اساتذہ کے ساتھ محبت و احترام کا وہی رشتہ ہوتا ہے جو ہمارا اپنے والدین کے ساتھ ہوتا ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب روتے ہوئے مجھے میرے والدین نرسری کلاس میں لے کر گئے تو میڈم ناصرہ نے میرے آنسو صاف کر کے مجھے گلے لگایا تھا اور کہا تھا کہ ماما‘ بابا کو گھر جانے دو‘ میں ہوں نا! ہم کھیلیں گے‘ مل کر پڑھیں گے۔ میں سب بھول بھال کر بلاکس سے کھیلنے لگ گئی۔ ایک دن سکول کے ساتھ ہم سب بچے چڑیا گھر کے ٹرپ پر گئے۔ وہاں ایک بچہ سلائیڈ سے نیچے گر گیا۔ ہم سب ڈر گئے۔ وہ بہت رو رہا تھا مگر میڈم ناصرہ اس کو چپ کرا رہی تھیں۔ پھر انہوں نے فرسٹ ایڈباکس نکالا اور اس کی مرہم پٹی کی۔ وہ سراپا محبت تھیں۔ ان کی وجہ سے ہی ہمارے سکول میں نرسری‘ پریپ اور کلاس ون کے بچے بہت جلدی سکول کے ماحول میں ایڈجسٹ ہوجاتے تھے۔ اکثر افراد اپنے بچپن یا سکول کی باتیں بھول جاتے ہیں لیکن میرے والدین اور ہماری سکول پرنسپل کو فوٹوگرافی کا بہت شوق تھا۔ ان کی کھینچی ہوئی تصاویر سے بچپن کے وہ اوراق بھی یاد آجاتے ہیں جو میں بھول چکی تھی۔ کئی تصاویر ایسی ہیں جن کو دیکھ کر ماضی کی ایک فلم ذہن کے پردوں پر چلنے لگتی ہے اور وہ وقت یاد کرکے لبوں پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ ہمارے سکول میں کینٹین پر چپس‘ جیلی‘ آئس کریم‘ ٹافیاں اور لالی پاپ سمیت سب کچھ ملتا تھا۔ میڈم ناصرہ سب بچوں کی لائن بنواکر وہاں لے جاتیں اور سب بچے اپنی پسند کی چیزیں خرید لیتے لیکن وہ گھر سے لنچ لانے پر خوب ضرور دیتی تھیں۔ وہ بچوں کویہ بھی کہتی تھیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ اپنا لنچ شیئر کیا کریں‘ اس سے دوستی و محبت بڑھتی ہے۔ وہ ہمیں نظمیں سناتیں، سب بچوں کو گلے لگا کر ویلکم کرتیں اور گلے لگا کر ہی رخصت کرتی تھیں۔
جب میں پرائمری سکول میں آئی تو ہماری کلاس ٹیچر امِ کلثوم تھیں۔ وہ اتنی پیاری اور محبت کرنے والی تھیں کہ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ انہوں نے مجھے یا کسی دوسرے بچے کو کبھی ڈانٹا ہو۔ میری کلاس میں کئی شرارتی لڑکے‘ لڑکیاں پڑھتے تھے جوبریک کے بعد کلاس میں ایسے آتے تھے جیسے مٹی میں کھیل کر آئے ہوں۔ میڈم سب کو پیار سے کہتیں کہ جا کر ہاتھ‘ منہ دھوئیں۔ آیا اماں سب کی مدد کرتیں۔ میں شروع سے تقریر ‘ کہانی لکھنے اور پینٹنگ میں دلچسپی لیتی تھی اور گرائونڈ میں کھیلنے کے لیے زیادہ نہیں جاتی تھی۔ جب میڈم کلثوم نے یہ دیکھا تو انہوں نے میرا نام مارچ پاسٹ، پی ٹی اور والی بال ٹیم میں ایڈ کرا دیا۔ میڈم عظمت یونین کی ہیڈ تھیں اور پی ٹی اور مارچ پاسٹ کی نگرانی بھی کرتی تھیں۔ ہم سب کی جان اُن کو دیکھ کر نکلنا شروع ہوجاتی تھی۔پانچ فٹ آٹھ انچ قد‘ گورا رنگ اور ڈسپلن کی انتہائی پابند۔ ان کے ساتھ پی ٹی کرنا مشکل ترین کام تھا۔ ناخن تراشے ہوئے ہوں‘ یونیفارم صاف ہو‘ بیج پہنا ہو‘ بال اچھی طرح بندھے ہوں۔ ہنسنے‘ بولنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ان کے ساتھ میڈم فاطمہ اسسٹنٹ کے طور پر ہوتی تھیں۔ وہ بہت کم عمر تھیں اور سپورٹس کی تعلیم حاصل کر کے آئی تھیں۔ ان کے ساتھ ہم سب دوستوں کی طرح رہتے لیکن میڈم عظمت کے آتے ہی ہم سب ایسے چپ ہوجاتے کہ سوئی بھی گرے تو آواز آئے۔ میں میڈم کلثوم سے کہتی تھی کہ مجھے کھیلوں کا کوئی شوق نہیں‘ وہ کہتیں: اسی لیے تمہیں بھیجا ہے تاکہ کھیل کے میدان، سپورٹس روم اور جمنازیم کی شکل دیکھ لو۔
فن فیئر کے موقع پر ہر کلاس نے سٹال لگانا ہوتا تھا۔ زیادہ تر ہماری کلاس جیت جاتی تھی کیونکہ اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہوتا تھا‘ ساری محنت میڈم کلثوم کی ہوتی تھی۔ اس دور میں ہم سب نے اساتذہ سے پیار‘ محبت اور شفقت سمیت بہت کچھ حاصل کیا۔ اس کے بعد جب سینئر کلاسوں کا آغاز ہوا تو بہت سے نئے مضمون بھی نصاب میں شامل ہوگئے جن میں عربی اور کمپیوٹر مشکل سبجیکٹ تھے۔چار سال تک ایک پیاری سے لڑکی ہماری ٹیچر رہیں۔ ان کا نام ریحانہ فارس تھا‘ اب شادی کے بعد وہ ریحانہ کیانی کہلاتی ہیں۔ وہ ہر وقت سکارف میں ملبوس رہا کرتی تھیں اور صوم و صلاۃ کی بہت پابند تھیں۔ ان کو دیکھ کر بہت سے بچے متاثر ہوئے اور مذہب کے قریب ہوگئے۔ انہوں نے کلاس میں زیرو پیریڈ کا آغاز کیا جس میں وہ بچوں کو ناظرہ پڑھاتیں، اس کے بعد خوشخطی اور مضمون نویسی۔ اس کے بعد اسمبلی ہوتی اور روٹین کی پڑھائی کا آغاز ہوتا۔ جو بچے پڑھائی میں کمزور ہوتے‘ وہ ان کو بریک میں لنچ کے بعد بلالیتیں اور ان پر خصوصی توجہ دیتیں۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ کیا اب بھی ایسے اساتذہ ہوتے ہیں جو روٹین کی پڑھائی کے علاوہ طالب علموں کی کردار سازی میں بھی حصہ لیں۔ میڈم ریحانہ کے فرائض میں شامل نہیں تھا کہ وہ ہماری دینی تربیت کرتیں‘ خوشخطی کراتیں‘ انگریزی لکھنا اور بولنا سکھاتیں‘ ناظرہ قرآن پڑھاتیں‘ نماز یاد کراتیں لیکن انہوں نے یہ سب کچھ کیا کیونکہ وہ ہم سب سے بہت پیار اور اپنے شعبے سے محبت کرتی تھیں۔ ان کے طالب علم آج اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور وہ آج بھی ہمارے لیے سراپا پیار‘ محبت اور ہمہ وقت دعاگو رہتی ہیں۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب ہم انٹر سکول مقابلوں میں جاتے تھے تو وہ ہمیں اپنی جیب سے پیسے دیتیں اور کہتیں کہ جیتنے کے بعد کینٹین میں دعوت کھاکر‘ ٹرافی لے کر واپس سکول آنا۔ ان کو ہمیشہ ہماری جیت کی امید ہو تی تھی۔ میں نے ان کے زیرِ سایہ تقریر‘ مضمون نویسی‘ ڈرائنگ اور ملی نغموں میں آل پاکستان مقابلوں میں انعام جیتے۔ آج بھی وہ سرٹیفکیٹس اور میڈلز میرے کمرے کی دیواروں پر سجے ہیں۔ میڈم نقوی، میڈم رفعت، میڈم ممتاز، میڈم قیصر، سر علی اور سر امجد نے بھی ہمیں پڑھائی میں بہت معاونت فراہم کی۔ سب سے زیادہ شرارتیں کیمسٹری کی لیب میں ہوتی تھیں۔ میڈم رفعت دھیمے لہجے میں کہتیں: بچو! شرارتیں مت کریں۔ وہ پرائمری میں بھی میری ٹیچر تھیں اور ہائی سکول میں بھی۔ ایک بار تو ہم نے حد ہی کر دی۔ لیب میں فلاسک سے ٹکراگئے اور ہائیڈرو کلورک ایسڈ گر گیا۔ یہ ایک ایسا ملحول ہے کہ انسان کو جھلسا سکتا ہے۔ ہم کافی شرمندہ ہوئے لیکن میڈم رفعت نے اس دن بھی ہمیں نہیں ڈانٹا، بس کچھ خفا سی ہوگئیں۔ہمیں کافی شرمندگی ہوئی اور ان کو سوری کہا اور آئندہ لیب میں شرارتوں سے گریز کیا۔ سپورٹس روم میں میڈم راشدہ ہوتی تھیں جن سے ریکٹ‘ بیڈمنٹن اور بیٹ بال ایشو کراکے ہم خوب کھیلتے۔ ان تمام اساتذہ نے ہماری زندگی پر گہرا اثر ڈالا اور ان کی محبت اور شفقت لے کر جب ہم سب کالج‘ یونیورسٹی اور عملی زندگی میں گئے تو کامیابیاں ہمارا مقدر بن گئیں۔
کالج میں چونکہ میں اردو سوسائٹی کا بھی حصہ تھی‘ اسسٹنٹ پروفیسر میڈم عارفہ نے میری لکھنے اور بولنے کی صلاحیتیوں کو پروان چڑھایا۔ میں نے مضمون نویسی‘ تقریر اور مباحثوں میں ان کی معاونت سے حصہ لیا اور کالج کیلئے دو بار گردشی نشانِ ظفر جیتا۔ جیوگرافی سوسائٹی کے تحت بہت سے مقابلوں میں حصہ لیا‘ اسی طرح متعدد کوئز مقابلوں میں شرکت کی جن کی تیاری میڈم نائرہ نے کرائی۔ ہم سب جیوگرافی لیب میں نقشے بناتے تھے‘ ہمارے شوق کو دیکھ کر لیب کالج کے وقت کے بعد بھی‘ تین بجے تک کھلی رہتی تھی۔ مجھے جیوگرافی میں سبجیکٹ پرائز ملا تھا۔ اچھے اساتذہ نے ہمیں ایک یادگار تعلیمی دور فراہم کیا۔ پروفیسر انیلہ، پروفیسر شہناز، پروفیسر نائرہ، اسسٹنٹ پروفیسر ثمینہ رحیم، میڈم شاہدہ،اسسٹنٹ پروفیسر شاہد، پروفیسر ثاقب اور دیگر قابلِ احترام اساتذہ‘ جو ہماری رہنمائی کیلئے ہروقت موجود ہوتے تھے‘ ان سب کا بہت شکریہ! ہمارے الفاظ ان کی خدمات کے آگے بہت کم ہیں لیکن ہم ان کی صحت‘ زندگی‘ عزت اور وقار کے لیے ہمیشہ دعاگو رہیں گے۔ اسسٹنٹ پروفیسر شاہد طالبعلموں پر خصوصی توجہ دیتے تھے جس کی وجہ سے تھیوری اور پریکٹیکل کافی آسان ہوجاتے۔ یہاں پر میں ان اساتذہ کا بھی ذکر کرنا چاہتی ہوں جنہوں نے ہمیں دینی تعلیم دی۔ ان میں مسز حکیم اللہ، حافظ محمد طارق، مسز یاسیمن اور سمیحہ راحیل قاضی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ ان اساتذہ کا بھی بہت شکریہ جو ہمیں دین کی طرف لائے۔ جولوگ اپنے اساتذہ کا احترام کرتے ہیں وہی کچھ بن پاتے ہیں اور جو اس ادب و احترام سے محروم رہتے ہیں‘ وہ بے فیض رہ جاتے ہیں۔
باادب بامراد، بے ادب بے مراد