سانحات کیوں جنم لیتے ہیں؟

پاکستان میں حالیہ کچھ عرصے میں ایسے ایسے سانحات پیش آئے ہیں کہ دل دہل جائے۔ انسان سفاکی کی حد سے بھی گر جاتا ہے اور ایسے ظلم ڈھاتا ہے جیسے اگلے جہان میں اسے کوئی حساب نہیں دینا۔ وہ بھول جاتا ہے کہ اس کا رب سب دیکھ رہا ہے اور اس دنیا میں بھی مکافاتِ عمل ہوتا ہے۔ سانحات اکثر انسان کی غلطیوں‘ غفلت اور کوتاہیوں سے رونما ہوتے ہیں جن کے نتائج سب کو بھگتا پڑتے ہیں۔ کچھ سانحات دہشت گردی اورکچھ حادثات سے جنم لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ قدرتی آفات کا شاخسانہ ہوتے ہیں جن پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ زلزلے‘ سونامی‘ سیلاب‘ آسمانی بجلی کا گر جانا‘ طوفان‘ آتش فشاں کا پھٹ جانا‘ ٹارنیڈو‘ ریت کا طوفان‘ برف کا طوفان‘ قحط‘ خشک سالی اور جنگلات میں آگ لگ جانا وغیرہ قدرتی آفات ہیں اور یہ کسی بھی وقت رونما ہوسکتے ہیں اور بہت تباہی مچاتے ہیں؛ البتہ اس دوران یہ چیز بہت اہمیت رکھتی ہے کہ ریسکیو اور ریلیف کا عمل کتنی جلدی شروع ہوا۔ حالیہ کچھ سالوں میں ہم نے بدترین موسمی آفات دیکھیں‘ جن میں آگ کی وجہ آسڑیلیا، ایمازون اور امریکا کے جنگلات میں بدترین تباہی ہوئی، لاکھوں درخت اور کروڑوں جانور جل کر خاکستر ہوگئے۔ اسی طرح سیلاب نے بری طرح دنیا کے مختلف علاقوں کو اپنی زد میں لیے رکھا۔ ٹڈی دَل نے افریقہ، پاکستان اور بھارت سمیت لاکھوں ایکڑپر محیط فصلوں کو چٹ کر لیا ۔ اسی طرح بھارت اور پاکستان میں ''کلائوڈ برسٹ یعنی بادل پھٹنے کے واقعات پیش آئے جن میں شہری سیلابی ریلے میں بہہ گئے اور کافی مالی نقصان بھی ہوا۔
جیسے جیسے دنیا نے ترقی کی منازل طے کی ہیں‘ قدرتی آفات کی پیش گوئی کا نظام بھی مضبوط اور فعال ہوا ہے۔ اب پہلے ہی بتایا جا سکتا ہے کہ کہاں بارش ہو گی‘ کہاں سیلاب کا خطرہ ہے‘ کہاں طوفان آنے کا خدشہ ہے‘ کہاں خشک سالی ہو سکتی ہے؛ البتہ زلزلوں کی پیش گوئی کا نظام اتنا بہتر نہیں ہے البتہ دیگر آفات سے کافی حد تک بچائو ممکن ہے۔ دنیا بھر میں محکمۂ موسمیات اس حوالے سے عوام کو آگاہ کرتے ہیں تاکہ وہ کسی قسم کے نقصان کا شکار نہ ہوں۔ گزشتہ اتوار کو جب میں نے ''اے سی سی یو‘‘ موسمیات کی ویب سائٹ دیکھی تو حیرانی ہوئی کہ اسلام آباد میں چھ دن تک مسلسل بارش کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ جب میں نے مری‘ بھوربن کا موسم دیکھا تو معلوم ہوا کہ پیر سے اتوار تک وہاں بارش اور برف باری ہو گی۔ یہ دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ خشک سردی سے برا حال ہو چکا تھا، بارش سے موسمی بیماریوں‘ فضائی آلودگی اور سموگ وغیرہ کا حاتمہ ہو جاتا ہے۔ بطورِ سیاح جب میں نے یہ دیکھا کہ پورے ہفتے برفباری ہو گی تو سوچا کیوں نا مری جاکر رہا جائے ‘لیکن جب یہ خبر پڑھی کہ مری میں پچاس ہزار سے زائد گاڑیاں داخل ہو گئی ہیں تو میں نے وہاں جانے کا ارادہ فوری ترک کر دیا۔ اب سات دن مسلسل برفباری تھی‘ بیشتر سیاحوں کو کیا یہ بات معلوم نہیں تھی کہ وہاں اتنے دن برف گرے گی؟ اگر موسم اَپ ڈیٹ لی جاتیں تو علم ہو جاتا کہ برف اور بارش کے ساتھ برف کے طوفان جبکہ درجہ حرارت جمعرات کو منفی چار اور ہفتے کو منفی چھ تک رہنے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ چینلز پر برف باری کی خبریں چلیں تو سیاحوں نے مری کا رخ کر لیا مگر انہیں یہ نہیں پتا تھا کہ اس موسم میں احتیاط کیا کرنی ہے۔ میں نے تو انٹرنیشنل موسمیات کی ویب سائٹ پر دیکھا تھا؛ تاہم سوشل میڈیا پر راولپنڈی پولیس کی جانب سے جاری کردہ وارننگ ضرور نظروں سے گزری جس میں سیاحوں کو صورتحال سے آگاہ کیا گیا تھا‘ اس کے ساتھ احتیاطی تدابیر بھی بتائی گئی تھیں؛ تاہم شاید ہی کسی نے ان پر کان دھرے اور عمل کیا ہو۔ انتظامیہ نے بھی غفلت کا مظاہرہ کیا اور سات دن تک مسلسل برف باری کے دوران وہ انتظامات نہیں کیے جو اسے کرنا چاہئیں تھے۔ اگر آپ جائے وقوعہ پر پھنسی گاڑیاں دیکھیں تو علم ہو گا کہ بیشتر کے پاس کھانے پینے کا سامان نہیں تھا‘ ان کے پاس زیادہ گرم کپڑے بھی نہیں تھے جبکہ ان کی گاڑیاں بھی 'ٹو ویلر‘‘ تھیں۔ شاید اس وجہ سے کہ زیادہ تر لوگوں کا پلان تھا کہ صبح جائیں گے اور سارا دن پھرنے کے بعد شام کو واپسی کی راہ لیں گے۔ ایسے افراد کے پاس مہنگے ہوٹلز میں رہنے کا بجٹ نہیں ہوتا‘وہ کچھ دیر انجوائے کر کے واپس آ جاتے ہیں۔ اسی لیے سیاح اِس آفت سے نمٹنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ جب برف پڑنا شروع ہوئی تو سیاحوں نے گاڑیوں کے دروازے اور شیشے بند کرلیے تاکہ سردی سے بچ سکیں۔ اگر ہم کلڈانہ کا جائزہ لیں تو وہاں بہت سے اہم مقامات ہیں۔ یہاں پر اے پی ایس کلڈانہ ہے‘اے ایس ایل آفیسرز میس‘ واپڈا ریسٹ ہائوس سمیت کئی اہم عمارتیں یہاں موجود ہیں، اس کے علاوہ نجی ریسٹ ہائوسز اور کچھ دور پولیس سٹیشن بھی ہے؛ تاہم جہاں حالیہ سانحہ رونما ہوا‘ وہ جگہ ایک جنگل کا حصہ ہے‘ بہت سے لوگ وہاں برف میں پھنس گئے تھے۔ مقامی لوگ اس کو ٹھنڈا جنگل کہتے ہیں۔ اس جگہ پر سیاحوں نے گاڑیوں میں ہیٹر چلائے اور شیشے بند کرلیے اور گھنٹوں انتظار کرتے کرتے سو گے اور اسی دوران دم گھٹنے سے ان کی اموات ہو گئیں۔ سینئر صحافی وسیم عباسی کا تعلق اسی خطے سے ہے‘ انہوں نے بتایا کہ ٹھنڈا جنگل کے پاس‘ جہاں زیادہ اموات ہوئیں وہاں آس پاس کوئی عمارت نہیں بلکہ صرف جنگل ہے۔
جس وقت برف کا طوفان آیا‘ شہری محصور ہوگئے اور برف کی تہہ گاڑیوں پر جم گئی۔ اگر آپریشن کا آغاز فوری طور پر کر دیا جاتا تو شاید اتنا نقصان نہ ہوتا؛ تاہم یہ بات طے ہے کہ لوگ سردی کی وجہ سے نہیں بلکہ دم گھٹنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ اس کی ذمہ داری یقینا حکومت اور انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے کہ ان کو موسم کی صورتحال کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ یہ بات درست ہے کہ مری میں ریکارڈ برف باری ہوئی‘ میں نے خود کبھی مری میں پہلے اتنی برف نہیں دیکھی، لیکن سوال یہ ہے کہ قریب کی عمارتوں میں موجود لوگوں کو کیوں نہیں پتا چلا کہ سڑک پر کیا ہو رہا ہے۔ پولیس کا تھانہ بہت قریب تھا‘ وہاں سے مدد کیوں نہیں پہنچی۔ انتظامیہ کو حالات کا جائزہ کیمروں اور ڈرون سے لیتے رہنا چاہیے تھا۔ جب بتایا جا رہا تھا کہ سات دن مسلسل برف برفباری ہو گی تو اس حوالے سے مناسب انتظامات کیوں نہیں کیے گئے۔ ٹول پلازہ سے گاڑیوں کی آمدورفت کیوں نہیں روکی گئی۔مری میں برف ہٹانے والی مشینری موجود ہوتی ہے؛ تاہم جب سیاح برف میں پھنسے سردی سے کانپ رہے تھے‘ اس وقت پولیس انتظامیہ اور عملہ موجود نہیں تھے۔ مجھے افسوس ہے کہ کسی نے ابھی تک اس سانحے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، ابھی تک کسی نے استعفیٰ نہیں دیا، نہ کسی کو برطرف کیا گیا ہے، الٹا سیاحوں کو قصوار وار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ایسے سانحات تب جنم لیتے ہیں جب کام کرنے والے اپنے کام کرنے میں غفلت برتتے ہیں۔ مری اتنا بڑا سیاحتی مقام ہے‘ وہاں برف ہٹانے کا انتظام نہیں۔ کیا یہ بھی فوج کے کرنے کا کام ہے؟ ہوٹل مافیا کے حوالے سے جو خبریں سامنے آئی ہیں اس نے پوری قوم کا سر جھکا دیا ہے۔ سیاحوں کو لوٹا جا رہا تھا مگر انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی‘ جبکہ جو ہوٹل مافیا لوگوں کو اتنا لوٹ رہا تھا‘ اس کے پاس بھی ایسی کوئی مشینری نہیں جو ضرورت کے وقت کام آ سکے۔ کسی بھی حادثے کی صورت میں ریسکیو اور ریلیف کے کام میں ایک ایک پل بہت قیمتی ہوتا ہے مگر افسوس کہ ہمارے ملک میں بروقت مدد کا کوئی رواج ہی نہیں۔ جب سب کچھ ہوجاتا ہے‘ انتظامیہ اس کے بعد حرکت میں آتی ہے۔ کچھ دن بعد سب بھول جاتے ہیں پھر نیا حادثہ ہوتا ہے تو سب کو یاد آجاتا ہے کہ ہمارا ریسکیو کا نظام ٹھیک نہیں۔ خدارا! اس کو فعال کریں اور جدید طرز پر استوار کریں جیسے 911 ہے۔
اس کے ساتھ سیاحوں کو بھی ایسے علاقوں میں سفر کرتے وقت کچھ چیزیں مدنظر رکھنا چاہئیں‘ ان کی گاڑی کی ٹیونگ ہوئی ہو‘ پٹرول کا ٹینک فل ہو، کیش‘ گرم کپڑے اور خشک راشن موجود ہو۔ اس کے علاوہ رش کرنے اور بارش کے دوران ڈرائیونگ سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ کھمبوں اور درختوں سے دور ہنا چاہیے۔ اگر طوفان وغیرہ میں پھنس جائیں تو گاڑی کی کھڑکی کو تھوڑا سا کھول کر رکھیں تاکہ گاڑی میں تازہ ہوا آتی رہے اور حبس نہ ہو۔ اس کے ساتھ گاڑی کے پہیوں پر سنو چین لگائی جائے اور چھوٹا ٹول باکس ہمیشہ ساتھ رکھیں تاکہ برف وغیرہ ہٹائی جاسکے۔ اس سانحے نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے‘ ہم اس سے ہر ممکن سبق سیکھنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں