کہ کیا کراچی اس کا متحمل ہو سکتا ہے۔ کراچی کے علاوہ حیدر آباد، بدین، میرپور خاص اور ٹھٹھہ میں بھی بہت سے نشیبی علاقے زیر آب آ گئے تھے مگر شہرِ قائد کی قسمت دیکھیں کہ 400 سے زائد فیڈر ٹرپ کر گئے اور پاکستان کا میگا سٹی اندھیروں میں ڈوب گیا۔ ایک طرف بڑی عید کی وجہ سے مویشی منڈیاں لگی ہوئی ہیں تو دوسری طرف بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، یہ دہرے امتحان کا وقت ہے۔ کے پی میں بھی صورتحال سندھ جیسی ہے جہاں بارش کا پانی ایوب میڈیکل کمپلکس میں داخل ہوگیا جہاں سے مریضوں کو باہر نکالنا پڑا۔ ایبٹ آباد کو تو سیلاب کا سامنا ہے، وہاں کے لوگوں نے سڑکوں اور گھروں کی تصاویراور وڈیوز اَپ لوڈ کرتے ہوئے مدد کی اپیل کی ہے۔ پنجاب میں بھی سیالکوٹ میں بارش کے پانی نے سیلابی صورت اختیار کر لی۔ لاہور کے کئی نشیبی علاقوں میں بھی پانی اور بجلی کی فراہمی میں تعطل آیا؛ تاہم وہاں افسر شاہی داد و تحسین کی خاطر تیزی سے کام کرتی دکھائی دیتی ہے کیونکہ باقی پنجاب میں اتنی تیزی نہیں دیکھی جاتی جتنی تیزی لاہور میں دکھائی جاتی ہے۔ انتظامی اداروں کو چاہیے کہ بارش آنے سے پہلے تیاری کریں‘ اس بعد نہیں، اور کام سوشل میڈیا کے لیے نہیں‘ عوام کے لیے کریں۔ عید، کورونا، موسم گرما کی تعطیلات اور مون سون‘ سب ایک ساتھ موجود ہیں اور یہی محکموں اور حکومتوں کی کارکردگی جانچنے کا اصل وقت ہوتا ہے۔ صوبائی حکومتیں کمر کس کر میدان میں اتریں اور عوام کو بارشوں کی تباہ کاریوں سے بچائیں۔