یہ مقدمہ ریاست لڑے

قندیل بلوچ شاید اس معاشرے کی اکیلی گنہگار تھی۔ وہ وڈیوز بناتی‘ باتیں کرتی۔ کبھی وہ عجیب و غریب باتوں والی وڈیوز اَپ لوڈ کرتی تو کبھی فیس بک لائیو میں اپنے ناقدین کو آڑے ہاتھوں لیتی۔ لاکھوں لوگ اسے دیکھتے تھے‘ لیکن بری صرف وہی تھی۔ وڈیو بنانے والی گنہگار تھی لیکن وڈیو دیکھنے والے برے نہیں تھے۔ اس کو عریانی نہیں‘ اپنی بے باک باتوں کی وجہ سے گالیاں پڑتی تھیں۔ وہ ہر روز فیس بک پر معاشرے کو آئینہ دکھاتی۔ مفتی عبدالقوی کے ساتھ اس کی وڈیو خاصی وائرل ہوئی تھی۔ اس کی ہنسی میں بہت سے غم چھپے ہوتے تھے‘ اس سب کھیل تماشے کے پیچھے غربت اور اس کی محرومیاں پوشیدہ تھیں۔ میں اکثر اس کی وڈیوز دیکھا کرتی اور فیس بک پر شیئر بھی کرتی تھی۔ میری نظر میں وہ معاشرے میں برائی نہیں پھیلا رہی تھی بلکہ اپنی منفرد باتوں سے معاشرے کی تلخ حقیقتوں کا پردہ چاک کرتی تھی۔ میرے فیس بک فرینڈز نے مجھے کئی بار کہا کہ ہمیں معلوم ہے تم کانٹینٹ کری ایٹرز کو پسند کرتی ہولیکن قندیل اچھی نہیں ہے۔ میں نے کہا: وہ بری ہے اور اس کو دیکھنے والے اچھے؟ یہ کیسا انصاف ہے؟
قندیل اداکارہ اور گلوکارہ بننا چاہتی تھی مگر ہر کسی نے اس کو دھتکار دیا۔ کسی کے نزدیک وہ کم پڑھی لکھی تھی‘ کسی کے لیے وہ لوئر کلاس سے تھی‘ کسی کے لیے وہ پینڈو تھی تو کسی کے نزدیک اس کا کردار اجلا نہیں تھا۔ ایسے رویوں پر مجھے سخت افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کسی کا ''کریکٹر سرٹیفکیٹ‘‘ کیسے سرعام بانٹا جاتا ہے۔قندیل سلور اور گولڈن سکرین پر راج کرنا چاہتی تھی لیکن اس کو باعزت کام نہیں دیا گیا۔ اس کی ہر چیز پر نظر رکھی جاتی تھی۔ خبروں میں اس کی ہیڈ لائنز بنتی تھیں۔ دیکھنے والے مزے لیتے اور ساتھ گالیاں بھی دیتے۔ سب نے اس کو مذاق بناکر رکھ دیا۔ ایک دن بریکنگ نیوز چلی کہ قندیل بلوچ کا اصل نام فوزیہ عظیم ہے‘ اس کا ایک بچہ بھی ہے اور اس کی اپنے شوہر سے طلاق ہوچکی ہے۔ اس کے خاندان کو بھی منظر عام پر لایا گیا۔ اس کی پرائیویسی کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ وہ اپنے گھر کی واحد کفیل تھی‘ اس کا باپ معذور تھا اور ماں اَن پڑھ جبکہ بھائی نکما اور بیروزگارتھا۔ وہ بھائی جو قندیل بلوچ کی کمائی کھاتا رہا‘ اسی بدبخت نے ایک دن لوگوں کی باتوں میں آ کر اپنی بہن کو قتل کر دیا۔ اس وقت اس کی عمر محض چھبیس سال تھی۔ بھائی نے خود تو ساری زندگی قندیل کو کچھ نہیں دیا‘ بیٹھ کر اس کی کمائی کھاتا رہا اور پھر ایک دن اسے قتل کر دیا۔
غربت‘ جہالت‘ لالچ اور نام نہاد غیرت نے قندیل کو نگل لیا۔ قندیل بلوچ لالچی نہیں تھی‘ وہ تو اپنے گھروالوں کو سپورٹ کرنے کے لیے کما رہی تھی اور اپنے خواب پورے کررہی تھی۔ وہ اداکارہ بننا چاہتی تھی‘ اپنا نام پیدا کرنا چاہتی تھی۔ میں اس کو ٹویٹر پر بھی فالو کرتی تھی‘ وہ بھی میری فالوور تھی۔ اس کی وفات کے بعد بھی میں اس کو فالو کرتی ہوں اور ہمیشہ کرتی رہوں گی۔ اب بھی کبھی کبھی میں اس کی پروفائل پر اس کی تصاویر دیکھتی ہوں اور اس کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہوں۔ مجھے وہ کبھی بری نہیں لگی۔ اس کی اوٹ پٹانگ حرکتوں اور شرارتوں پر مجھے ہنسی آتی تھی۔
قندیل بلوچ نے گلوکاری کے ایک مقابلے میں بھی حصہ لیا تھا۔ اس نے اچھا گانا گایا لیکن ججز نے اس کے ساتھ مناسب سلوک نہیں کیا۔ شو میں بھی اس کو '' پینڈو‘‘ کہا گیا۔ مجھے اس وقت اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس کی زندگی اتنی غمگین ہے۔ جب اس کو واپس 'قندیل‘ سے فوزیہ بنا دیا گیا‘ تب اس کی زندگی کے تلخ حقائق سب کے سامنے آئے۔ اس کی زندگی میں ہر سُو دکھ اور محرومیاں تھیں۔ اس کی مسکراہٹ کے پیچھے ایک کرب چھپا تھا۔ وہ تو حالات کی ستائی ہوئی تھی اور اپنی زندگی کو بدلنے کا عزم لے کر گھر سے نکلی تھی۔ جب اس کی موت کی خبر آئی تو مجھے کافی دکھ ہوا۔ میں بہت روئی اور اس کے ایصالِ ثواب کے لیے دعا کی۔اس کے بعد سے شاید ہی میں نے کسی کانٹینٹ کری ایٹر پر تنقید کی ہو۔ کسی کے مسکراتے ناچتے‘ ہنستے گاتے چہرے کے پیچھے کیا مسائل اور مصائب چھپے ہیں‘ یہ کوئی نہیں جانتا۔ ایک دوسرے کو جینے دیں‘ کسی دوسرے سے جینے کا حق مت چھینیں۔ دوسروں کو بھاشن دینے سے پہلے پیٹ بھر کر روٹی دیں۔
جب پہلی بار قندیل کے قاتل بھائی کو دیکھا تو اس کی شکل سے ہی یہ بات عیاں تھی یہ کوئی نکما‘ نکھٹو اور نشہ باز انسان ہے۔ ایسے لوگ جو زندگی میں خود کچھ نہیں کرتے‘ نام نہاد غیرت جیب میں ڈال کر گھومتے ہیں۔ خواتین کے پیسے کھاتے ہوئے کبھی ایسوں کی غیرت نہیں جاگی لیکن اس کا قتل غیرت کے نام پر کیا۔ قتل‘ قتل ہوتا ہے۔ اس میں غیرت کا کوئی عمل دخل نہیں‘ اس میں صرف حیوانیت اور سفاکیت کارفرما ہوتی ہے۔ اسی لیے میرے نزدیک غیرت کے نام پر قتل کی اصطلاح ہی غلط ہے۔ وسیم نے نہ تو کوئی رسمی تعلیم حاصل کی‘ نہ ہی دینی تعلیم حاصل کی۔ وہ نکمے پن کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ جب قندیل کو قتل کیا گیا‘ تو سوشل میڈیا پر کمپین چلائی گئی کہ قندیل کے قاتل کو پھانسی دی جائے؛ تاہم اسے سزائے موت سنائی گئی جبکہ دیگر نامزد تمام ملزمان کو بری کر دیا گیا مگر اب یہ خبر آئی ہے کہ مرکزی مجرم وسیم کو بھی بری کر دیا گیا ہے۔ وہ بری کیوں ہوا؟ کیونکہ اس کا حق اسے قانون دیتا ہے۔ قانون کے تحت اگر مقتول کے لواحقین قاتل کو معاف کر دیں تو مجرم بری ہو جاتا ہے۔ اسی قانونِ بریت کے تحت قندیل بلوچ کی ماں نے اپنی بیٹی کے قاتل یعنی اپنے بیٹے کو معاف کر دیا۔
وسیم نے پہلے بھی درخواست دائر کی تھی اور اس کے ماں‘ باپ نے راضی نامہ جمع کرایا تھا۔ اس کو مسترد کر دیا گیا تھا اور سزا برقرار رکھی گئی؛ تاہم اب قندیل اور وسیم کی والدہ نے دوبارہ صلح نامہ جمع کرایا اور یوں محمد وسیم کو رہائی مل گئی۔ اس معاشرے میں لڑکیاں اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں۔ کب کس کی جھوٹی غیرت جاگ جائے اور وہ اپنے ہی گھر کی خواتین کا گلا دبا دے‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ وسیم نے نہ صرف خود قتل کا اعتراف کیا تھا بلکہ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ قندیل کی وجہ سے اس کی اپنی برادری میں بدنامی ہوئی۔ ایسا شخص یقینا معاشرے کے لیے بھی خطرناک ہے۔ میرا یہاں پر یہ سوال ہے کہ اس دوران حکومت کی لیگل ٹیم کہاں تھی؟ کیا ایسے معاملات میں حکومت کو مدعی نہیں بننا چاہئے؟ جب قتل یا ریپ کے کیسز آتے ہیں تو حکومت کو خود مقدمہ لڑنا چاہیے۔ سب کچھ حالات پر چھوڑ دینا مناسب نہیں۔ جو فیصلہ اب سامنے آیا وہ اگرچہ قانون کے مطابق ہے‘ اس پر کسی بحث کی گنجائش نہیں؛ تاہم میرے خیال میں اب حکومت کو دوبارہ اپیل دائر کر کے مقدمہ کی کارروائی کو آگے بڑھانا چاہیے۔ اس کیس کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لینا چاہیے۔ اگر قندیل بلوچ جیسی مشہور و معروف ادکارہ کے قاتل کو سزا نہیں ملے گی تو عام آدمی‘ بالخصوص خواتین میں تحفظ کا احساس کیسے اجاگر ہو گا؟ ایسے شخص کو کس طرح کھلے عام دندنانے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ اگر پھر سے اس کی نام نہاد غیرت جاگ گئی تو؟
قندیل بلوچ پر ایک ڈرامہ سیریل بنی‘ کتاب بھی لکھی گئی۔ کیا ان لوگوں کا یہ فرض نہیں کہ وہ قندیل کے والدین کی کفالت کریں اور اس مقدمے میں مدعی بن جائیں؟ ریاست کو قتل اور ریپ جیسے جرائم کے حوالے سے قانون بدلنے کی ضرورت ہے۔ ایسے مجرموں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جانا چاہیے۔ بااثر مجرمان ہمیشہ لواحقین اور نظام پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں‘ لہٰذا ایسے تمام کیسز میں لواحقین کے ساتھ ساتھ ریاست کو خود بھی مدعی بننا ہو گا‘ اسے معصوم لوگوں کی دفاع میں آگے آنا ہوگا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو طاقتور کسی سزا اور تعزیز سے بے پروا ہو کر جرم کرتے رہیں گے کیونکہ انہیں یقین ہو جائے گا کہ معصوموں کے لیے کوئی آواز نہیں بلند کرے گا۔ مجھے قندیل کے لیے انصاف چاہیے۔ وہ آج بھی میری دعائوں میں شامل ہے۔ اس کی زندگی میں معاشرے نے اس کو دھتکار دیا‘ اس کو کام نہیں دیا گیا اور اب اس کی روح کو بھی انصاف نہیں مل رہا۔ قوانین کا غلط استعمال بند ہونا چاہیے۔ اگر قندیل کا قاتل آزاد رہا تو دیگر ایسے افراد کو بھی اپنے گناہوں کے بعد معاشرے میں دندنانے کا موقع مل جائے گا‘ اس لیے ریاست اس مقدمے کو دوبارہ اوپن کرائے اور وسیم کو سخت سے سخت سزا دلانے کی کوشش کرے تاکہ دوسروں کیلئے بھی عبرت ہو۔ جب تک ایسے مجرمان کو سزائیں نہیں ہوں گی‘ دیگر مجرمان کے دل میں قانون کا خوف پیدا نہیں ہو سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں