والدین کے نام کھلا خط

میں نے گزشتہ آرٹیکل میں بچوں کے نام ایک کھلا خط لکھا تھا‘ آج باری ہے والدین کے نام کھلے خط کی کہ ان کے کیا فرائض ہیں اور بچوں کی دیکھ بھال وہ کس طرح سے کریں۔ ہمارے سیکٹر میں ایک خاتون رہتی تھیں جن کے چار بچے تھے۔ وہ بچوں کو گلی میں بھیج کر خود ٹی وی دیکھتی رہتیں اور جب بازار جاتیں تو بچوں کو گھر میں بند کرجاتیں۔ ایک دن بچوں نے گھر میں آگ لگا لی اور اس آتشزدگی کے باعث دو بچے جاں بحق ہوگئے۔ ان بچوں کے والد بیرونِ ملک مقیم تھے اور والدہ لاپروا‘ یوں اتنا بڑا سانحہ ہوگیا۔ اسی طرح ایک قدامت پسند خاندان‘ جس میں لڑکیوں کو ٹی وی دیکھنے تک کی اجازت نہیں تھی‘ ان کو چھت پر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی‘ کی ایک لڑکی نے گھر سے نکل کر کورٹ میرج کرلی۔ بہت سال تک اس فیملی نے بیٹی کو معاف اور داماد کو تسلیم نہیں کیا لیکن جب ان کے بچے ہو گئے تو پھر ان کو معاف کردیا گیا۔ اب یہ واقعات دو مختلف طرح کے ماحول کے ہیں۔ ایک لاپروا گھر اور ایک حد سے زیادہ محتاط‘ دونوں صورتوںمیں بچے بگاڑ کا شکار ہو سکتے ہیں‘ اس لیے ہر چیز میں اعتدال ضروری ہے۔
بچے کی پرورش کسی ایک کی نہیں‘ ماں باپ‘ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد والدین کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ یہ ان کا فرض ہے کہ ان کو دنیا میں لائے ہیں تو ان کا خوب خیال رکھیں‘ ان کے تمام حقوق پورے کریں۔ جب بچہ چھوٹا ہوتا ہے تو ماں باپ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس کو دھوپ‘ سردی‘ گرمی اور موسم کی شدت سے بچائیں۔ اس کو پیار ملے‘ اچھی غذا ملے اور اس کو حفاطتی ٹیکہ جات کا کورس مکمل کروایا جائے۔ اس کو کھلونے وغیرہ خرید کر دیے جائیں‘ اس کو سکول بھیجا جائے‘ چھٹی کے دن پارک لے کرجایا جائے‘ اس کو کھیلنے کودنے کا موقع دیا جائے‘ اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پوارا کیا جائے‘ اس کی باتیں سنی جائیں‘ اس کو روایتی کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دی جائے۔ والدین کو چاہیے کہ بچے سے دوستی کریں۔ والدین اگر بچے سے دوستی کریں گے تو وہ باہر سہارے نہیں ڈھونڈے گا۔ بچہ گھر سے باہر پیار تب تلاش کرتا ہے جب اس کو گھر میں پیار نہیں ملتا۔ ہمارے ملک میں زیادہ تر والدین بچوں سے دوستی نہیں کرتے۔ اکثر گھروں میں والد کا ایسے ہی رعب ہوتا ہے جیسے کوئی وائسرائے اپنے محکوم علاقے کے دورے پر نکلا ہو۔ اس صورتحال میں بچے اپنے لیے آزادی اور محبت گھر سے باہر ڈھونڈنا شروع کردیتے ہیں۔والدین کو چاہیے کہ اگرچہ بچوں پر تھوڑی سختی بھی کریں لیکن انہیں ہر ممکن نعمت مہیا کریںاور سب سے بڑھ کر ان سے دوستی اور بات چیت ضرور کریں۔بچوں کو تحائف دیں اور ان کو مناسب پاکٹ منی دیں‘ان کی مالی ضروریات کا خیال کریں۔ آج کے دور میں بچوں کے پاس انٹرنیٹ‘ موبائل اور کچھ بیلنس وغیرہ بھی ہونا چاہیے۔
آج کل انٹرنیٹ کا دور ہے‘ والدین کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ سوشل میڈیا اور آن لائن گیمز میں بچے محبتیں پروان چڑھا رہے ہیں۔ والدین کو پتا تب چلتا ہے جب بات گھر سے بھاگ جانے اور خودکشی کرنے تک آ جاتی ہے۔ کچھ بچے اسی طرح مجرموں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ ان سے رقم ہتھیائی جاتی ہے‘ ناجائز تعلقات پر مجبور کرکے ان کی وڈیوز بنا کر ان کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو اعتماد میں لیں‘ ان کو بتایا جائے کہ وہ اپنی تصاویر کسی سے شیئر مت کریں اور اپنے سے بڑے افراد سے دوستی مت کریں۔ کمپیوٹر‘ لیپ ٹاپ کو لائونج وغیرہ میں سب کے سامنے رکھیں۔ بچوں کو صرف ایک یا دو گھنٹے انٹرنیٹ استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس کے بعد وہ آلات بند کر کے والدین انہیں اپنی نگرانی میں رکھیں۔ بچوں کے موبائل‘ لیپ ٹاپ وغیرہ پر پاسورڈ نہیں ہونا چاہیے۔ بہت سے لوگ بچوں کو مخرب الاخلاق مواد وٹس ایپ اور ٹک ٹاک جیسی اپیلی کیشنز پر بھیجتے ہیں‘ اس لیے بچوں کے فون پر نظر رکھیں۔ اپنے بچوں کو دو چیزوں سے دور رکھیں؛ ٹک ٹاک اور پب جی۔ ایسی اپیلی کیشنز سے بچے بہت پُرتشدد ہو رہے ہیں اور علانیہ بے حیائی کی طرف جارہے ہیں۔ 18 سال کی عمر تک بچہ آپ کی ذمہ داری ہے‘ اس کی بہترین تربیت کریں‘ اس کو اخلاقیات سکھائیں‘ اس کو دین کی طرف راغب کریں۔ یہ سب پیار اور تھوڑی سختی کے ساتھ کرنا ہوتا ہے۔
اکثر والدین سب کے سامنے بچوں کی تذلیل کر دیتے ہیں‘ رشتہ داروں میں بیٹھ کر ان کو طعنے دیتے ہیں‘ اس سے بچے احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور رشتہ داروں سے بھی نفرت کرنے لگتے ہیں۔ ایسا بالکل نہ کریں‘ ان کی برائیوں‘ عیبوں کو چھپائیں اور ان کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں۔اسی طرح میاں بیوی اپنے جھگڑوں میں اولا د کو بھی کھینچ لیتے ہیں‘ اس سے بھی بچوں کی شخصیت تباہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ میاں بیوی کو اپنے جھگڑے‘ ناچاقی کمرے سے باہر نہیں نکالنے چاہئیں۔ بچوں کو پیار دیں‘ ان کو اعتماد دیں اور ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھرپور طریقے سے منائیں۔ ان کو ماریں مت‘ سخت سزا نہ دیں۔ بچوں کو ان کی پرسنل سپیس بھی دیں اور ان پر اپنی مرضی کے فیصلے مسلط مت کریں۔ ان کو مضبوط اورطاقت ور بنائیں۔ ان کو اپنی مرضی کی تعلیم کا حق دیں‘ اپنی مرضی سے اپنا کیریئر منتخب کرنے کا موقع دیں۔ والدین کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ بچے کوئی مشین نہیں کہ آپ ان میں جو بھی چپ لگائیں گے‘ وہ اسی طرح عمل کرنے لگ جائیں گے۔ ایسا نہیں ہوتا! ہر بچے نے ڈاکٹر نہیں بننا۔ ہر بچہ انجینئر نہیں ہوتا۔ کوئی بچہ پینٹر بنے گا‘ کوئی سنگر‘ کوئی پائلٹ تو کوئی ٹیچر۔ ان کو خود یہ فیصلہ کرنے دیں۔
اگر بچوں کو کسی سے پیار ہوجائے تو والدین کو چاہیے کہ اگر وہ رشتہ ان کے لیے مناسب ہے تو قانونی عمر پر ان کو نکاح کے بندھن میں باندھ دیں۔یہ معاملات بہت نازک ہوتے ہیں‘ بچوں کو بہت پیار سے سمجھانا ہوتا ہے۔ اگر ان کی پسند ٹھیک ہے تو خدارا! اسے ذات‘ برادری‘ کاسٹ وغیرہ جیسی بے معنی چیزوں کی بھینٹ مت چڑھائیں۔
بچوں کے ساتھ کھیل کود میں حصہ لیں‘ ان کو گھومنے پھرنے کے لیے لے کرجائیں‘ ان کے ساتھ وقت گزاریں۔ بچے پھولوں کی طرح نازک ہوتے ہیں‘ ان کو معاشرے کی بری نظر‘ گرم ہوا‘غربت‘ افلاس‘ جبری مشقت‘بھوک‘ پیاس اور حادثات سے بچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر ان سے کسی غلطی کا ارتکاب ہوجائے تو ان کی پردہ پوشی کریں اور ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں‘ ان کی غلطیوں‘ شرارتوں پر انہیں مارنے‘ پیٹنے کے بجائے انہیں معاف کردیا کریں اور پیار سے سمجھائیں۔
اب جب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ بچے جلد بلوغت کی عمر کو پہنچ رہے ہیں تو ہمیں ان کی شادیاں بھی جلدی کرنا ہوںگی۔ قانونی عمر پوری ہونے پر ان کی شادی کر دیں‘ اس کام میں زیادہ تاخیر مناسب نہیں۔ والدین کو چاہیے کہ شادی کے حوالے سے سب سے پہلی ترجیح بچوں کی پسند کو دیں۔ کیریئر اور تعلیم کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہ سکتا ہے۔ یہ بات جان لینی چاہیے کہ بچوں کی خوشی میں ہی والدین کی خوشی ہے۔
بچے صرف ماں کی ذمہ داری نہیں‘ باپ کا بھی پرورش میں بھی اتنا ہی حصہ ہے۔ باپ کا فرض صرف یہ نہیں کہ وہ بچوں کی مالی ضروریات پوری کرے۔ اسے بچوں سے بات چیت بھی کرنی چاہیے‘ وہ بچوں کو گلے لگائے ان کی بات سنے۔اسی طرح ماں بچوں کو پیار ضرور کرے لیکن بے جا لاڈ نہ اٹھائے‘ اس سے بچے بگڑ جاتے ہیں۔ بچے کو جس سانچے میں ڈھال دو‘ وہ ڈھل جاتا ہے اس لیے اس کو اخلاقیات‘ محبت اور حب الوطنی کے سانچے میں ڈھالیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں