ہجوم میں کوئی انسان نہیں!

وہ ایک تھا اور ہجوم میں تو کئی سو افراد۔ سب اس کو مارنا چاہتے تھے‘ ان کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ وہ سمجھ بھی نہیں پارہا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ مشتعل ہجوم نے کہا: اس کو مار دو‘ یہ گستاخ ہے۔ اُس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا‘ وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے‘ اتنے لوگ اس کو کیوں ماررہے ہیں۔ اس کے کپڑے تک نوچ دیے گئے‘ پھر اس پر پٹرول چھڑکا گیا اور اس کو آگ لگا دی گئی۔ وہ کھیتوں کی طرف بھاگا جہاں اس نے مدد مدد پکارتے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ ہجوم کچھ دیر یہ ''تماشا‘‘ دیکھتا رہا اور پھر منتشر ہو گیا۔ کسی کو بھی سزا نہ ہوئی۔ یہ سب 2012ء میں احمد پور شرقیہ‘ بہاولپور میں ہوا۔ پولیس کے مطابق‘ جس لڑکے کو جلایا گیا تھا‘ اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا مگر مشتعل ہجوم نے کسی کی نہیں سنی بلکہ پولیس کے مداخلت کرنے پر تھانے کو بھی آگ لگادی گئی اور وہاں پولیس کے ایک اہلکار کی بیٹی کا رکھا جہیز بھی جل کر خاکسترہوگیا، کچھ پولیس والے زخمی ہوئے جبکہ وہاں کھڑی گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی گئی۔ اگر کوئی قصوروار تھا تو اس کو عدالت سزا دیتی‘ ہجوم کو یہ اختیار کس نے دیا؟ ایک نہتے معذور شخص کو انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا جائے؟ اس واقعے کے تقریباً پانچ سال بعد‘ عیدالفطر سے ایک روز قبل‘ ایک آئل ٹینکر اس علاقے سے گزرتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گیا۔ ٹینکر الٹا تو پٹرول سڑک پر بہنے لگا، لوگ دیوانہ وار پٹرول لوٹنے کیلئے بھاگے، مرد و خواتین حتیٰ کہ بچے بھی برتنوں‘ بوتلوں میں پٹرول جمع کر رہے تھے۔ اب اس کو غربت کہیں‘ جہالت کہیں یا لالچ‘ سارا علاقہ بوتلوں میں پٹرول بھرنا شروع ہو گیا۔ یہ انتہائی خطرناک عمل تھا۔ جب ایسا حادثہ ہو اس جگہ سے دور ہٹ جانا چاہیے کیونکہ پٹرول بہت تیزی سے آگ پکڑتا ہے۔ جس جگہ پٹرول گر رہا ہو‘ وہاں پر ایک ''پٹرول کا بادل‘‘سا بن جاتا ہے جو ذرا سی آگ پر دھماکے سے پھٹ سکتا ہے لہٰذا ایسے موقع پر جتنی دور ہو‘ چلے جائیں۔ تاہم احمد پور شرقیہ میں ایسا نہیں ہوا، لوگ پٹرول جمع کر رہے تھے کہ یکدم کسی نے سگریٹ سلگایا یا شاید زمین پر پھینکا‘ ایک زوردار دھماکا ہوا جس کی آواز دور دور کے گائوں تک سنی گئی، جہاں ٹینکر الٹا تھا‘ وہاں آگ بھڑک اٹھی جس نے لوگوں‘ گاڑیوں‘ موٹرسائیکلوں اور کھیتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایک قیامت صغریٰ تھی جو برپا ہوئی۔ 200 سے زائد لوگ جل کر خاکستر ہوگئے۔ پورا پاکستان ہل کر رہ گیا! کاش کہ لوگ اس وقت بھی بولتے جب 2012ء میں ہجوم نے ایک ذہنی معذور کو انہی کھیتوں میں زندہ جلا دیا تھا۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ یہ مکافاتِ عمل ہے لیکن کیا اس سوال کا جواب کسی کے پاس ہے کہ جس جگہ پر ایک معذور شخص کو زندہ جلایا گیا تھا‘ اسی جگہ پر ٹینکر کے حادثے میں اتنے لوگ کیوں جل گئے؟ یہ سب ہمارے جگانے کیلئے ہوتا ہے کہ عبرت حاصل کرو‘ کسی پر ناحق ظلم مت کرو‘ اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے۔ بیشک ٹینکر حادثے میں مرنے والے گناہگار نہیں ہوں گے لیکن قدرت کا اپنا طریقہ ہوتا ہے جس سے وہ لوگوں کے لیے مثال قائم کرتی ہے تاکہ انسان اپنا محاسبہ کرے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم سب بہت پارسا ہیں‘ ہم نے کبھی کوئی غلطی نہیں کی یا ہم فرشتے ہیں‘ نہیں! ایسا بالکل نہیں ہے! یقینا ہم سب خطا کار ہیں۔ انسان تو ہے ہی خطا کا پتلا۔ کسی نے زیادہ گناہ کیے ہیں‘ کسی نے کم‘ تو پھر ہم کیسے کسی کی طرف انگلی اٹھا سکتے ہیں۔ ہم سب کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کیونکہ ہم سب نے اپنا جواب خود دینا ہے۔ ہمیں پہلے اپنے اعمال پر توجہ دینا ہوگی‘ پہلے خود کو گناہوں سے بچانا ہوگا۔
ہم سب نے دیکھا کہ مشال خان کے ساتھ کیا ہوا۔ اپریل 2017ء میں عبد الولی خان یونیورسٹی میں مشتعل ہجوم نے اس پر توہین کا الزام لگا کر اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا جبکہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ جس سے اس الزام میں کچھ صداقت معلوم ہوتی۔ اس پر حملہ کرنے والے یونیورسٹی کے طالب علم اور سٹاف کے ممبر تھے۔ 2018ء میں 31 ملزمان کو سزائیں ہوئیں جن میں سے ایک کو سزائے موت اور 25 افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ دیگر 26 زیرحراست افراد کو بے گناہ پا کر رہا کردیا گیا تھا۔ مشال نے کچھ نہیں کیا تھا لیکن ایک جھوٹے الزام کی وجہ سے مشتعل لوگوں نے اس بے قصور کی جان لے لی۔ تعزیر و سزا کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ عوام کے دل میں یہ احساس جاگزیں کیا جائے کہ وہ ریاست کے تابع ہیں اور ہر شخص آئین کا پابندہے۔ کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے یا دوسروں پر الزام لگا کر انہیں سزا سنائے۔ کسی بھی خطاوار کو سزا دینے کا حق صرف عدالتوں کے پاس ہے۔ اگر کسی کو جرم کا ارتکاب کرتے دیکھیں تو اس کی رپورٹ کریں نہ کہ خود سزا سنانا شروع کردیں۔ جو قانون ہاتھ میں لے گا‘ وہ سزا کا حقدار ہوگا۔
جو کچھ سیالکوٹ میں ہوا وہ اتنا دالخرش ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ ایک غیر مسلم‘ غیر ملکی شخص پر الزام لگا کر اس کی جان لے لینا ہمیں پوری دنیا کے سامنے شرمندہ کرگیا۔ پریانتھا ایک پڑھے لکھے شخص تھے‘ ان کا تعلق سری لنکا سے تھا اور وہ سیالکوٹ کی فیکٹری میں ایکسپورٹ منیجر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ یکدم ایک ہجوم ان کی جان لینے پر تل گیا کہ انہوں نے توہین کی ہے۔ اگر ایسا ہوا بھی تھا تو اس شخص کو پولیس کے حوالے کرتے اور عدالت میں یہ ثابت کرتے تاکہ اسے سزا ہو سکتی۔ کسی ہجوم کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی بھی شخص کی جان لے یا وہ اپنی عدالت قائم کرے۔ عینی شاہدین کے مطابق پریانتھا نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا، وہ ایک اچھا ملازم اور محنتی شخص تھا۔ فیکٹری میں رنگ روغن کی وجہ سے ایک پوسٹر کو اتارنے کے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا حالانکہ پریانتھا نے ایسا ہونے پر معافی بھی مانگی تھی مگر مشتعل ہجوم اس وقت کسی کے قابو میں نہیں آ رہا تھا۔ گزشتہ دنوں سامنے آنے والی ایک وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فیکٹری منیجر پریانتھاکو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہجوم سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اس شخص کو نہ صرف نوکری سے نکال دیں گے بلکہ اس کے خلاف تھانے میں ایف آئی آر بھی درج کرائیں گے مگر کوئی بھی ان کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ اس سانحے کی وڈیو دیکھیں تو علم ہو گاکہ زیادہ تر لوگ کم عمر تھے، اکثر اٹھارہ‘ بیس سال کے بچے تھے۔ ہمیں قومی سطح پر یہ سوچنا ہوگا کہ اتنی انتہاپسندی ہمارے معاشرے میں کہاں سے آ گئی‘ اس کو کیسے ختم کرنا ہے‘ ہمیں ایک گرینڈ ڈائیلاگ اور ایک گرینڈ آپریشن کی ضرورت ہے۔ انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔ ایسے مقررین پر پابندی ہونی چاہیے جو فرقہ واریت پھیلاتے ہیں، ایسی تنظیموں کو بین کردینا چاہیے جو قانون کو ہاتھ میں لینے کی ترغیب دیں۔ ریاست سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے۔ کسی گروہ اور جتھے سے نہ ڈریں‘ کوئی بھی شخص آئین پاکستان سے بڑھ کر نہیں۔ ان تمام طبقات کو لگام ڈالیں جو ملک میں نفرت‘ انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے بیج بو رہے ہیں۔
جو کچھ گزشتہ جمعہ کو سیالکوٹ میں ہوا وہ ایک شرمناک باب ہے، اس سے پاکستان کے عالمی امیج پر کافی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستانی معیشت پر نیا دبائو آئے اور مزید پابندیاں لگیں گی۔اب کون سیالکوٹ میں آنا پسند کرے گا؟ کیا ایسے ملک میں سیاح آنا پسند کریں گے جہاں لوگوں کو مار کر جلا دیا جاتا ہو؟ میری حکومت سے گزارش ہے کہ اس ہجوم کے خلاف سخت ترین کارروائی کریں اور اسے ایسی سزا دی جائے کہ سب کیلئے نشانِ عبرت بن جائے۔ اس وقت سب افسردہ ہیں۔ کسی بھی شخص کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہونا چاہیے کہ سب ہمیں جاہل‘ گنوار‘ اَن پڑھ اور آدم خور سمجھنے لگ جائیں۔وزیر اعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، مولانا طاہر اشرفی، مولانا طارق جمیل اور سراج الحق صاحب سمیت مذہبی و سیاسی قیادت نے بروقت اس واقعے کی مذمت کی اور کہا کہ اس رویے کی پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں ہے کہ لوگ قانون اپنے ہاتھوں میں لیں۔ اس بیان سے عوام کا حوصلہ بڑھا ہے اور یقینا ان عوامل کی حوصلہ شکنی ہو گی جو قانون اپنے ہاتھ لے کر پاکستان کو جنگل بنانا چاہتے ہیں۔ یہاں جنگل کا قانون نہیں چلے گا‘ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور یہاں ہر شخص آئین و قانون اور دینِ اسلام کی تعلیمات کے تابع ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں