میں مری میں فوٹوگرافی کررہی تھی جب سارے ایکو سسٹم کا نظارہ کیا۔ ایک شخص آیا اور کھانے پینے کی اشیا پر مبنی کچرا جنگل کے پاس ایک کونے میںپھینک کر چلا گیا۔ میں نے اس کو آواز دی اور کہا: آپ جنگل کو گندا کررہے ہیں۔ اس نے کہا: باجی ابھی دیکھئے گا کہ کیا ہوگا۔ انسان تو بہت کھانا ضائع کرتے ہیں لیکن اللہ کی دیگر مخلوق اس سے پیٹ بھر لیتی ہے۔ وہ کھانا جو اس نے جنگل میں پھینکا تھا‘ جلد ہی ختم ہوگیا۔ سب سے پہلے جنگلی سور آئے اور کھانا کھایا‘ ان کے جا تے ہی بندروں نے اُدھم مچا دیا اورخوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا‘ پھر کوے اور دیگر پرندے آ گئے‘ جب وہ وہاں سے کھانا کھا کر گئے تو وہ جگہ بالکل صاف ہو چکی تھی۔ البتہ میں پھر بھی یہی کہوں گی کچرا ڈسٹ بن میں پھینکیں اور چرند‘ پرند کیلئے بڑے برتن رکھ دیں جس میں بچ جانے والا کھانا ان کو ڈال دیں۔ جنگل کا ماحول نہایت خوشگوار تھا۔ شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس چوس رہی تھیں۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی‘ اپریل کے مہینے میں شال لینے کی ضرورت محسوس ہورہی تھی۔ اس سارے منظر میں سورہ رحمن کی یہ آیت میرے کانوں میں گونج رہی تھی ''اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے‘‘۔ دل سے بے اختیار آواز آئی‘ ایک بھی نہیں! بیشک رب بہت عظیم اور بہت مہربان ہے۔ میں نے فوٹوگرافی سے فارغ ہوکر اپنی ڈائری کھولی تو دیکھا چار عالمی دن سر پر ہیں لیکن ان کے حوالے سے کوئی بات ہی نہیں کررہا۔
سیاسی گرماگرمی میں شاید بہت سے لوگوں کو پتا نہیں چلا کہ چار اہم عالمی دن گزر گئے ہیں جن پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔ 22 اپریل کو زمین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ دھرتی ماں‘ جو ہمارا مسکن اور ہم سب کی شناخت ہے‘ ہم سب کو پناہ دیے ہوئے ہے‘ کا دن منانا بہت ضروری ہے۔ اس پر بات کرنا بھی ضروری ہے‘ خاص طور پر کورونا کے بعد سے ہمیں ماحولیاتی سرگرمیوں پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جتنے زیادہ درخت لگائے جائیں‘ اتنے کم ہیں۔ ہمیں صاف ہوا اور صاف ماحول کی اشد ضرورت ہے۔ انسانی سرگرمیوں نے زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ کردیا ہے جس کی وجہ سے ایکو سسٹم بھی متاثر ہوا ہے اور گرمی کی شدت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ موسموں کا دورانیہ تبدیل ہوگیا ہے۔ موسم گرما طویل ہو گیا ہے جبکہ سردیاں خشک اور سکڑ گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بارشیں بھی کم ہوتی ہیں جن سے معمولاتِ زندگی پر فرق پڑرہا ہے۔ ہمیں زندہ رہنے کے لیے آکسیجن اور پانی چاہیے‘ اگر ماحول آلودہ ہوگا توہم سب بیماریوں کا شکار ہوجائیں گے۔ ایسا ہوبھی رہا ہے‘ اس وقت ہر دوسرا شخص بیمار ہے۔ ہر کوئی گلا خراب ہونے‘ سینے میں تکلیف‘ دمے‘ سانس میں تکلیف اور بخار وغیرہ کی شکایت کررہا ہے۔ ماحول میں بے پناہ آلودگی ہے جس کے سبب لوگ بڑی تعداد میں بیمار ہورہے ہیں۔ ان سب مسائل سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں‘ اس کے ساتھ ہمیں آلودگی پر بھی قابو پانا ہو گا۔ ٹریفک کا دھواں‘ پانی میں کچرا‘ فضلہ، فصلوں میں کیمیکل اور تابکاری سے بچنا ہوگا۔ ان چیزوں کی وجہ سے اوزون کی لیئر بھی متاثر ہو رہی ہے‘ اگر ان سب چیزوں پر قابو نہیں پایا گیا تو کینسر جیسی موذی بیماریوں میں اضافہ ہو گا اور اوسط عمر کی حد بھی کم ہوجائے گی۔ اس وقت بھی آلودگی کے سبب بیماریوں سے انسانوں کا برا حال ہے‘ اس لیے اگر ہم زمین کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ماحول دوست سرگرمیوں کو فروغ دینا ہو گا۔
اس کے بعد 23 اپریل کو کتاب اور کاپی رائٹس کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کی بھی بہت اہمیت ہے۔ کتابیں انسان کی سب سے اچھی دوست ہیں۔ ان سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔ ہم سب کو کتب بینی کی عادت ڈالنا چاہیے۔ اب بھی ایسی بہت سی چیزیں انٹرنیٹ پر موجود نہیں جو کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں‘ اس لیے ہم سب کو پرانی اور نئی‘ ہر طرح کی کتابیں پڑھنا چاہئیں۔ میں آج کل ساجد رحیم کی کتاب 'ایک دیوار گراتا ہوں‘ پڑھ رہی ہوں۔ یہ شاعری کی ایک بہترین کتاب ہے۔ ساجد رحیم کی شاعری جدید دور کے مسائل کا احاطہ کرتی ہے۔ نوجوانوں کو یہ ضرور پڑھنا چاہیے۔ اس کے ساتھ 'قرآنی سورتوں کا نظم جلی‘ از خلیل الرحمن چشتی بھی آج کل میرے زیر مطالعہ ہے۔ یہ ایک بہترین تفسیر ہے جس میں تمام قرآنی سورتوں کی سمری شامل ہے۔ میں نے اپنے بہت سے جاننے والوں کو یہ کتاب تحفے میں دی اور پی ڈی ایف کی صورت میں وٹس ایپ کی تاکہ وہ اس کا ضرور مطالعہ کریں۔ اس کے ساتھ پاہلو کوہلو کی کتاب 'الکیمسٹ‘ میں دوبارہ پڑھ رہی ہوں۔ کتابیں ہمیں اچھا انسان بننے میں مدد دیتی ہیں مگر افسوس کہ پاکستان میں کتب بینی کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب لوگ بالکل بھی مطالعہ نہیں کرتے‘ اخبار پڑھنے کا رجحان بھی متروک ہوتا جا رہا ہے‘ لائبریریاں ختم ہوتی جارہی ہیں‘ نئے لکھاری کتاب شائع کرانے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ اس کام میں پلے سے پیسہ لگانا پڑتا ہے۔ رائٹرز کو رائلٹی نہیں ملتی‘ مارکیٹ میں کتابوں کے گاہک نہیں۔ اس ملک میں جوتا ٹھنڈے اے سی والے مال میں بکتا ہے جبکہ کتابیں فٹ پاتھ پر پڑی ہوتی ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسل میں کتب بینی کی عادت ڈالنا ہو گی‘ چاہے وہ کتاب پیپر بیک کی صورت میں پڑھیں یا پی ڈی ایف کی صورت میں‘ لیکن مطالعہ ضرور کریں۔ کتاب سے دوری ہمارے معاشرے میں عدم برداشت‘ نفرت اور غصے جیسے رویوں کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ اگر ہمیں معاشرے کو متعدل کرنا ہے تو ادب کی ترویج کرنا ہو گی۔ بچے تاریخ پڑھیں‘ تاریخِ پاکستان اور مذہب کا مطالعہ کریں‘ اس کے ساتھ عالمی دنیا‘ دیگر ممالک کے حالات و واقعات‘ شاعری اور ناول و ڈرامے کو پڑھیں تاکہ ان کے اندر تخلیقی صلاحیتیں جنم لیں۔ بچوں کو اخبار پڑھنے کا کہیں‘ ان کو چھوٹے چھوٹے کتابچے دیں تاکہ وہ آہستہ آہستہ خود میں کتب بینی کی عادت پیدا کریں۔ دوسری جانب کاپی رائٹس کا بھی ہمارے ملک میں بہت مسئلہ ہے۔ پورے پورے آرٹیکلز اور ریسرچ ورک چوری ہوجاتے ہیں۔ کتابوں سے مواد اور شاعری تک چرالی جاتی ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ ادارتی صفحات پر ہمارے جو آرٹیکل چھپتے ہیں‘ بہت سے لوگ یہی کاپی کر کے ویب سائٹس پر اپنے نام سے شائع کرا لیتے ہیں۔ اس معاملے پر کوئی پرسانِ حال نہیں‘ جتنا بھی شور کرلو‘ جتنی بھی نشاندہی کر لو‘ یہ سب جاری ہے کیونکہ قوانین پر عمل درآمد ہی نہیں ہے۔ اگر ایسا کرنے پر جرمانے ہوتے تو شاید ایسا نہ ہوتا۔
تیسرا عالمی دن انسدادِ ملیریا کا ہے جو 25 اپریل کو منایا جاتا ہے‘ اس دن کو منانے کا مقصد اس بیماری کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔ مچھر سے ہمیں ملیریا بھی ہوسکتا ہے اور ڈینگی
بھی۔ اگر یہ بگڑجائیں تو انسان موت کے منہ میں بھی جاسکتا ہے۔ اس لیے خود کو مچھر کے کاٹنے سے بچائیں اور ان کی افزائش نہ ہونے دیں۔ گھر میں کوڑا کرکٹ مت جمع کریں‘پرانے ٹائر نہ رکھیں، پانی کے ذخیرے کو ڈھک کر رکھیں اور گلی وغیرہ میں پانی کھڑا نہ ہونے دیں‘ یہ سب مچھر کی افزائش کے گڑھ ہیں۔ گھر میں جالی لگوائیں اور رات کو نیٹ میں سوئیں۔ مچھر مار سپرے اور کوائل کا استعمال کریں۔ ملیریا اب بھی پاکستان میں عام بیماری ہے کیونکہ یہاں مچھروں کی بہتات ہے اور ان کے کاٹنے سے بیشمار لوگ بیمار ہوجاتے ہیں۔ مقامی انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ بروقت سپرے کرے اور مچھروں کے لاروے کو تلف کرے۔ ملیریا کی تشخیص ایک ٹیسٹ سے ہوجاتی ہے اور بروقت علاج سے انسان ٹھیک ہوجاتا ہے۔ زیادہ تیز سپرے سے بھی بچنا چاہیے کیونکہ اکثر لوگ اس کے بعد گلا خراب ہونے کی شکایت کرتے ہیں‘ اس لیے جالی اور نیٹ کا استعمال کریں۔ ملیریا سے بچنے کا واحد حل خود کو مچھر کے کاٹنے سے بچانا ہے۔
26 اپریل کو ورلڈ انٹلیکچول پراپرٹی ڈے منایا جاتا ہے۔ اس سے مراد ہے کہ چاہے میوزک ہو یا ادب‘ تصاویر ہوں یا کتابیں‘ کالمز ہوں‘ تحریریں ہوں یا ڈیزائن‘ کوئی تخلیقی کام ہو یا سافٹ ویئر‘ ان سب پر کام کرنے والے کا حق ہے‘ کوئی بھی اس کی اجازت کے بغیر ان چیزوں کو استعمال نہیں کر سکتا اور اگر ایسا ہوا تو اس کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا ہو گا۔ انٹلیکچول پراپرٹی کی چار اقسام ہیں‘ جن میں ٹریڈ مارکس، کاپی رائٹس، پیٹنٹ اور ٹریڈ سیکرٹ شامل ہیں۔ مغربی ممالک میں تو ان کا خوب خیال کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں لوگ بہ آسانی دوسروں کا کام‘ ڈیزائن‘ میوزک اور تحریریں وغیرہ چوری کر لیتے ہیں۔ اس حوالے سے نئے قوانین بنانے اور ان پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔