سیلاب جہاں اپنے ساتھ بہت تباہی لاتا ہے‘ وہاں اس کے ساتھ بہت سی بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔ماہرین کے مطابق سیلاب تین طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو شدید بارش کی وجہ سے جنم لیں۔ دوسرے وہ جو دریائوں میں طغیانی یا برف کے تودے اور گلیشیرز کے پگھلنے کی وجہ سے جنم لیتے ہیں اور تیسرے وہ جو ساحلی علاقوں میں سمندری طوفانوں یا اُس زلزلے کی وجہ سے آتے ہیں جس سے سونامی کی شدید لہریں پیدا ہوتی ہیں اور وہ سیلاب کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔ پاکستان کو اس وقت پہلی دو اقسام کے سیلابوں کا سامنا ہے۔ جون؍ جولائی سے ہونے والی مون سون کی مسلسل بارشوں سے دریائوں میں طغیانی آ چکی ہے جس کی وجہ سے ملک کے بیشتر علاقے زیرِ آب آ گئے ہیں۔ 2010ء میں بھی پاکستان میں ایک بے رحم سیلاب آیا تھا جس سے لوگ بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ اب 2022ء میں آنے والے سیلاب نے بھی ملک کے چاروں صوبوں کو متاثرکیا ہے اور جس سے شدید جانی و مالی نقصان بھی ہوا ہے۔ اب تک 1200 سے زائد افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ مالی نقصان کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں۔ پانی کی بے رحم لہریں اپنے ساتھ مال مویشی اور لوگوں کی عمر بھر کی جمع پونجی بہا کر لے گئی ہیں۔ دوسری طرف سیلابی ریلوں سے ہزاروں عمارتیں اور مکانات بھی منہدم ہو چکے ہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ بیشتر لوگ تیراکی نہیں سیکھتے اس لیے ڈوبنے کے زیادہ واقعات پیش آتے ہیں؛ تاہم سیلابی ریلے بھی اتنی شدت سے آتے ہیں کہ انسان ان لہروں کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔ سیلابی پانی جہاں جہاں سے گزرتا ہے‘ وہاں تباہی کے ساتھ ساتھ گندگی اور تعفن بھی پھیل جاتا ہے۔ لوگ سیلابوں سے بچنے کے لیے جن محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی کرتے ہیں‘ وہاں مناسب رہائش کا انتظام نہیں ہوتا اور بیت الخلا کی عدم دستیابی اور گندے پانی کی وجہ سے مزید بیماریاں پھیل جاتی ہیں۔ سیلاب جہاں انسان کو مالی نقصان پہنچاتا ہے‘ وہاں نفسیاتی‘ دماغی اور جسمانی طور پر بھی شدید متاثر کرتا ہے۔ اس کے منفی اثرات معاشی اور طبی طور پر انسانوں پر طویل عرصہ تک رہتے ہیں۔ زلزلے، طوفانوں اور سیلابوں کی خوفناکی اور تباہی لوگوں کے دماغ پر لمبے عرصے کے لیے نقش ہو جاتی ہیں۔
طبی ماہرین کہتے ہیں کہ سیلاب کے دوران بہت سی بیماریاں گندگی کے باعث پھیلتی ہیں۔ سیلاب متاثرین میں پیٹ کی بیماریاں، سانس کی بیماریاں، پھیپھڑوں میں انفیکشن، اسہال، ہیضہ، ڈینگی، یرقان، ہیپاٹائٹس اے، بخار اور نزلہ‘ زکام جیسی بیماریاں زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں۔ اس کے ساتھ نفسیاتی طور بھی ان کو شدید دھچکا لگتا ہے۔ اس دوران جانوروں اور کیڑے مکوڑوں بالخصوص سانپ کے کاٹنے کے متعدد واقعات پیش آتے ہیں۔ شیلٹر نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ہائپو تھرمیا کا شکار ہو جاتے ہیں اور جسم کا درجہ حرارت گر جاتا ہے۔ انسان مسلسل پانی اور بارش میں رہے تو اس کو ٹھنڈ اور تکلیف محسوس ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگ سانس لینے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ عارضی خیموں میں لوگ سماجی کنارہ کشی نہیں کر سکتے‘ لہٰذا کووڈ کو پھیلائو کے خطرے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس دوران لوگوں کی قوتِ مدافعت ویسے ہی کم ہوتی ہے اس لیے اس بار سیلاب متاثرین میں کووڈ پھیلنے کے خدشات بھی زیادہ ہیں۔ سیلاب کے دوران ڈوبنے، چوٹ لگنے، فریکچر اور معذور ہو جانے تک کے واقعات کثرت سے پیش آتے ہیں۔
آنکھوں کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سیلاب کے دوران آنکھوں کی بہت سی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جن میں آشوبِ چشم عام ہے۔ اس میں آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں‘ چپکنے لگتی ہیں اور سر میں درد اور بخار کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ یہ ایسا مرض ہے جو ایک مریض سے دوسرے افراد کو بھی لگ جاتا ہے اور ایسی آفات کی صورت میں چونکہ سماجی کنارہ کشی ممکن نہیں ہوتی لہٰذا یہ مرض تیزی سے پھیلتا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں بھیجی جانے والی میڈیکل ٹیموں میں آنکھوں‘ کان‘ ناک‘ گلے اور پیٹ کے امراض کے ڈاکٹر کے علاوہ ماہرینِ نفسیات بھی ضرور ہونے چاہئیں۔
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ سیلاب‘ زلزلے اور طوفان وغیرہ ایسی قدرتی آفات ہیں جو اپنے ساتھ ٹراما بھی لاتی ہیں۔ لوگ ان کے بعد ''پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈِس آرڈر‘‘ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ نفسیاتی دبائو، انزائٹی اور ڈپریشن بھی اُن لوگوں میں عام پایا جاتا ہے جو کسی آفت سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ فوبیا کا بھی شکار ہو جاتے ہیں ان کو بار بار رونا آتا اور ڈر لگتا ہے۔ سیلاب کے دور کو ماہرین تین حصوں میں دیکھتے ہیں؛ پری فلڈ، ڈیورنگ فلڈ اور آفٹر فلڈ۔ یہ تینوں حصے الگ الگ طرح سے انسانوں کو متاثر کرتے ہیں۔ اس دوران اگر انسان کسی بیماری یا چوٹ کا شکار ہو جائے تو جسمانی کے ساتھ نفسیاتی امراض کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح‘ اگر کسی کے سامنے عمارتیں مہندم ہوں یا لوگ مر جائیں تو اس کا نفسیاتی اثر بھی بہت زیادہ اور خاصا منفی ہوتا ہے اور اس کا علاج بھی طویل مدتی ہوتا ہے۔ بہت سے مریض تھراپی سے ٹھیک ہو جاتے ہیں اور کچھ کو ادویات دینا پڑتی ہیں‘ خاص طور پر وہ جو بے خوابی کا شکار ہو جائیں‘ بات بے بات ڈرنے اور رونے لگیں۔ اکثر ایسے مریض اپنے معمولاتِ زندگی کی طرف کم ہی لوٹ پاتے ہیں۔
ماہرینِ امراضِ جلد کا کہنا ہے کہ سیلاب کے بعد بہت سے جلدی امراض بھی پھیل جاتے ہیں جن میں سکن انفیکشن ایک عام بیماری ہے۔ اس کے سبب پورے جسم پر پھوڑے اور دانے نکل آتے ہیں۔ فنگل اور ناخنوں کے انفیکشن بھی ہو جاتے ہیں۔ سر میں دانے نکل آتے ہیں‘ زخم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح سیکیبز (scabies) کا مرض لاحق ہو جاتا ہے جو ایک چھوٹے سے کیڑے سے ہوتا ہے اور جس سے شدید خارش ہوتی ہے۔ چونکہ ایسے وقت میں سب اکٹھے رہ رہے ہوتے ہیں‘ لوگ نہا نہیں سکتے‘ صفائی ستھرائی کا زیادہ خیال نہیں رکھ سکتے لہٰذا اس وجہ سے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ گندے پانی کی وجہ سے جسم اور پیٹ کی بھی بہت سے بیماریاں پھیل جاتی ہیں۔ پیراسائٹس بھی بہت سی بیماریاں پھیلاتے ہیں۔ زخموں میں کیڑے، مائٹس اور ورم (worm) پڑ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیلاب میں جلد کی ہرپیز (herpes) نامی بیماری بھی پھیل جاتی ہے جوبہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔
ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیلاب کے دوران اور بعد ازاں عارضی خیمہ بستیوں میں خواتین کو زیادہ طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ متاثرین کے پاس طبی سہولتوں کا فقدان ہوتا ہے اس لیے حمل اور زچگی کے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ باقاعدہ واش رومز دستیاب نہ ہونے کے باعث پیشاب اور مثانے کے مسائل بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اکثر ایسے وقت میں پیشاب کو روک کر رکھا جاتا ہے تاکہ بار بار قضائے حاجت کیلئے نہ جانا پڑے اس سے گردے کے مسائل بھی شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی طرح کے مسائل کا سامنا خواتین متاثرین کو کرنا پڑتا ہے۔
جب سیلاب متاثرین کی مدد کی جائے تو یہ ضرور دیکھا جائے کہ امدادی سامان میں کیا کیا موجود ہے۔ کھانے پینے کی اشیا‘ جن میں کھجوریں‘ بسکٹ‘ خشک دودھ‘ بھنے ہوئے چنوں اور ٹن فوڈ کے علاوہ ادویات‘ او آر ایس‘ روئی اور ہینڈ سینی ٹائزر وغیرہ ضرور دیں۔ اس کے علاوہ پانی کو صاف کرنے والی گولیاں‘ کلوریں‘ مچھر دانیاں‘ نیٹ‘ صابن اور ہینڈ واش بھی امداد میں دیے جانے چاہئیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ہنگامی بنیادوں پر سیلاب متاثرین کی ویکسی نیشن بھی کی جائے۔ کورونا، ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ اور فلو کے علاوہ بچوں کو انسدادِ پولیو کی ویکسین بھی دی جائے۔