جب سے یہ ملک بنا ہے‘ عوام روٹی‘ کپڑا اور مکان کے چکر میں ہی پس رہے ہیں۔ یہاں اشرافیہ امیر سے امیر ہوتی رہی اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے رہے۔ ہر حکمران نے عوام کی فلاح و بہبود کا نعرہ لگایا لیکن عوام کے لیے کچھ بھی نہیں بدلا۔ ملک پہلے بھی نازک دور سے گزر رہا تھا اور اب بھی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ملک ہم سے آگے نکل گئے ہیں اور ہمارے حکمران آج بھی امداد کی اپیل کے ساتھ عالمی برادری کے سامنے ہاتھ پھیلا رہے ہیں۔ امداد تو آتی رہتی ہے‘ مختلف مدات میں فنڈز بھی ملتے رہتے ہیں لیکن پتا نہیں کہ یہ پیسہ جاتا کہاں ہے۔ 2005ء میں آئے زلزلے کے متاثرین کی آبادکاری اب تک نہیں ہو سکی‘ ایسے میں یہ امید رکھنا کہ سیلاب زدگان اپنی معمول کی زندگیوں میں لوٹ سکیں گے‘ خوش فہمی تو سکتی ہے‘ حقیقت پسندی نہیں۔ اس ملک میں عوام کو روٹی اور کپڑا ہی پورا نہیں پڑتا‘ مکان تو بہت دور کی بات ہے۔ ایک عام شخص کی ساری زندگی محض اسی جدوجہد میں گزر جاتی ہے کہ دو وقت پیٹ بھر کر روٹی مل جائے۔ اس کے بعد کپڑا اور دوائی کا معاملہ آتا ہے۔ غریب شخص تو بڑی چیزوں کے خواب تک نہیں دیکھتا‘ اس کو قبر کے لیے دو گز جگہ عزت سے مل جائے تو یہی بڑی بات ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں وہ اچھی تعلیم‘ ذاتی سواری‘ تفریح‘ پلاٹ‘ گھر یا پُرآسائش زندگی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
اس وقت وزیراعظم‘ وفاقی وزرا اور کئی معاونین سوئٹزرلینڈ کی حسین وادیوں میں گھوم رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت جنیوا کی ڈونر کانفرنس میں عالمی برادری سے سیلاب زدگان کے لیے امداد کی اپیل کرے گی۔ حکومتی وفد کا مہنگے ہوٹلز میں قیام ہو گا‘ مہنگے ترین برانڈز کے کپڑے اور جوتے پہن کر غریب عوام کی بات ہو گی۔ ہنسی مذاق میں یہ کانفرنس ہو گی اور پاکستان کے مستقبل کا تعین بھی یورپ کی یخ بستہ ہوائوں میں ہو گا۔ برف باری میں تو سوئٹزرلینڈ اور بھی حسین لگتا ہے۔ غریب عوام تو چھٹیوں میں مری تک نہیں جا سکتے‘ لیکن اس ملک کے امیر حکمران حکومتی خزانے پر دنیا بھر کی سیر کر لیتے ہیں۔ اس سے قبل جب ملک میں سیلاب آیا ہوا تھا‘ ہمارے سیاستدان حکومتی خرچ پر نیاگرا آبشار کے سحر انگیز نظارے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ویسے امداد دینے والے بھی سوچتے ہوں گے کہ اتنے امیر حکمران‘ جو کئی کئی لاکھ روپوں کا جوتا پہنتے ہیں‘ وہ اپنی دولت سے ہی اپنے عوام کی مدد کیوں نہیں کرتے‘ ان کو ہماری امداد کی کیا ضرورت ہے۔ اس وقت حکومت زرِمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر پہنچنے کے باعث معاشی مجبوریوں کا رونا رو رہی ہے۔ ملک میں ڈالرز ختم ہو چکے ہیں‘ حالانکہ سیاسی اشرافیہ کی بیرونِ ملک جو جائیدادیں ہیں‘ وہ کس سے ڈھکی چھپی ہیں؟ اگر سب سیاستدان بیرونِ ملک موجود اپنی دولت ہی پاکستان لے لائیں تو پاکستان کی معیشت کو سنبھالا مل جائے گا مگر ایسا ہوگا نہیں۔ بعض اوقات میں حد سے زیادہ خوش فہم ہو جاتی ہوں۔ اس وقت میں ایک ذاتی نوعیت کے صدمے سے دوچار ہوں اور اپنے دکھوں اور مصائب میں گھل رہی ہوں لیکن ان حالات میں بھی مجھے سیلاب زدگان نہیں بھولتے۔ میں 2010ء کے سیلاب کو خود کور کر چکی ہوں‘ اس لیے جانتی ہوں کہ سیلاب کی تباہ کاریاں کیا ہوتی ہیں اور عوام اس سے کیسے متاثر ہوتے ہیں۔ 80 لاکھ سیلاب زدگان اس وقت بھی‘ سخت سردی میں‘ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوئے ہیں۔ سندھ کے بہت سے اضلاع میں ابھی تک سیلاب کا پانی کھڑا ہے مگر ان کی مدد کے لیے کام سست روی کا شکار ہے۔ گزشتہ روز سومیانی کے علاقے میں ایک سیلاب متاثرہ خاندان کا تین سالہ بچہ سردی سے ٹھٹھر کر ہلاک ہو گیا۔ پوری دنیا سے سیلاب زدگان کے لیے امداد آئی مگر یہ امداد کہاں چلی جاتی ہے‘ یہ اب تک ایک معمہ ہے۔
جس ملک کے حکمران اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہوں‘ وہاں عوام غریب اور مفلس ہی رہتے ہیں۔ سیلاب آ جائے‘ زلزلہ آ جائے تو ہم دنیا کی طرف امداد طلب نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں لیکن جب کوئی سیاسی معاملہ درپیش ہو تو تجوریوں کے منہ کھل جاتے ہیں۔ عوام کا پیسہ بس عوام پر ہی نہیں لگتا۔ اس وقت ہر شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے مگر مہنگائی نے عوام کی کمر ہی توڑ کر رکھ دی ہے۔ عوام دودھ‘ دہی‘ پھل‘ سبزیاں حتیٰ کہ دال اور مرغی تک کو نہیں خرید پا رہے۔ روٹی ایک ایسی چیز ہے جس کے بغیر گزارہ ہی ممکن نہیں۔ کوئی روٹی پر اچار رکھ کر پیٹ پوجا کرتا ہے تو کوئی پیاز یا نمک‘ یا صرف پانی میں ڈبو کر روٹی کھا لیتا ہے مگر شاید اب ایسا کرنا بھی ناممکن ہو گیا ہے کیونکہ پیاز تو قوتِ خرید سے باہر تھا ہی‘ اب روٹی اور آٹے کی قیمت کو بھی پَر لگ گئے ہیں۔ کیا ایک ایٹمی ملک‘ ایک زرعی ملک اپنے عوام کو روٹی بھی نہیں دے سکتا؟ غریب عوام کو بس روٹی ہی تو چاہیے ہوتی ہے‘ وہ اپنی بساط سے بڑھ کر خواب نہیں دیکھتے۔
ڈاکٹر نازیہ میمن نے کل مجھے ایک وڈیو بھیجی‘ یہ وڈیو انہوں نے ٹویٹر پر بھی شیئر کی ہے۔ سندھ کے علاقے میرپور خاص میں سستا آٹا فروخت ہو رہا تھا‘ آٹا کم تھا مگر لوگ زیادہ تھے۔ اس دھکم پیل میں ایک غریب مزدور ہورسنگ کولہی رش اور حبس کی وجہ سے دم گھٹنے سے جاں بحق ہو گیا۔ جب وہ بے جان زمین پر پڑا ہوا تھا‘ تو اس کے پاس آٹے کا تھیلا رکھ دیا گیا۔ زندگی میں تو اس کو آٹا مل نہیں سکا لیکن اس کے بے جان جسدِ خاکی کے پاس آٹے کا ایک تھیلا ضرور رکھ دیا گیا۔ یہ کیسا نظام ہے؟ اس میں اتنی بے حسی اور سفاکی کیوں ہے؟ غریب مزدور کے سات چھوٹے بچے ہیں‘ اپنے گھر کا وہ واحد کفیل تھا۔ جس ملک میں اہم مسئلے یہ ہوں کہ ایک چلتی حکومت کو گھر کیسے بھیجنا ہے‘ موروثی سیاست دانوں کو عوام پر کیسے مسلط کرنا ہے‘ محض ایک ٹویٹ کے بعد پرچہ کہاں درج کرانا ہے اور تشدد کا نشانہ کیسے بنانا ہے‘ آڈیو اور وڈیو لیکس کیسے وائرل کرنی ہیں‘ ایک دوسرے پر دہشت گردی کے مقدمات کیسے درج کرنے ہیں‘ منافرت کیسے پھیلانی ہے وہاں عوام کی فکر کس کو ہو سکتی ہے؟ وہاں کسی کو ہورسنگ کولہی کی زندگی سے یا اس بات سے کہ اس کو آٹا ملا ہے یا نہیں‘ کیا فرق پڑتا ہے۔ غریب مزدور کے مرنے کے بعد اس کے ورثا لاش سڑک پر رکھ کر احتجاج کرتے رہے اور انتظامیہ نے ڈپٹی فوڈ کنٹرولر کے خلاف مقدمہ درج کرانے کی یقین دہانی پر ان کا احتجاج ختم کرا دیا مگر یہاں انصاف کس کو ملتا ہے۔ اب کوئی سیاسی رہنما جائے گا‘ چند ہزار کا چیک دے کر جاں بحق ہونے والے مزدور کے خاندان کی دادرسی کی کوشش کرے گا۔ پھر سب بھول جائیں گے۔ یاد تو صرف اس کے گھر والوں کو رہے گا کہ وہ آٹا لینے نکلا تھا اور پھر زندہ واپس نہیں آ سکا اور کسی نے آٹے کا ایک تھیلا اس کی لاش کے پاس رکھ کر ایک تصویر لی تھی اور سوشل میڈیا پر پھیلا دی تھی۔حساس دل تو اس خبر پر تڑپ اٹھے ہیں لیکن سفاک لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
ڈاکٹر نازیہ بہت حساس ہیں۔ وہ اور میں دکھ سکھ کے ساتھی ہیں‘ ہماری دوستی دو بہنوں کی طرح ہے۔ ارشد کے جانے کے بعد کوئی ایسا دن نہیں گزرا کہ وہ میرا حال نہ پوچھتی ہوں۔ لندن میں رہتے ہوئے بھی ان کو پاکستان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ غربت‘ ناانصافی اور سہولتوں کی کمی ان کو بے چین رکھتی ہے۔ سبھی حساس لوگ اس سانحے پر بہت رنجیدہ ہیں۔ کبھی سنتے تھے کہ روٹی انسان کو کھا جاتی ہے‘ اب دیکھ بھی لیا ہے۔ پاکستان کے غریب طبقے کے پاس پیٹ بھرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے‘ غریب کو کم از کم روٹی تو ملنی ہی چاہیے۔ لنگر خانے پورے ملک میں ہونے چاہئیں تاکہ عوام کھانا تو کھا سکیں۔ ''دیوارِ مہربانی‘‘ پورے ملک میں ہونی چاہئیں تاکہ غریب افراد اپنی ضرورت کی چیزیں لے سکیں۔ جس ملک میں اربوں کی کرپشن ہوتی ہے‘ جہاں کروڑوں روپے امرا کی شادیوں پر لگا دیے جاتے ہیں‘ وہاں غریب عوام سستے آٹے کی لائن میں دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں۔ یہ آٹا غریب عوام کے گھر بھی پہنچایا جا سکتا ہے‘ ایسے بھیڑ بکریوں کی طرح ان کو جمع کرنا‘ یہ سراسر انسانیت کی تذلیل ہے۔ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ عوام کو اور کچھ دے یا نہ دے لیکن انہیں دو وقت کی روٹی عزت و احترام سے ضرور دے۔ حکومت کو چاہیے کہ سیلاب زدگان کی بحالی کی طرف توجہ دے۔ ہورسنگ کولہی تو آٹے کے ایک تھیلے کی تلاش میں زندگی کی بازی ہار گیا‘ کم از کم اس کے گھر والوں کی ہی مدد کر دیں۔ اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کی کفالت کریں‘ بیوہ کا وظیفہ مقرر کریں‘ اہلِ خانہ کو راشن لے کر دیں‘ مالی امداد دیں۔ میں نے اربابِ اختیار سے درخواست تو کر دی ہے کہ اس غریب خاندان کی کفالت و مدد کریں مگر عمومی طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اس ملک کے سبھی غریب لوگ کہیں نہ کہیں ہورسنگ کولہی ہیں‘ جنہیں انصاف ملنے کا امکان دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔