میں نے کالج میں جغرافیہ اور اکنامکس کے مضامین پڑھے اور بعد میں صحافت کے شوق کی وجہ سے ماس کمیونیکیشن میں ڈگری لی۔ اگر میں رپورٹر نہیں بنتی تو آج جغرافیہ پڑھا رہی ہوتی‘ زمین کو کھوجتی اور آسمانوں میں بدلتے ہوئے حالات پر نظر رکھتی۔ ہوائوں، نقشوں، موسموں، فصلوں، معدنیات، پتھر، پہاڑ، مٹی اور زمین کی ساخت اور اس کی ارضیاتی تاریخ و تخلیق میں مجھے گہری دلچسپی تھی۔ میرے اساتذہ میرے شوق سے واقف تھے‘ میں دنیا اور پاکستان کا نقشہ بنا ٹریس کیے بنالیتی ہوں۔ مجھے سکول میں اس پر بہت شاباش ملتی۔ یہ ہنر مجھے اپنے والد اور نانا سے ملا۔ اب تو دورِ طالب علمی گزرے ایک مدت ہو گئی‘ زبانی خدوخال اس طرح سے یاد نہیں مگر اب بھی اٹلس سے دیکھ کر نقشہ بنالیتی ہوں۔ ایک دفعہ سائنس فائونڈیشن نے پورے ملک میں بچوں کے مقابلے کا اعلان کیا۔ میں نے بھی اس مقابلے میں حصہ لیا اور مجھے آل پاکستان تیسرا انعام ملا۔ تقریب سپورٹس کمپلیکس میں ہوئی تھی اور مجھے ڈاکٹر عطا الرحمن نے انعام دیا تھا۔ شیلڈ‘ چیک‘ سرٹیفکیٹ اور ایک بڑا پیکٹ‘ جو بہت بھاری تھا۔ جب گھر آکر میں نے وہ پیکٹ کھولا تو اس میں سائنس اور جغرافیہ کی جدید کتابیں تھیں‘ جو میرے پاس آج بھی موجود ہیں۔ انہی کتابوں میں سے ایک کتاب میں میں نے پہلی بار سونامی کے بارے میں پڑھا تھا۔ اس وقت مجھے بہت حیرت ہوئی‘ میں نے اس کے بارے میں مزید مطالعہ کیا کہ یہ کیا ہوتا ہے؟ اُس وقت میں نے کیا‘ کسی نے بھی نہیں سوچا ہو گا کہ ایک ایسا سونامی بھی ہم دیکھیں گے جو شدید تباہی لائے گا۔ 1950ء کی دہائی میں الاسکا میں شدید زلزلہ آیا تھا جس سے سونامی لہریں پیدا ہوئی تھیں لیکن اس کے بعد اس بڑے پیمانے پر بحر ہند میں 2004ء میں سونامی آیا تھا جس کے سبب سوا دو لاکھ سے زائد لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس زلزلے کی شدت 9.1 تھی۔ اس سونامی سے سری لنکا‘ تھائی لینڈ‘ بھارت اور انڈونیشیا میں خوفناک تباہی مچی تھی۔ یہ اتنا خوفناک زلزلہ اور سونامی تھا کہ سمندری لہروں کی رفتار 500 میل فی گھنٹہ تھی۔ اسی طرح 2011ء میں سونامی آیا جس نے جاپان کو ہلا کر رکھ دیا‘اس کے نتیجے میںساڑھے اٹھارہ ہزار لوگ ہلاک ہوئے۔ سمندر میں 9 شدت کا زلزلہ آیا جس سے سونامی نے جنم لیا اور اس کی لہریں 19 فٹ اونچی تھیں۔ اس سونامی نے جاپانی ساحل کا 400 کلومیٹر کا علاقہ تباہ کردیا تھا۔ اس زلزلے نے فوکوشیما کے ایٹمی ری ایکٹر کو بھی نقصان پہنچایا جس سے تابکاری کا اخراج ہوا۔ یہ علاقہ اب نوگوایریا کہلاتا ہے کیونکہ یہاں کا پانی اور مٹی قابل استعمال نہیں رہے‘ اس کی وجہ سے لاکھوں رہائشی بے گھر ہوگئے جن کو جاپان حکومت نے دوبارہ آباد کیا۔ یہ مسئلہ اب تک حل طلب ہے کہ اس زہریلے مواد کیسے تلف کیا جائے۔جاپان اور انڈونیشیا اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں بھی سونامی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ 2004ء کے سونامی سے انڈونیشیا‘ خاص طور پر آچے سماٹرا میں بہت تباہی ہوئی تھی۔ ایک کروڑسے زائد بے گھر اور ایک لاکھ سے زائد ہلاک ہوئے تھے؛ تاہم جاپان اور انڈونیشیا نے مل کر علاقوں میں بحالی کا کام کیا اور عوام کی مدد کی۔
سونامی ہے کیا ؟ سونامی سمندر کی اندر پید ہونے والے زلزلوں کے باعث وجود میں آنے والا سمندری طوفان ہے۔ زلزلے سے ایسی لہریں پیدا ہوتی ہیں جن کی رفتار اور اونچائی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ بعض اوقات یہ لہریں کئی کئی فٹ اونچی اور کئی کلومیٹر طویل ہوتی ہیں۔ Tsunami جاپانی زبان کا لفظ ہے؛ Tsu کا مطلب ہے ہاربر اور Namiکا مطلب ہے لہر۔ آتش فشاں کا پھٹنا، زیرِ آب زلزلہ ، لینڈ سلائیڈنگ، شہاب ثاقب کا گرنا اور پانی کی منتقلی سونامی کا باعث بن سکتی ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی لہریں اتنی اونچی ہوتی ہیں کہ گر آپ کسی عمارت کی تیسری یا پانچویں منزل پر ہوں‘ تب بھی یہ لہریں آپ تک پہنچ جائیں گے۔ بعض اوقات سونامی کے آنے سے قبل ساحلِ سمندر کا پانی کئی کلومیٹر پیچھے چلا جاتا ہے اور اس کے بعد یکدم طوفان کی صورت میں ساحل سے ٹکراتا ہے جس سے ساحل پر واقع علاقوں میں شدید تباہی مچتی ہے۔
5 نومبر کو دنیا بھر میں سونامی سے آگاہی کا دن منایا جاتا ہے‘ اس کو منانے کا فیصلہ 2015ء میں کیا گیا تھا تاکہ تمام ملکوں کو سونامی کے خطرات اور اس سے بچائو کے بارے میں آگاہی دی جائے۔ اگر ہم ماضی میں دیکھیں تو پرتگال میں 1755ء میں سونامی نے بہت تباہی مچائی تھی، پرتگال‘ مراکو اور سپین اس کی زد میں آئے تھے۔ 1883ء میں انڈونیشیا میں سونامی آیا تھا جس میں چالیس ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ شمالی چلی میں جو اٹھارہویں صدی میں سونامی آیا‘ اس سے 25ہزار اموات ہوئی تھیں۔ اس بار سونامی سے بچائو اور خطرات سے آگاہی کا جو عالمی دن منایا گیا‘ اس کا تھیم تھا ''Sendai Seven Campaign‘‘ کے ٹارگٹ حاصل کرنا۔ یہ کمپین 2016ء میں لانچ کی گئی اور 7 ٹارگٹس کے لیے سات سال کا ٹائم فریم دیا گیا۔ اس کمپین کا مقصد یہ آگاہی فراہم کرنا ہے کہ قدرتی آفات میں کم سے کم نقصان اور انسانی جانوں کا بچائو کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے اور اس صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2030ء میں ساحلی آبادیوں کیلئے سونامی‘ سیلاب اور طوفانوں کا خطرہ بہت بڑھ جائے گا، اس لئے سونامی کے رسک سے بچنے کے ئے اقدامات بہت ضروری ہیں۔ ہم قدرتی آفات کو روک نہیں سکتے لیکن اس سے ہونے والے نقصانات کو کم ضرور کرسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ ایک صدی میں آنے والے سونامی طوفانوں کے سبب کئی لاکھ افراد ہلاک اور کروڑوں بے گھر ہوئے۔ سب سے زیادہ اموات بحرِ ہند کے ساحلوں پر ہوئیں۔ پاکستان کا ساحلی علاقہ بحیرہ عرب سے ملتا ہے جو بحر ہند کا شمالی علاقہ ہے۔ ہم سے تو ساحلی علاقوں میں بارش نہیں سنبھالی جاتیں‘ عام موسمِ برسات میں ہمارے شہر دریا کا نظارہ پیش کرنے لگتے ہیں‘ خدانخواستہ اگر کسی سونامی جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو کیا ہم اس سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں؟ ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ بہت ضروری ہے۔ اس پر کام کریں اور فوری کام کریں۔
اگر آپ کبھی سونامی جیسی صورتحا ل میں پھنس جائیں تو فوری طور پر اونچی ترین جگہ پر جانے کی کوشش کریں یا ساحلی مقام سے کافی دور چلے جائیں۔ یاد رہے کہ سونامی کسی بھی ساحل پر کسی بھی وقت آسکتا ہے۔ اس لئے جتنی جلدی اس کی وارننگ دی جائے‘ اتنا نقصان کو کم کیا جاسکتا ہے۔ سونامی کی صورت میں خود کو زلزلے اور اس کے خطرات سے بھی بچائیں۔ وارننگ پیغامات پر عمل کریں۔ جلد سے جلد ساحلی علاقے کو چھوڑ دیں۔ سونامی کی لہریں فائٹر جیٹ کی طرح سفر کرتی ہیں اور بحر ہند‘ بحر اوقیانوس کے لوگ اس کے شدید خطرے کی زد میں ہیں۔ اگر آپ سونامی کے ایریا میں رہتے ہیں تو آپ کے پاس ایک پلان آف ایکشن ہر وقت ہونا چاہیے کہ اگر سونامی آجائے تو کیا کرنا ہے کیونکہ اس وقت سوچنے کو بہت کم وقت ہوتا ہے، سب سے پہلے اپنی اور اپنے پاس موجود لوگوں کی جان بچائیں اور کسی محفوظ جگہ پر شفٹ ہوجائیں۔ آپ کے پاس ایک ایمرجنسی کٹ ہر وقت ہونی چاہیے اور کم از کم دو دن کا ڈرائی راشن اور فلیش لائٹ۔ کچھ کیش بھی ہونا چاہیے کیونکہ ایسی صورتحال میں الیکٹرانک کرنسی یا کارڈ کام نہیں کرتے۔ سونامی کے ساتھ زلزلے‘ سیلاب‘ لینڈ سلائیڈنگ اور آتش فشاں کے پھٹنے کے واقعات بھی رونما ہو سکتے ہیں‘ اس لیے خود کوان چیزوں کیلئے بھی تیار رکھیں۔ سونامی کی صورت میں اس علاقے سے کم از کم 5 سے 6 کلومیٹر دور چلے جائیں اور سونامی کے بعد تب تک اس علاقے میں مت جائیں جب تک کہ انتظامیہ اس کو کلیئر نہ کردے۔سیلابی علاقے میں ہرگز مت پھریں‘ کرنٹ لگنے اور زہریلے آبی جانداروں کے کاٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اگر خدانخوستہ بحیرہ عرب میں سونامی آئے تو کراچی سے گوادر تک‘ سب اس کی زد میں آسکتے ہیں‘ کیا حکومت ان خطرات سے بچائو پر کام کررہی ہے ؟ سیلاب‘ زلزلے‘ بھنور‘ سونامی‘ برفانی تودے‘ لینڈسلائیڈنگ‘ خشک سالی‘ جنگلات میں آگ‘ آتش فشاں کا پھٹ جانا‘ آسمانی بجلی کا گرنا‘ طوفان‘ ژالہ باری‘ ریت کا طوفان اور زمینی کٹائو جیسی آفات آتی رہیں گی‘ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم ان خطرات کو کس طرح سے کم کرسکتے ہیں اور ان کا سامنا کرنے کے لیے کس حد تک تیار ہیں۔