گلیات کے مسائل اور سیاحت

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے شمار خوبصورت مقامات سے نوازا ہے۔ ذرا سی توجہ سے ہم ان کو پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بناسکتے ہیں لیکن اس جانب کسی کی توجہ ہی نہیں ہے۔ اس ملک میں سب کی توجہ صرف سیاست پر مرکوز ہے۔ خدمت کا شوق کسی کو نہیں ہے۔ مجھے جب بھی وقت ملتا ہے میں گلیات کی طرف نکل جاتی ہوں۔ یہ خطہ اتنا خوبصورت ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسلام آباد سے انسان تھوڑی سی دیر میں یہاں پہنچ جاتا ہے۔ شہر کے شور سے دور‘ قدرتی ماحول کے قریب انسان بہت سکون محسوس کرتا ہے۔ یہاں تک جانے کی سڑکیں بھی اچھی بنی ہوئی ہیں اور سڑک پر موٹروے پولیس بھی متحرک اور اپنے فرائض سرانجام دیتی نظر آتی ہے۔ کوئی بھی مسئلہ ہوجائے تو یہ فوراً حاضر ہوکر آپ کی مدد کرتے ہیں لیکن جیسے ہی ایکسپریس وے سے مری اور گلیات کی طرف مڑتے ہیں تو مسائل کا آغاز ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے ایک بدصورت بازار آتا ہے۔ کیا سیاحتی فروغ کے لیے اس کو لکڑی یا پتھروں کی مدد سے خوبصورت نہیں بنایا جا سکتا؟ جہاں پر گاڑی کی پارکنگ کی اجازت نہیں ہے‘ وہاں پتھروں سے مزین خوبصورت فرش کیوں نہیں بنائے جا سکتے؟ یونان اور سوئٹزرلینڈ جیسے ملکوں میں ایسی ہی تعمیرات نے ان جگہوں کا حسن دوبالا کردیا ہے۔ ہم یورپ میں ان مقامات کو دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ کسی فیری ٹیل میں آگئے ہیں۔ خیر‘ یہ تو میں کچھ زیادہ ہی فرمائش کررہی ہوں‘ بنیادی ضروریات کی بات کی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ اس راستے میں کہیں بھی آپ کو واٹر فلٹریشن پلانٹ یا پبلک واش رومز نظر نہیں آتے۔ پٹرول پمپس کے واش روم میں جائیں تو وہاں بھی ریٹ بیس سے پچاس روپے کے درمیان ہے۔ مہنگے فوڈ چین بھی یہی کہتے ہیں کہ پہلے کوئی چیز خریدیں‘ اس کے بعد واش روم استعمال کریں یعنی پبلک ٹوائلٹ کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی جبکہ مری ایکسپریس وے پر پانی کے پلانٹس اور پبلک واش رومز ہر جگہ دستیاب ہونے چاہئیں۔عجیب معاشرہ ہے کہ جہاں واش روم استعمال کرنے کے بھی پیسے لیے جاتے ہیں حالانکہ یہ سہولت تو مفت ملنی چاہیے۔ اس کے بعد جو دوسرا دھچکا آپ کو گلیات میں لگتا ہے وہ ہے ٹوٹی پھوٹی سڑکیں‘ جہاں تک سرکاری تنصیبات ہیں وہاں تک سڑکیں ٹھیک ہیں لیکن آگے جہاں ریسٹ ہائوس اور رہائش گاہیں ہیں‘ وہاں برا حال ہے۔ گاڑی کے ٹائروں کا ان سڑکوں پر ستیاناس ہوجاتا ہے۔ کئی گاڑیاں حادثات کا شکار بھی ہوجاتی ہیں۔ سڑک کے کنارے حفاظتی باڑ بھی نہیں لگی ہوئی۔
گلیات‘ کے پی سے لے کر پنجاب تک پھیلی ہوئی ہیں جن میں سے ایویبہ ، بارا گلی ، چھانگلہ گلی ، ڈونگا گلی ، خیرا گلی ،خانس پور، نتھیا گلی اور ٹھنڈیانی کے علاقے کے پی میں آتے ہیں اور مری‘ جھیکا گلی اور گھوڑا گلی پنجاب کا حصہ ہیں۔ اس وقت دونوں اطراف میں تعمیرات جاری ہیں اور فلیٹس وغیرہ بنائے جا رہے ہیں۔ ہمارا ملک ہر وقت زلزلوں کی زد میں رہتا ہے‘ اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ اس علاقے میں پانچ‘ چھ منزلہ پلازوں کو تعمیر نہیں ہونا چاہیے۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہاں زیادہ سے زیادہ دو یا تین منزلوں کی اجازت ہونی چاہیے۔ ہماری ہائوسنگ پالیسی بھی عجیب ہے، لاہور جیسے شہروں میں جہاں کثیر المنزلہ عمارات کی تعمیر کی گنجائش ہے‘ وہاں دو منزلوں سے زیادہ اونچی رہائشی تعمیرات کی اجازت نہیں اور پہاڑی علاقوں میں پانچ سے چھ مرلے جگہ پر بھی اونچی اونچی عمارتیں‘ بلڈنگیں نظر آئیں گی۔ کیا یہ تعمیرات محفوظ ہیں؟ اس پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ بیشتر عمارتوں میں ایمرجنسی ایگزٹ بھی نہیں ہوتا۔ اگرچہ ان علاقوں میں تعمیرات بھی ضروری ہیں لیکن ان کے لیے درخت کاٹے جارہے ہیں۔ شور‘ تعمیرات اور جنگلات کی کمی سے پورا ایکو سسٹم متاثرہوگا۔ میں نے ان تعمیرات کے پاس ایک بات اور محسوس کی‘ وہ یہ کہ سارا کچرا جنگل میں پھیلایا جارہا ہے اور فضا میں بدبو اور آلودگی پھیلی ہوئی ہے۔ سیمنٹ کے تھیلوں اور تعمیراتی کچرے سے پورا جنگل بھرا ہوا ہے، کئی تھیلے اڑ اڑ کر درختوں میں لٹک رہے ہیں۔ مکھیوں‘ مچھروں اور کیڑوں کی بھی بہتات ہو چکی ہے۔ تعمیراتی کچرا پانی کو بھی آلودہ کر رہا ہے۔ تعمیرات ضرور ہوں لیکن اس بات کا پابند کرناچاہیے کہ جگہ اور ماحول کو صاف رکھا جائے اور جتنے درخت کاٹے جائیں‘ ان کی جگہ مزید درخت لگائے جائیں۔ انتظامیہ سڑکوں کو پکا کرے اور حفاظتی باڑ لگائے۔ گلیات میں پانی اور گیس کا بھی کافی ایشو ہے۔ جب آپ سیاحتی مقامات سے ہٹ کر مضافاتی علاقوں میں جاتے ہیں تو وہاں خاصی غربت نظر آتی ہے۔ لوگ گیس کا سلنڈر تک افورڈ نہیں کرسکتے اور لکڑیاں کاٹ کر لے جاتی خواتین آپ کو بڑی تعداد میں نظر آئیں گی۔ اسی طرح پانی کی کمی کی وجہ سے لوگ جھرنوں سے پانی بھر کر لے جارہے ہوتے ہیں۔ گلیات میں آبی ذخائر تو بہت ہیں لیکن پائپ لائن بچھا کر پانی کو گھروں‘ ہوٹلوں اور فلیٹس تک پانی پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے جس کونبھانے میں وہ ناکام نظر آتی ہے۔ گلیات میں پانی کی قلت اب ایک سنگین مسئلہ بنتی جارہی ہے۔ یہاں پر گیس اور پانی نہیں ہوگا تو ترقی کیسے ہو گی؟یہاں آنے والے سیاح بھی اس مسئلے سے شدید دقت اٹھاتے ہیں؛ تاہم جو امرا کی رہائش گاہیں اور سیاحتی مقامات ہیں‘ وہاں پر ایسے مسائل نہیں ہیں۔وہاں مہنگے اے سی لگے ہیں جو گرمیوں میں ٹھنڈی ہوا اور سردیوں میں گرم ہوا پھینکتے ہیں۔ بجلی کے گیزر اور ہیٹر لگے ہیں‘ جو ہیوی جنریٹرز پر چلتے ہیں۔ انہوں نے بجلی‘ پانی اور گیس کے لیے بھی بندوبست کر رکھا ہے مگر عام سیاح اور یہاں رہنے والے لوگ بہت تکلیف کا سامنا کرتے ہیں۔
اگر سردیوں کی بات کریں تو بہت سے لوگ اس موسم میں یہاں سے نقل مکانی کرجاتے ہیں۔ جو نقل مکانی نہیں کرسکتے وہ سخت سردی‘ بارش اور برف باری میں بنا گیس اور پانی کیسے گزارہ کرتے ہوں گے‘ یہ ہم جیسوں کیلئے سوچنا بھی محال ہے۔ میں نے یہ بات بھی محسوس کی ہے کہ گلیات میں اس وقت پانچ سے چھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے جس سے شہریوں کی اذیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ ان علاقوں میں کچرے کا ہے جو میونسپلٹی کے ادارے روز نہیں اٹھاتے۔ اس پر لوگ کچرا جلانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس سے جنگلات میں بھی آگ لگ سکتی ہے۔ یہاں پر بڑے ہسپتالوں کی بھی کمی ہے، خاص طور پر کتے یا سانپ کے کاٹے کی ویکسین موجود نہیں‘ جوان علاقوں میں موجود ہونا ازحد ضروری ہے۔
اس طرح ایک اور اہم مسئلہ جو ان علاقوں میں درپیش ہے وہ یہاں موبائل اور انٹرنیٹ کے سگنلز کا کمزور ہونا ہے۔ یہاں آکر آپ اپنا دفتری کام نہیں کرسکتے کیونکہ انٹرنیٹ نہیں آرہا ہوتا اور موبائل کے سگنلز بھی بہت کمزور ہوتے ہیں۔ کام کرنے والا شخص اسی وجہ سے دو دن میں ہی تنگ پڑ جاتا ہے اور تفریح ختم کرکے واپس شہر کا رخ کرتا ہے۔ اگر سیاح اتنی کوفت محسوس کرتے ہیں تو مقامی آبادی انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کے باعث کن مشکلات کا شکار ہوتی ہو گی‘ اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ جب کسی سیاحتی مقام پر پانی‘ بجلی‘ گیس اور انٹرنیٹ ہی نہیں ہوگا تو سیاحت کو کیسے فروغ ملے گا؟سیاح تو اپنا ٹرپ مختصر کرکے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں لیکن مقامی آبادی نے تو وہیں رہنا ہوتاہے‘ ان کی شنوائی کون کرے گا؟ اس وقت کے پی اور پنجاب‘ دونوں صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جو سیاحت کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست بتاتی ہے لہٰذا اسے چاہیے کہ فوری طور پر ان مسائل کا ازالہ کرے۔ علاوہ ازیں سرکاری ریسٹ ہائوسز کو عام عوام کیلئے کھولا جائے۔ ایک موبائل ایپ ہونی چاہئے جس سے سیاح مطلوبہ علاقوں میں سرکاری ریسٹ ہائوسز کی بکنگ کروا سکیں۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ سرکاری ریسٹ ہائوس کی بکنگ اس وقت تک نہیں ہو پاتی جب تک کوئی جان پہچان یا اپروچ نہ ہو۔
مقامی آبادی اس وقت بہت سے مسائل میں گھری ہوئی ہے جن میں غربت‘ ناخواندگی‘ ٹوٹی ہوئی سڑکیں‘ سکولوں اور ہسپتالوں کی کمی، گیس اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی، پانی کی قلت، کچرا، گندگی اور آلودگی سرفہرست ہیں۔ مہنگے تفریحی مقامات سے باہر نکل کر دیکھیں‘ مقامی آبادی غربت کا شکار ہے۔ تعمیرات سے قدرتی ماحول متاثر ہو رہا ہے۔ گلیات کا حسن مانند پڑ رہا ہے‘ ملک میں پہلے ہی تفریحی مقامات محدود ہیں‘ان کو مزید برباد نہ کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں