ہمارے بزرگوں کے دور میں ایوب خان، یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق حکمران تھے۔ ہمارے والدین کے دور میں بے نظیر بھٹو اور نوازشریف اقتدار کی باریاں لیتے رہے اور پھر پرویز مشرف آگئے۔ تاریخِ پاکستان میرا پسندیدہ موضوع تھا اور معاشرتی علوم میں میرے ہمیشہ 75 میں سے 70 نمبر آتے تھے مگر جب پاکستان کے صدور اور وزرائے کے ادوار کا باب آتا تو میرا سر درد کرنے لگ جاتا کیونکہ اتنی تاریخیں یاد کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ صدور تو پھر کچھ طویل مدت تک رہے لیکن وزرائے اعظم ایسے تبدیل ہوئے جیسے ہر سال لان کے نئے پرنٹ آ جاتے ہیں۔ اتنی جلدی تو ڈیزائنرز نئی کولیکشن نہیں لاتے جتنی جلدی ہمارے ملک میں وزیراعظم بدل جاتا ہے۔ یہ تاریخیں یاد کرنا اتنا مشکل کام تھا اور مجھے غصہ آتا تھا کہ ہمارے ہاں کوئی حکومت 5 سال پورے کیوں نہیں کرتی؟ کوئی بھی وزیراعظم پانچ سال کیوں نہیں پورے کرپایا۔ کاش ہمارے ملک کی سیاست میں کچھ سکون اور ٹھہرائو ہوتا۔میرے ہم عصر پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے دور میں بڑے ہوئے۔ مجھے اپنے بچپن میں لگتا تھا کہ تمام برائیوں کی جڑ مارشل لا‘ آمریت ہے اور اس کے جاتے ہی سب ٹھیک ہوجائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ پرویز مشرف کی کابینہ میں بہت سے موروثی سیاستدانوں اور سیاسی خانوادوں کو ہی جگہ دی گئی تھی اور وہ لوگ آج تک کسی نہ کسی طرح اقتدار کا حصہ ہیں۔ پاکستان کی جمہوریت عوام نہیں بلکہ چند خاندانوں کی حکومت کا نام ہے۔ اس وقت بھی پاکستان میں ایک ریکارڈ قائم ہوا ہے کہ والد وزیراعظم اور بیٹا وزیراعلیٰ ہے۔ ایسا شاید ہی کسی اور جمہوریت میں ہوا ہو؛ تاہم اس ملک میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے سبھی ملکوں میں موروثی سیاست عام ہے۔ بنگلہ دیش میں شخ مجیب کے بعد حسینہ واجد نے کرسی سنبھالی اور یہاں بھٹو صاحب کے بعد بینظیر صاحبہ اقتدار میں آگئیں۔ بھارت میں اندرا گاندھی کے بعد راجیو گاندھی سیاست میں آئے۔ ان کے بعد سونیا گاندھی، راہول گاندھی اور پریانکا گاندھی آگئے۔اسی طرح بینظیر بھٹو کے بعد زرداری صاحب صدر بنے اور بلاول بھٹو پارٹی کے چیئرمین بن گئے۔ اسی دوران مسلم لیگ نون ایک بڑی قوت بن کر ابھری۔ نواز شریف صاحب وزیراعلیٰ اور پھر وزیراعظم بنے اور اپنے بھائی شہباز شریف کو انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب بنایا۔ اب ان کے بچے بھی سیاست میں آگئے ہیں۔ مریم نواز پارٹی کی نائب صدر ہیں جبکہ حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوچکے ہیں۔ نواز شریف نہ صرف اپنی اہلیہ کلثوم نواز،بیٹی مریم نواز اور داماد محمد صفدر کو سیاست میں لائے‘ ان کے بھائی‘ بھانجے‘ بھتیجے‘ کزن اور دیگر رشتہ داربھی سیاست میں آئے۔ اب شاید نواسے‘ نواسیاں اور پوتے‘ پوتیاں بھی سیاست میں آنے کو تیارہیں ۔یہ روایت چند ایک خاندانوں تک محدود نہیں ہے۔ عابدہ حسین اور فخر امام نے صغریٰ امام کو میدانِ سیاست میں اتارا۔ نواز کھوکھر کے جانشین مصطفی نواز کھوکھر بنے،قائم علی شاہ کا بیٹا اور بیٹی بھی سیاست میں آئے۔ نفیسہ شاہ بہت قابل خاتون ہیں۔ پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی ان کے سیاسی جانشین ہیں۔غلام نور ربانی کی بیٹی حنا ربانی کھر پاکستان کی کم عمر ترین وزیرخارجہ بنیں۔ یہ بھی بہت نفیس اور قابل خاتون ہیں۔ شاہ محمود قریشی کے بچے بھی میدانِ سیاست میں آچکے ہیں۔ عبد الولی خان کے بعد ان کی بیوہ نسیم ولی سیاست میں آئیں‘ ان کے بعد اسفندیارولی اور اب ایمل ولی این این پی کے لیڈر ہیں۔ مفتی محمود کے بعد مولانا فضل الرحمن اور مولانا عطا الرحمن اور اب اسعد محمود پارٹی قیادت کے لیے تیار ہیں۔ یہاں تک کہ نوزائیدہ تحریک لبیک پاکستان میں علامہ خادم حسین رضوی کے بعد پارٹی کی قیادت ان کے بیٹے سعد رضوی کو مل گئی۔ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کے بعد ان کے جانشین اویس نورانی بنے۔یوسف رضا گیلانی بھی اپنے بیٹوں کو سیاست میں لا چکے ہیں۔ اچکزئی خاندان‘ جو ہر وقت ریاست پر تنقید کرتا رہتاہے‘ کے بھی بہت سے افراد حکومتوں کا حصہ اور کلیدی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ اسی طرح پرویز خٹک اپنے خاندان کے بہت سے لوگوں کو اسمبلی میں لائے۔ جنوبی پنجاب کے مخدوم ہردور میں اقتدار کا حصہ رہے۔ خسرو بختیار وفاق میں اور ان کے بھائی پنجاب میں وزیر تھے۔ سیف اللہ خاندان، ہوتی خاندان، ایوب خان خاندان،بزنجو خاندان، رئیسانی خاندان، اختر عبدالرحمن خاندان سمیت کئی خاندان ہر دور میں حکومتوں اور ایوانوں کی زینت بنتے رہے۔ طاہرہ اورنگزیب اپنی بیٹی مریم اورنگزیب کو سیاست میں لائیں۔ چودھری تنویر‘ دانیال چودھری کو سیاست میں لائے۔رفیق تارڑ کے بعد سائرہ تارڑ اور پھر عطا تارڑ سیاست میں آئے۔ بعض نئے سیاسی چہرے بھی موروثیت کا شکار نظر آتے ہیں۔ جہانگیر ترین نے نااہلی کے فیصلے کے بعد اپنے بیٹے کو الیکشن میں کھڑا کردیا۔ہارون بلور کی جگہ ان کی بیوہ ثمر بلور نے لی۔ ایسی بہت سی دیگر مثالیں بھی دی جاسکتی ہیں۔ پاکستان کی جمہوریت میں اقتدار شوہر کے بعد بیوی اور بچوں کو منتقل ہو جاتا ہے۔اگر یہ موجود نہ ہوں تو اقتدار بھائی یا بہن کے پاس چلا جاتا ہے۔اس کے بعد خاندان کے دیگر افراد کی باری آتی ہے۔ اگرسیاسی خاندان کے لوگ نااہلی‘ علالت‘ جلاوطنی یا کسی اور وجہ سے ملک سے باہر رہنے کو ترجیح دیں تو پھر قرعہ فال پارٹی کے سینئر لیڈرزکے نام نکلتا ہے؛ تاہم اہم حکومتی عہدوں کو پھر بھی خاندان میں رکھنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ رہی سہی کسر منتخب نشستوں نے پوری کردی ہے۔ ان نشستوں پر صرف سیاسی یا صنعت کار گھرانوں کی بہو‘ بیٹیوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ میرٹ کا قطعی خیال نہیں رکھا جاتا۔ کارکن خواتین خواہ کتنی ہی لائق ہوں‘ وہ اسمبلی میں آنے کی اہل نہیں سمجھی جاتیں۔ اسمبلی میں صرف مخصوص ناموں والے افراد آ سکتے ہیں‘ جن کے پاس بہت پیسہ ہونا چاہیے۔ متوسط طبقہ تو الیکشن لڑنے یا اسمبلی کے پاس سے گزرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
البتہ پی ٹی آئی میں موروثیت کچھ کم ہے۔ پارٹی چیئرمین عمران خان کے خاندان کا کوئی فرد ان کا سیاسی جانشین نہیں ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم میں بھی موروثیت نہیں ہے۔موروثی سیاستدان یا تو صنعت کاروں کے بچے ہیں یا پھر جاگیرداروں اور زمینداروں کے‘ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ متوسط طبقہ اپنی نمائندگی اسمبلی میں بھیج سکے۔ موروثی سیاستدان زیادہ تر باہر سے پڑھے ہوئے ہیں اور ان کے سفارتکاروں اور عالمی شخصیات کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ ملک کی معیشت اور خارجہ پالیسی کا کنٹرول بھی انہی کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور طاقتور اتنے ہیں کہ اداروں کے خلاف ہزرہ سرائی کرکے بھی صاف بچ نکلتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتی کہ سب برے ہیں لیکن جس کو پلیٹ میں رکھ کر پارٹی اور کرسی مل جائے ‘لازم نہیں کہ وہ اس کا اہل بھی ہو۔
یہ اصول کس نے مقرر کیا ہے کہ صرف سیاستدان کا بچہ ہی سیاستدان بن سکتا ہے؟ لازم تو نہیں کہ اس میں قابلیت بھی ہو۔ ہمارا ملک بری طرح سے ذات‘ برادری کے چکر میں پھنسا ہوا ہے اور اسی بنیاد پر الیکشن میں ووٹ ملتے ہیں۔ ایک اچھا سیاستدان اسمبلی میں اس لیے نہیں پہنچ پاتا کہ اس کے پاس پیسہ نہیں ہوتا۔ اب پاکستان موروثی سیاست کی نئی دلدل میں دھنس رہا ہے‘ پرانے سیاستدانوں کی نئی نسل ان کی نشست سنبھال رہی ہے۔ دیکھنا ہے کہ یہ نئے‘ پرانے چہرے ملک کیلئے کیا کرتے ہیں۔ہمیں متوسط طبقے کے حقیقی نمائندوں کی ضرورت ہے۔ دو لاکھ کی جوتی پہننے والا سیاستدان غریب عوام کے مسائل نہیں حل کرسکتا۔