ہمارا قومی کھیل ہاکی ہے لیکن ہم بحیثیت قوم کرکٹ کے شوقین ہیں۔ شائقین اس کو زندگی موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ میچ ہو رہا ہو تو سڑکیں سنسان ہوجاتی ہیں۔ اگر میچ ملک کے اندر ہورہا ہو تو لوگ گھنٹوں انتظار کرکے سٹیڈیم جاتے اور میچ دیکھتے ہیں۔ اگر ہم میچ جیت جائیں تو ڈھول کی تھاپ پر رقص ہوتا ہے‘ مٹھائی تقسیم ہوتی ہے اور اگر ہار جائیں تو شائقین ٹی وی سیٹ تک توڑ دیتے ہیں۔ شعبۂ کرکٹ میں ہماری کارکردگی میں اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں اس کے باوجود یہ ایک مقبول قومی کھیل ہے اور بچے بوڑھے‘ سب اس کو بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ ہمارا قومی کھیل ہاکی‘ جس میں کبھی ہم تمغے جیت کر لاتے تھے‘ آج زبوں حالی کا شکار ہے۔ نہ حکومت کو اس میں کوئی دلچسپی ہے نہ ہی عوام کو، البتہ جو مقابلے کامن ویلتھ گیمز اور اولمپکس میں ہوتے ہیں‘ ان کو پاکستان میں سپورٹس شائقین شوق سے دیکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی مٹی بہت مردم خیز ہے یہاں پر بڑے بڑے نام پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے دنیا بھر میں ملک و قوم کا نام روشن کیا۔ جو انتہائی سخت مقابلوں کے بعد تمغے جیت کر لائے بلکہ اب بھی لا رہے ہیں‘ حالانکہ اولمپکس ایسوسی ایشن ہو یا سپورٹس بورڈ‘ یہ تاثر عام ہے کہ کھلاڑیوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے‘ ایتھلیٹس کی کوئی قدر نہیں کی جاتی۔ کتنے ہی ایتھلیٹس نے تمغے لینے اور ملک و قوم کا نام روشن کرنے کے باوجود غربت اور کسمپرسی کی زندگی گزاری حالانکہ اچھی سرکاری نوکری اور مراعات پر ان کا حق تھا۔ اکثر ایتھلیٹ اپنے بل بوتے پر میڈلز ٹیبل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کے والدین اپنے گھر اور گاڑیاں بیچ بیچ کر ان کو ٹریننگ کراتے اور ان کو ٹکٹ تک خرید کردیتے۔ میں نے متعدد بار ایتھلیٹس کے انٹرویو کیے، سب نے ایک ہی کہانی سنائی کہ ان کے والدین نے ان پر محنت کی‘ ان کو کوچ ہائر کرکے دیے اور ان کی ٹریننگ پر پیسے خرچ کیے۔ انہوں نے مختلف قومی و عالمی مقابلوں میں شرکت کے لیے ٹکٹ تک خود خریدے۔ جب وہ اندرونِ ملک سرکاری ٹریننگ پر جاتے تو وہاں سہولتوں کا فقدان ہوتا تھا؛ البتہ سب نے اپنے کوچز کی خوب تعریف کی‘ جن کی محنت کے باعث وہ عالمی مقابلوں میں اپنا نام بنانے میں کامیاب ہو سکے۔ میں نے کچھ سال پہلے کچھ ایتھلیٹس کا انٹرویو کیا‘ انہوں نے بتایا کہ کس طرح ان کے والدین نے ان پر محنت کی اور ان کی وجہ سے ہی وہ عالمی مقابلوں میں شرکت کرپائے۔
پاکستان کے صدارتی ایوارڈ یافتہ ایتھلیٹ انعام بٹ نے 2018ء میں کامن ویلتھ گیمز میں سونے کا تمغہ جیتا تھا اور 2021ء میں بیچ ریسلنگ میں بھی انہوں نے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اب کامن ویلتھ گیمز میں انہوں نے سلور میڈل حاصل کیا ہے۔ اس وقت ان کو پرائیویٹ سپانسر شپ حاصل ہے۔ اگر صاحبِ ثروت لوگ سپورٹس کی ترویج میں سامنے آئیں گے تو ہی کھلاڑی اچھا پرفارم کر پائیں گے۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے اس منزل تک پہنچنے میں ان کی مدد کی۔ اسی طرح جب طیب رضا نے 2018ء کے کامن ویلتھ گیمز میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا توانہوں نے مجھے بتایا تھا کہ کس طرح وہ مٹی میں کھیل کر یہ میڈل لائے ہیں۔ ان کی کامیابی کے پیچھے ان کے والد کی محنت اور حوصلہ افزائی تھی جنہوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان کے والد خود بھی پہلوان تھے اور ان کی ٹریننگ ہی طیب کے کام آئی۔ اس بار وہ کانسی کے تمغے کے لیے ہوئے مقابلے میں بھارتی حریف سے ہار گئے۔ وہ ایک بہترین کھلاڑی ہیں‘ کاش حکومت ان کھلاڑیوں کو روس‘ بلغاریہ اور جارجیا بھیجے تاکہ یہ کشتی اور پہلوانی کی جدید ٹریننگ حاصل کر سکیں اور پاکستان کے لیے مزید تمغے جیت کر لائیں۔
یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ سپورٹس بورڈ اور اولمپکس کمیٹی کے باہم تعلقات اچھے نہیں ہیں اور باقاعدگی سے ٹریننگ کیمپوں کا انعقاد نہیں کیا جاتا جس کے سبب کھلاڑی اچھی ٹریننگ نہیں لے پاتے۔ پاکستان کی ایک قومی سطح کی بیڈ منٹن پلیئر‘ جو اب ایک جم میں انسٹرکٹر ہیں‘ کہتی ہیں کہ ہمارے لیے تو ٹریننگ کیمپوں میں پینے کا پانی تک نہیں ہوتا‘ ہم جو کچھ کرتے ہیں‘ خود کرتے ہیں۔ اس وقت پوری قوم کی توجہ کرکٹ ہی پر ہے‘ کوئی ایتھلیٹس پر توجہ دینے کو تیار نہیں۔ ہمارے کیمپس میں جس طرح کی سہولتیں ہوتی ہیں‘ ہم کچھ سیکھنے کے بجائے بیمار ہوکر واپس آتے ہیں۔ حکومت‘ میڈیا اور سپانسر ز بھی صرف کرکٹ کے پیچھے ہیں‘ اس لیے میں نے اپنے شعبے کو خیرباد کہہ کر جم جوائن کرلیا تاکہ باعزت روزگار کما سکوں۔ اگر حکومت ذرا سی توجہ دے تو بہت سے ٹیلنٹ کو پالش کرکے ہم کافی تمغے جیت سکتے ہیں مگر کسی کی توجہ اس طرف نہیں ہے، ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ کھیل کے اداروں کے سربراہان برسوں تک تبدیل نہیں ہوتے‘ حالانکہ ان کی کارکردگی بھی کچھ نہیں۔ کھلاڑیوں اور کوچز کو ایسے اداروں کا سربراہ بھی نہیں بنایا جاتا۔
2022ء کی کامن ویلتھ گیمز میں 68کھلاڑیوں کے دستے نے پاکستان کی طرف سے حصہ لیا۔ آبادی کے لحاظ سے ہم دنیا میں پانچویں نمبر پر ہیں اور آبادی کے تناسب سے یہ تعداد بہت کم ہے۔ بے شمار چھوٹے ممالک کے دستے بڑے بڑے ہوتے ہیں اور ان کے میڈلز بھی ہم سے خاصے زیادہ ہوتے ہیں۔ ان کو بھرپور ٹریننگ کرائی جاتی ہے جبکہ اس کے برعکس ہمارے ہاں کھلاڑی صرف چند دن ٹریننگ کرتے ہیں اور اس کے باوجود اپنی بھرپور محنت اور قوم کی دعائوں کے سبب تمغہ جیت کر لے آتے ہیں جو یقینا بہت بڑی بات ہے۔ کم سہولتوں‘ حکومت اور اداروں کی عدم دلچسپی کے باوجود پاکستانی کھلاڑیوں نے کامن ویلتھ گیمز میں دو طلائی تمغے جیتے۔ پہلا گولڈ میڈل نوح دستگیر بٹ نے ویٹ لفٹنگ میں جیتا جس سے سارے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ نوح بٹ نے 109 کلو گرام سے زیادہ ویٹ لفٹنگ کی کیٹیگری میں 405 کلو گرام وزن اٹھایا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ نوح کا تعلق گوجرانولہ کی ایک پہلوان فیملی سے ہے اور ان کے والد بھی ایتھلیٹ رہے ہیں۔ نوح نے بتایا کہ گزشتہ مقابلے میں انہوں نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا تھا جس پر ان کے والد ناراض ہوئے تھے اور اب انہوں نے گولڈ میڈل اپنے والد کے لیے جیتا ہے۔ اسی طرح دوسرا گولڈ میڈل میاں چنوں کے ایک نواحی گائوں سے تعلق رکھنے والے ارشد ندیم نے جیولن تھرو میںحاصل کیا ہے۔ عوام کو ان سے بہت سی امیدیں تھیں۔ ارشد ندیم ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مقابلے والے دن ان کے چھوٹے سے گھر پر لوگوں کا رش تھا اور لوگ پُرامید تھے کہ وہ میڈل جیتیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ میں نے یہ مقابلہ لائیو دیکھا اور نوٹ کیا کہ ارشد ندیم نے سادہ سا لباس پہن رکھا تھا، ان کے عام سے جوگرز بھی سپانسرڈ نہیں تھے۔ پاکستان میں اتنے بڑے بڑے برانڈ موجود ہیں لیکن ارشد کا کوئی سپانسر نہیں تھا۔ ان کا بازو زخمی تھا‘ اس کے باوجود وہ نہ صرف مقابلہ جیت گئے بلکہ انہوں نے ریکارڈ بھی قائم کیا۔ ارشد کی تربیت واپڈا اور میاں چنوں کے ایک مقامی کوچ نے کی۔ ارشد نے 90.18میٹر تک جیولن تھرو کی۔ ان کی جیت پر حکومت اور مختلف سیاسی رہنمائوں اور اداروں کی طرف سے مبارکباد کا سلسلہ شروع ہوگیا لیکن کیا ان سب نے ارشد کی یہاں تک پہنچنے میں مدد کی؟ بالکل بھی نہیں! ان کی کامیابی ان کے والدین اور ان کے کوچز کی بدولت ہے۔
اگرچہ ہمارا ملک معاشی مشکلات کا شکار ہے مگر ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ اپنے کھلاڑیوں کی بہترین تربیت نہ کر سکیں۔ کھلاڑیوں کے ساتھ ناروا سلوک کیوں؟ ان کو جدید سہولتیں کیوں نہیں فراہم کی جاتیں؟ 125 کلوگرام کی ریسلنگ کیٹیگری کے ریسلر نے میڈیا کے سامنے شکوہ کیا کہ بھارت کے کھلاڑی امریکہ میں دو‘ دو سال تک ٹریننگ کرتے ہیں اور ہم گھر سے اٹھ کر مقابلے کیلئے چلے جاتے ہیں۔ ریس میں حصہ لینے والے ایتھلیٹ کے ساتھ ان کے کوچ موجود نہیں تھے اور انہوں نے بازو پر لکھا ہوا تھا: مس یو کوچ۔ یقینا یہ تمام ایتھلیٹس‘ کوچز اور ان کے گھر والے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اتنی مشکلات اور نامساعد حالات کے باوجود وہ میڈل جیت کر لائے ہیں۔