پاکستانی آب گاہیں

بہت سے لوگ شاید نہیں جانتے ہوں گے کہ '' ویٹ لینڈز‘‘ کیا ہوتے ہیں اور ان کی کیا افادیت ہے۔ 2 فروری کو ویٹ لینڈز یعنی آب گاہوں کا دن منایا جاتا ہے اس کا مقصد عوام میں اس حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے کہ آب گاہوں کی کیا اہمیت و افادیت ہے۔ 2007ء میں پہلا ویٹ لینڈز ڈے منایا گیا تھا اور اس کے بعد سے پوری دنیا میں یہ دن منایا جاتا ہے تاکہ آب گاہوں کو سکڑنے سے بچایا جا سکے۔ ویٹ لینڈزتازہ پانی کے ذخائر ہوتے ہیں‘ جن کے اردگرد زرخیز مٹی‘ پودے‘ ہریالی‘ درخت‘ جانور اور پرندے وغیرہ ہوتے ہیں۔ ویٹ لینڈز میں جھیلیں‘ ساحلی علاقے‘ دلدل‘ ندی نالے‘ دریا اور ڈیلٹا وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں ایک پورا ایکو سسٹم موجود ہوتا ہے۔ آب گاہوں کی دو بڑی اقسام ہیں؛ ساحلی آب گاہیں اور اِن لینڈ آب گاہیں۔ آب گاہوں کی زمین بہت زرخیز ہوتی ہے اور یہ زراعت میں بہت معاون ہوتی ہے۔ یہ جگہیں جانوروں اور ہجرتی پرندوں کی آماجگاہ بھی ہوتی ہیں۔ ان ذخیروں میں آبی مخلوق بھی پرورش پاتی ہے جبکہ دیگر چرند‘ پرند بھی اپنی خوراک یہاں سے حاصل کرتے ہیں۔ ان ذخیروں میں پانی بہتا ہوا بھی ہو سکتا ہے اور ٹھہرا ہوا بھی جبکہ یہ زیرِ زمین بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں بھی ہرسال ویٹ لینڈ ڈے منایا جاتا ہے اور' ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر(ڈبلیو ڈبلیو ایف)پاکستان‘ اس حوالے سے خصوصی تقریبات کا اہتمام کرتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت 225 کے قریب آب گاہیں موجود ہیں۔یقینا پانی کی بہت اہمیت ہے اور زندگی کا دارومدار اس پر ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتے ہیں: وہی تو ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا جسے تم پیتے ہو اور اس سے درخت بھی (شاداب ہوتے ہیں) جن میں تم اپنے چارپایوں کو چراتے ہو۔ اسی پانی سے وہ تمہارے لیے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور (اور بے شمار درخت)اُگاتا ہے۔ اور ہر طرح کے پھل (پیدا کرتا ہے)غور کرنے والوں کے لیے اس میں (قدرتِ خدا کی بڑی) نشانی ہے۔ (سورۃ النحل: 10تا 11) ایک دوسرے مقام پر فرمایا ''کیا تم نہیں دیکھا کہ اللہ آسمان سے پانی نازل کرتا‘ پھر اس کو زمین میں چشمے بنا کر جاری کرتا پھر اس سے کھیتی اگاتا ہے جس کے طرح طرح کے رنگ ہوتے ہیں‘‘ (سورۃ الزمر: 21)۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ ( سورۃ الانبیا: 30 )
پانی نہ صرف زندگی کا مآخذ بلکہ اس کی بقا کا ضامن بھی ہے لہٰذا آبیات اور آبگاہوں کی بہت اہمیت ہے۔ پانی ایک بے رنگ اور بے بو مائع ہے اور دنیا کی تمام تر مخلوقات کی زندگی کا انحصار اس پر ہے ‘ یہ حقیقی معنوں میں زندگی کا محور ہے‘ اس لیے پانی کے ذخیروں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں ویٹ لینڈ 78ہزار ایکڑ پر پھیلے ہوئے ہیں جو کل رقبے کا 9.7 فیصد ہیں؛ تاہم تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔ اگر ہم پاکستانی ویٹ لینڈز پر پلنے والی مخلوقات کی بات کریں تو ان میں ڈولفن سب سے اہم ہے، اس کے ساتھ ممالیہ جانوروں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ پرندوں کی نایاب اقسام اور آبی مخلوق کے علاوہ نباتات کی بڑی اقسام بھی ان میں موجود ہیں۔ معدومیت کے خطرے سے دوچار اٹھارہ نسل کے جانور پاکستانی آب گاہوں میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں مچھلیوں کی لگ بھگ 190 اقسام ہیں۔ پاکستان میں دنیا کے اونچے ویٹ لینڈز بھی موجود ہیں جن میں کرمبر جھیل اور شائوسر جھیل شامل ہیں۔ دیگر قابلِ ذکر آب گاہوں میں استولا آئی لینڈ‘ میانی ہور‘ جیوانی کوسٹل لائن‘ اومارہ ساحل‘ حب ڈیم‘ دریگ لیک‘ ہالے جی لیک‘ انڈس ڈیلٹا‘ کینچھر جھیل‘ رن آف کچھ‘ چشمہ بیراج‘ تونسہ بیراج‘ ہیڈ ورکس مرالہ‘ راول لیک‘ ہیڈ ورکس رسول‘ جبھو لگون‘ نلتر اور لولوسر لگون، ٹنڈا ڈیم اور کلر کہار وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ اگر ہم ان میں موجود خشکی کے جانوروں کی بات کریں تو ان میں لومڑی‘ گیدڑ‘ بھیڑ‘ گرے وولف‘ ایبکس‘ برائون ریچھ‘ سیہہ‘ مشک بلی‘ پینگولین‘ جنگی بلی‘ مارخور‘ ریڈ فاکس‘ برفانی تیندوا‘ چمگادڑ اور گلہری سمیت 89 ممالیہ جانوروں کی اقسام یہاں موجود ہیں۔ اگر ہم نباتات کی بات کریں تو یہاں 260 سے زائد اقسام کے درخت موجود ہیں جن میں سیب، دیودار، اخروٹ، انار، آڑو، بادام، خوبانی، پائن، چیری، چلغوزہ، لیمن گراس، بیری، پاپولر، ، مینگرووز، گلاب، سورج مکھی، پھلائی، زیتون اور ناریل وغیرہ شامل ہیں۔
اگر ہم حشرات الارض کی بات کریں تو ان میں سانپ، مینڈک، کوبرا اور چھپکلی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پرندوں میں مینا، الو، عقاب، کوئل، مرغابی، کوکو، چڑیا، ہد ہد، بگلا، تلور اور کوے سمیت 269 مختلف اقسام ان آب گاہوں میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہجرتی پرندوں کی کثیر تعداد بھی پاکستان کی آب گاہوں میں اترتی ہے۔ ویٹ لینڈز میں آبی مخلوق کا جائزہ لیں تو ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ٹرائوٹ، مگرمچھ، کیٹ فش، ڈولفن، مینڈک، کیکڑے اور کچھوے سمیت مچھلیوں کی سینکڑوں مختلف اقسام ان آب گاہوں میں رہتی ہے۔ ہجرتی پرندے سردی کی شدت سے بچنے کے لیے یہاں آتے ہیں اور کچھ ماہ یہاں گزار کر اپنے خطے میں واپس لوٹ جاتے ہیں مگر اس دوران ان کا بے دردی سے شکار کیا جاتا ہے۔ ان کے شکار پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ دوسری جانب ہم سب کا یہ بھی فرض ہے کہ آب گاہوں کی حفاظت کے لیے کام کریں اور ان کو آلودگی اور نقصان سے بچائیں۔ یہاں پر درخت کاٹنے اور تعمیرات کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ علاوہ ازیں صنعتی اور کمرشل سرگرمیوں کو بھی ان قدرتی جگہوں کا ماحول خراب کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ یہاں پر کچرا اور زرعی و صنعتی فضلہ پھینکنے پر بھاری جرمانہ عائد کیا جانا چاہیے۔ ہمیں ان قدرتی ذخائر کی حفاظت کرنا ہو گی۔ یہ ہمارے پاس آئندہ نسلوں کی امانت ہیں اس لیے ہمیں ان کا خیال کرنا ہو گا۔
وقت کا تقاضا ہے کہ نیشنل ویٹ لینڈز پالیسی کو ملک بھر میں لاگو کیا جائے۔ ان کو سیوریج کے آلودہ پانی سے بچایاجائے۔ یہاں پر کھانا بنانے یا باربی کیو کی اجازت بھی نہیں ہونی چاہیے۔ آب گاہوں کو نقصان پہنچانے والوں کو بھاری جرمانہ اور سزا ہونی چاہیے۔ پاکستان میں اس وقت وزارتِ ماحولیات اور ڈبلیو ڈبلیو ایف ان آب گاہوں کی حفاظت کیلئے کام کررہے ہیں؛ تاہم عوام الناس میں بھی اس حوالے سے آگاہی پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ کے ٹو کی بلند چوٹی سے لے کر جیوانی کے ساحل تک‘ پاکستان میں ہر جگہ قدرتی آب گاہیں موجود ہیں۔ ہمیں اس قیمتی اثاثے اور قدرت کے انمول تحفے کو ماحولیاتی آلودگی اور انسانی سرگرمیوں سے ہونے والے نقصانات سے بچانا ہو گا۔ یہاں پر موجود وائلڈلائف سینچریوں کو جدید سہولتوں کے ساتھ مزین کرنا ہو گا۔پاکستان میں پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں‘ ہمیں فوری اس طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ گزشتہ دنوں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق لاہور شہر میں زیر زمین صاف پانی 800 فٹ نیچے جا چکا ہے اور اب صرف 500 فٹ پانی کا ذخیرہ بچا ہے۔ اگر اب بھی اس حوالے سے اقدامات نہ کیے توآئندہ چند سالوں میں لاہور پانی سے محروم ہو جائے گا جبکہ کراچی پہلے ہی پانی کے مسئلے سے دوچار ہے۔ تمام بڑے شہروں میں ایک جیسی صورتحال پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے ہمیں چھوٹے آبی ذخیرے، ڈیمز اور جھیلیں بھی بنانی چاہئیں جبکہ بارش کے پانی کو بھی محفوظ کرنا چاہیے۔
آب گاہوں سے ہٹ کر‘ عوام الناس میں یہ شعور بھی اجاگر کیا جانا چاہئے کہ وہ ماحول سے پیار کریں‘ درختوں کو نقصان نہ پہنچائیں اور جانوروں اور پرندوں کا شکار نہ کریں۔ بطور سیاح اگر ہم قدرتی جگہوں پر جائیں تو ہمیں وہاں گندگی نہیں پھیلانی چاہیے‘ شکار کرنے سے گریز کرنا چاہیے، آگ بھی نہیں لگانی چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہ فوٹوگرافی کریں اور لوٹ جائیں۔ اگر ہو سکے تو وی لاگز بنا کر یہاں کی خوبصورتی دنیا کے سامنے لانی چاہیے۔ یہ دنیا جانوروں‘ پرندوں اور بناتات کیلئے بھی ہے‘ اس پر صرف انسانوں کا حق نہیں‘ اس لیے اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت دیں اور آب گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ہماری اور ایکو سسٹم کی بقا کے لیے بہت ضروری ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں