میرا‘ آپ کا‘ ہم سب کا زلزلوں سے تعلق بہت پرانا ہے۔ پیدا تو میں کراچی میں ہوئی تھی لیکن والدین اسلام آباد لے آئے۔ اس کے بعد زندگی کا شاید ہی کوئی سال گزرا ہو کہ میں نے زلزلے نہ محسوس کیے ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے اسلام آباد ہی سارے زلزلوں کا مرکز ہے‘ چاہے وہ جغرافیائی زلزلے ہوں یا سیاسی‘ یہاں ہر وقت ہلچل مچی رہتی ہے۔ پہلی بار میں نے جب زلزلہ محسوس کیا تو میری عمرچار‘ پانچ سال ہوگی۔ میری یادوں میں یہ زلزلہ اس لیے محفوظ رہ گیا کہ جب امی‘ ابو نے شور مچایا کہ زلزلہ آرہا ہے‘ بہت شدید ہے‘ سب جلدی سے نکلیں اور گھر سے باہر آجائیں تو ہمارے سادہ لوح ملازم نے ڈنڈا اٹھا لیا کہ کہاں ہے زلزلہ؟ میں اس کو چھوڑوں گا نہیں‘ اس کی ہمت کیسے ہوئی کہ رات کو ہمارے گھر میں گھس آئے۔ اس کی اس بات پر سب ہنسنے لگے کہ زلزلہ کسی چور کا نام نہیں‘ یہ ایک قدرتی آفت ہے جو کسی بھی وقت‘ کہیں بھی آسکتی ہے۔ زلزلہ نظر تو نہیں آتا لیکن محسوس ہوتا ہے اور اس طرح محسوس ہوتا ہے کہ پورا وجود لرزا دیتا ہے اور اکثر یہ جاتے جاتے بہت توڑپھوڑ کرکے جاتا ہے۔ آج بھی ہمیں جب اس کی سادہ لوحی یاد آتی ہے تو سب ہنس پڑتے ہیں۔ اسلام آباد میں تقریباً ہر سال زلزلے آتے ہیں۔ ان زلزلوں میں ہم سب کی ایک ہی روٹین ہوتی ہے کہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے گلی میں نکل جاتے ہیں۔ تھوڑی دیر کیاری میں بیٹھے رہتے ہیں اور پھر کچھ دیر بعد واپس گھر آجاتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہاں اتنی بلند عمارتیں کیوں تعمیر کی گئی ہیں؟ کسی بھی آفت میں لوگ کیسے بلندو بالا عمارتوں سے باہر آئیں گے۔ ہمارے ہاں تو بلند عمارات میں ایمرجنسی ایگزٹ کا بھی کوئی رواج نہیں ہے۔
جب کبھی سکول ٹائمنگ میں زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوتے تھے تو ہماری ٹیچرز ہمیں لائن بناکر میدان میں لے جاتی تھیں۔ تقریباً پانچ‘ دس منٹ ہم وہیں بیٹھے رہتے اور پھر واپس کلاسوں میں چلے جاتے اور پڑھائی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوجاتا۔ آندھی ہو طوفان یا زلزلہ‘ کبھی سکول سے چھٹی نہیں ملی۔ہم بچے سوچتے تھے کہ اتنا زیادہ طوفان ہے‘ ہمیں پھر بھی سکول جانا پڑرہا ہے؛ تاہم 2005ء کا زلزلہ ہم کبھی نہیں بھول سکتے۔ اس کے بعد ہی سے مجھے زلزلوں سے شدید خوف آنے لگا ہے۔ اس روز میری چھٹی تھی‘ ہمارے امتحانات ہو رہے تھے، مجھے پیپر کی تیاری کرنی تھی‘ میری بہن کا بھی پیپر تھا۔ وہ جلدی اٹھ گئی تھی، میں نے سوچا تھا کہ 9 بجے اٹھ کر پڑھائی شروع کروں گی مگر اس سے قبل ہی ایک زور کا جھٹکا محسوس ہوا اور میرے اوپر چیزیں گرنے لگیں۔ میں جلدی سے اٹھی‘ دیکھا تو کتابیں ریک سے نیچے گر رہی تھیں اور فریمز زمین پر گرے پڑے تھے۔ میری بہن دوسرے کمرے سے بھاگتی ہوئی آئی اور کہا: جلدی نیچے لان میں چلو لیکن سڑھیاں ایسے ہل رہی تھیں کہ ہم سے اترا ہی نہیں جارہا تھا۔ پھر میری بہن نے میرا ہاتھ سختی سے پکڑا اور مجھے نیچے لے گئی۔ ہم دونوں کا سر چکرا رہا تھا۔ ابو‘ امی‘ بہن اور میں‘ سب گلی میں کھڑے تھے، باقی لوگ بھی گھروں سے باہر آ گئے تھے۔ ہر کوئی خوف زدہ تھا۔ زلزلے کے جھٹکے بار بار محسوس ہو رہے تھے۔اس دن تمام لوگ دیر تک اپنے اپنے گھر کے لان اور کیاریوں میں بیٹھے رہے تھے۔ ہم سب حیران تھے کہ اتنی شدت کا زلزلہ آیا اور آفٹرشاکس تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد مارگلہ ٹاور کے گرنے کی خبر مل گئی۔ ٹی وی پر آزادکشمیر اور صوبہ سرحد (کے پی) میں زلزلے سے سینکڑوں مکانات تباہ ہونے اور ہزاروں قیمتی جانیں جانے کی خبریں چل رہی تھیں۔ اس زلزلے کے بعد بہت دن تک ہم ایسا محسوس کرتے رہے کہ سر میں درد ہو رہا ہے‘ جسم میں درد ہے۔ ایک اداسی نے ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ایک بہت برا وقت تھا جو ہم نے گزارا‘ اس وقت بہت سے نوجوانوں نے بطور رضاکار ہسپتالوں کو جوائن کیا، میری بہن نفسیات پڑھ رہی تھی‘ اس نے بھی سرکاری ہسپتال میں بطور رضاکار کام کرنا شروع کردیا۔ میں اس وقت چھوٹی تھی لیکن کبھی کبھی اس کے ساتھ چلی جاتی تھی۔ لوگ بہت پریشان تھے‘ کئی زخمیوں کے ہاتھ‘ پائوں اور بازو وغیرہ کٹ چکے تھے۔ کچھ فریکچر میں مبتلا تھے۔ کچھ صدمے سے دوچار تھے۔ان کی بحالی پر کام ہورہا تھا۔ زیادہ تر رضاکار طالبعلم مریضوں اور ان کے لواحقین کی مدد کرتے‘ ان کو تسلی دیتے‘ مطلوبہ شعبے میں انہیں چھوڑ کر آتے۔
زلزلہ بہت سے طریقوں سے انسانوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ ان کو خوف زدہ کردیتا ہے‘ ان کو زخمی کردیتا ہے‘ معاشی طور پر تباہ کر دیتا ہے۔کئی بار زلزلے جان لیوا بھی ثابت ہوتے ہیں۔2005ء کے زلزلے کے بعد ایک خاتون‘ نقشہ بی بی کو ہسپتال لایا گیا تھا۔ وہ 63 دن کے بعد ملبے سے زندہ ملی تھیں۔ میں ان سے بہت بار ملی۔ علاج کے بعد وہ چلنا پھرنا شروع ہوگئی تھیں لیکن ان کی ذہنی صحت متاثر ہوئی تھی۔ وہ کسی سے بات نہیں کرتی تھیں۔ ہسپتال سے ان کو ایدھی ہوم شفٹ کردیا گیا تھا۔ وہاں بھی میں ان سے بہت بار ملی۔ وہ بنا آواز ہنستی رہتیں یا خلاوں میں گھورتی رہتیں لیکن کچھ نہیں بولتی تھیں۔ جب میں رپورٹنگ کی فیلڈ میں آئی تو اس دوران ڈاکٹرز نے بتایا کہ اگر یہ واپس کشمیر چلی جائیں تو شاید ٹھیک ہوجائیں۔ میرے کولیگز ان کو اُن کے خاندان کے پاس لے گئے لیکن وہ لوگ خاصے غریب تھے لہٰذا ان کی دیکھ بھال میں انہیں دِقت ہوئی جس کے بعد نقشہ بی بی واپس ایدھی ہوم آگئیں پھر ان کو ایدھی ہوم ملتان میں شفٹ کردیا گیا جہاں 2015ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔
2005ء کے زلزلے نے ہم سب کی زندگیوں کو متاثر کیا۔ اب اگر زلزلے کا ہلکا سا جھٹکا بھی محسوس ہو اور دھرتی کانپ جائے تو ماضی نظروں کے سامنے آ جاتا ہے۔ دکھ‘ تکلیف‘ درداور آنسو‘ سب کچھ تازہ ہو جاتا ہے۔ اب جب بھی زلزلہ آتا ہے تو میں فوری طور پر گھر سے باہر جانے کی کوشش کرتی ہوں۔ ساتھ اپنا ہینڈ بیگ اور فون بھی پکڑ لیتی ہوں کہ پتا نہیں کیا ہونے والا ہے۔ ایک خدشہ سا ہر وقت ذہن میں رہتا ہے۔ مجھے پتاہے کہ میرا ردعمل کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے لیکن وہ سب کچھ میری نظروں کے سامنے آجاتا ہے جو میں نے کشمیر میں دیکھا تھا یا جو اسلام آباد کے پمز اور پولی کلینک میں دیکھا تھا۔ پھر گم صم نقشہ بی بی یاد آجاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں ریسکیو اور ریلیف کا انتظام اتنا مؤثر نہیں ہے۔ مریضوں کی مکمل بحالی کیلئے فنڈز نہیں ہیں‘ زیادہ تر متاثرین کے گھر والے غریب ہوتے ہیں‘ ان کی نفسیاتی صحت کا خیال نہیں کرپاتے۔ زلزلے سے نہ صرف جسمانی و معاشی نقصان ہوتا ہے بلکہ انسان نفسیاتی طور پر بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے اور ہر وقت خوف محسوس کرتا رہتا ہے۔ اگر یہ خوف بہت عرصہ تک ساتھ رہے تو علاج ضروری ہوجاتا ہے۔
گزشتہ ہفتے سے اب تک‘ اسلام آباد میں کم از کم تین بار زلزلہ آچکا ہے۔ جب دوسری بار زلزلہ آیا تو میرے دل میںیہ خدشہ ابھرا کہ اگر یہ پھر آیا توتیز اور نقصان دہ ہوگا۔ تیسرا زلزلہ رات دو بجے کے قریب آیا۔ سب لوگ ایک دوسرے سے ٹویٹر‘ وٹس ایپ پر خیریت پوچھتے رہے ۔ پاکستان میں تو اس زلزلے کے سبب خیریت رہی لیکن افغانستان میں اس زلزلے نے بہت نقصان پہنچایا ہے، ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے، متعدد مکانات مہندم ہوگئے جبکہ ہزاروں افراد اس وقت زخمی ہیں۔ افغان بہن‘ بھائیوں کو ہماری مدد کی ضرورت ہے۔ پوری دنیا کو ان کی مدد کے لیے آگے آنا چاہیے۔ اس وقت وہاں خوراک‘ ادویات اور صاف پانی کی شدید ضرورت ہے۔ افغان صحافیوں نے وہاں سے جو وڈیوز پوسٹ کی ہیں‘ ان میں ایسے دلخراش مناظر ہیں کہ بیان سے باہر ہیں۔ لوگ اپنے ہی گھروں کے ملبے تلے دب گئے۔ کئی سو قبریں کھودی جاچکی ہیں۔ زخمیوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ لوگ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔ نہ وہاں ہسپتال ہیں‘ نہ ایمبولینسیں اور نہ ہی ریسکیو والے۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کام کررہے ہیں۔ وہاں تو عام لوگوں کے پاس کھانے کو روٹی بھی نہیں‘ وہ کیسے ٹویٹ کرکے دنیا کو کچھ بتائیں؟اس وقت ساری دنیا کو افغان عوام کی مدد کرنی چاہیے اور افغانستان کو فوری طور پر امداد دینی چاہیے۔ یقینا زلزلے بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں اور بہت سی تلخ یادیں زندگی پر ثبت کرجاتے ہیں۔