ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

ہمارے ملک میں محنت مشقت کرنے والوں کے لیے حالات بہت خراب ہیں۔ مزدوری کرنے والا طبقہ ہمیشہ آجروں کے استحصال کا شکار رہتا ہے۔ ان کو کم تنخواہیں ملتی ہیں اور ان کو بنیادی سہولیاتِ زندگی بھی میسر نہیں ہو پاتیں۔ ان کی ساری زندگی دو وقت کی روٹی کی جدوجہد میں گزر جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے دور میں انتہائی غریب افراد کے لیے لنگر خانے اور پناہ گاہیں بنائی گئی تھیں لیکن پی ڈی ایم دور میں لنگر خانے‘ احساس پروگرام اور 'کوئی بھوکا نہ سوئے‘ جیسے منصوبے بھی ختم کر دیے گئے۔ ویسے تو شہر بھر میں مگر لاری اڈوں اور ہسپتالوں کے قرب و جوار میں بالخصوص ایسے لوگوں کی بڑی تعداد سڑکوں‘ فٹ پاتھ اور گرین بیلٹس پر سوتی نظر آتی ہے جن کے پاس کسی ہوٹل یا مہمان سرائے میں قیام کے پیسے نہیں ہوتے۔ سخت سردی ہو یا سخت گرمی‘ ان کا مسکن کھلے آسمان تلے پارکس اور سڑکیں ہی ہیں۔ زیادہ دور نہیں جاتے‘ پمز ہسپتال اسلام آباد کا سب سے بڑا سرکاری ہسپتال ہے‘ اس وقت سخت سردی میں اس ہسپتال کے باہر سینکڑوں افراد چادریں اور کمبل لپیٹے بیٹھے اور لیٹے نظر آتے ہیں، ان میں سے بیشتر مریضوں کے لواحقین ہوتے ہیں مگر ان کے پاس مریض کے ساتھ رہنے کا آپشن نہیں ہوتا اور جیب میں اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ کسی قریبی جگہ پر کوئی کمرہ کرائے پر لے سکیں۔ ان کی کوئی شنوائی بھی نہیں کیونکہ پاکستانی اشرافیہ اور حکومت کی توجہ اس طرف ہے ہی نہیں۔ اسی طرح بہت سے لوگ بے گھر ہیں‘ وہ تو ہمہ وقت سر چھپانے سے قاصر ہیں‘ ان کے لیے بھی ریاست کی سطح پر کوئی بندوبست نہیں۔ ہر روز ملک بھر میں لاکھوں لوگ بھوکے پیٹ کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرتے ہیں۔
سڑکوں پر بیٹھے مزدور انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کوئی ان کو کام پر لے جائے‘ ان کی دیہاڑی لگ جائے تو وہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔ آفرین ہے ان افراد پر کہ جس ملک میں ہر روز اربوں روپے کی کرپشن ہوتی ہے‘ وہاں یہ طبقہ محنت کرکے کمانے کو ترجیح دیتا ہے۔ زمین کھود کر، اینٹیں لاد کر، عمارتیں تعمیر کرکے اپنا پسینہ بہاکر یہ چند سو روپے کما پاتے ہیں۔ یہی رزقِ حلال ان کو معتبر بناتا ہے۔ یہی طبقہ سب سے زیادہ عزت و احترام کا حقدار ہے۔ ایسے ہی افراد کیلئے پناہ گاہیں بنائی گئی تھیں کہ یہ آرام سے‘ بستر پر ایک چھت کے نیچے سو سکیں‘ ان کو پیٹ بھر کر مفت کھانا مل سکے‘ عزت کے ساتھ کرسی پر بیٹھ کر یہ چائے پی سکیں‘ ٹی وی دیکھ سکیں‘ اپنا فون چارج کر سکیں۔ یہ تمام سہولتیں ان کو حکومت نے فراہم کی تھیں کہ بے گھر افراد اور لاچار مسافروں کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔ حکومت انتہائی مستحق افراد کو کھانا فراہم کر رہی تھی مگر کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ایک حکومت کے جاتے ہی دوسری حکومت اس کے سارے اچھے منصوبے بندکر دیتی ہے۔ یہ نہیں کہ عوام کا کچھ سوچا جائے کہ ان کا کیا ہو گا‘ کیا ان کے مقدر میں کھلا آسمان اور محض دھکے کھانا ہی ہے۔ یہاں عوامی منصوبوں پر بھی سیاست کی جاتی ہے جس پر عوام رُل کر رہ جاتے ہیں۔
ایک اور بہت مظلوم طبقہ ہے جو محنت‘ مشقت کر کے روزی روٹی کماتا ہے لیکن ان کو نفرت اور حقارت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کو صفائی والے کے بجائے ''کوڑے والا‘‘ یا ''چوہڑا‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ بدتمیزی عام ہے۔ لوگ ان کو ساتھ بٹھانا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی بستیاں تک الگ ہوں۔ ان لوگوں کو سماجی اور طبقاتی تفریق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں‘ صاف صفائی کرتے ہوئے ان کو کوئی حفاظتی لباس نہیں دیا جاتا۔ وہ گٹر صاف کرنے کے لیے گٹر میں اتر جاتے ہیں اور ہر سال متعدد افراد گٹر میں جمع گیس کے سبب دم توڑ جاتے ہیں۔ یہ افراد اپنے ہاتھوں سے معاشرے کی گندگی اٹھاتے ہیں مگر نہ ان کو کوئی ماسک دیا جاتا ہے، نہ دستانے، نہ کوئی چشمہ اور نہ ہی کوئی حفاظتی لباس۔ حفاظتی انتظامات کے بغیر ہی ان کو گٹروں اور کچرا کنڈیوں میں اتار دیا جاتا ہے۔ جو عملہ گھروں سے کچرا لینے آتا ہے‘ اس کو ہی دیکھ لیں‘ وہ اپنے ہاتھوں سے گندگی اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ اکثر لوگ کچرے میں کانچ اور شیشہ وغیرہ بھی پھینک دیتے ہیں جو اکثر صفائی والے عملے کے ہاتھوں میں چبھ جاتا ہے۔ یہ دورانِ ڈیوٹی زخمی ہو جائیں یا بیمار‘ ان کی کوئی شنوائی نہیں۔ گھریلو، صنعتی اور طبی فضلہ جات اور کچرا یہ بغیر حفاظتی اقدامات کے‘ ایسے ہی کے اٹھا کر تلف کرتے ہیں۔ یوں ان کی صحت بھی گرتی جاتی ہے۔
چند روز قبل ایک فوٹیج نظر سے گزری‘ سینی ٹیشن ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والے عملے نے نیا ساز و سامان پکڑ رکھا تھا، کچھ کے پاس نئے لانگ شوز تھے، کچھ نے جیکٹس پہن رکھی تھیں۔ ایک جیسے نئے جھاڑو، ایک جیسے نئے وائپرز‘ زور و شور سے سڑکوں کی دھلائی ہو رہی تھی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اس عملے پر اتنی مہربانی کیسی ہو گئی۔ پتا چلا کہ نگران وزیراعلیٰ سموگ کے حوالے اقدامات کا جائزہ لینے آ رہے ہیں۔ صفائی کے عملے نے نئے وائپرز اور جھاڑو پکڑ رکھے تھے اور فوٹو شوٹ ہو رہا تھا۔ کام کرنے والے اپنے کام پر لگے ہوئے تھے‘ سڑکیں دھوئی جا رہی تھیں تاکہ سموگ کا مقابلہ کیا جا سکے۔ دیکھنے والے یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ محض سڑکیں دھونے سے سموگ کیسے کم ہو گی۔ البتہ یہ ضرور تھا کہ صفائی کرنے والے عملے کے پاس اچھی وردیاں‘ نیا سامان اور ماسک موجود تھے۔ چاہے یہ سب کچھ وقتی طور پر اور محض فوٹو شوٹ کے لیے ہی تھا۔
ویسے تو پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نے سوشل میڈیا پر کمنٹس کا آپشن بند کر رکھا ہے مگر اس دن شاید وہ بھول گئے لہٰذا ہزاروں لوگ کمنٹس کر کے ان کو یہ بتانے لگ گئے کہ سموگ کا تدارک یوں نہیں ہو سکتا‘ اس کیلئے درخت لگانا پڑتے ہیں‘ صنعتوں اور ٹریفک کے دھویں کو کنٹرول کرنا پڑتا ہے۔ سڑکوں کو دھو کر سموگ کا مقابلہ کرنا... یہ کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ اب جب یہ مہم ختم ہو جائے گی تو شاید یہ عملہ اپنے اصل حلیے میں آ جائے گا۔ ان کے وہی مسائل ہوں گے جو ہمیشہ سے ہیں۔ نہ سموگ ختم ہو گی اور نہ ہی ان ورکرز کو مناسب سہولتیں مل سکیں گی۔
ایک اور ورکنگ فورس ہے جس کو کسی قسم کی سہولتیں حاصل نہیں ہیں۔ وہ ہیں گھروں میں کام کرنے والے ملازمین‘ جن کو لوگ زر خرید غلام سمجھ لیتے ہیں۔ ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھاتے ہیں۔ مشقت کرنے والے اس طبقے کی بھی کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ پانچ‘ سات ہزار تنخواہ دے کر ان کو جیسے خرید ہی لیا جاتا ہے اور سارا سارا دن ان سے کام کرایا جاتا ہے۔ اکثر بڑے گھروں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو قید کر کے رکھا جاتا ہے، ان کو کوئی چھٹی نہیں ملتی اور موت کے بعد ہی ان کو نجات ملتی ہے۔ ان پر تشدد اور ان کو بھوکا رکھنا عام بات ہے۔ وہ بچی رضوانہ چند روز قبل ہی ہسپتال سے چائلڈ بیورو منتقل ہوئی ہے‘ اب اس کا چہرہ بدل گیا ہے۔ اس پر اتنا تشدد ہوا کہ وہ پہچانی نہیں جاتی۔ یہ سب ظلم و ستم کب بند ہوگا‘ کوئی نہیں جانتا۔
اسی طرح ایک اور محنت کش طبقہ معاشرے کے استحصال کا شکار ہے اور وہ ہے چوکیدار اور گارڈز وغیرہ‘ جن کو سخت سردی اور سخت گرمی میں بھی ڈیوٹی دینا ہوتی ہے۔ ایک ٹین کے ڈبے نما کیبن میں کرسی رکھ کر اس کو ''گارڈ روم‘‘ بنا دیا جاتا ہے۔ دہشت گردی اور چوری و ڈکیتی کی صورت میں یہ گارڈز اور چوکیدار اپنی جان پر کھیل کر سب کو بچاتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ خود بھی لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ سب کو یاد ہو گا کہ جب کراچی سٹاک ایکسچینج پر حملہ ہوا تھا تو گارڈز نے ہی دہشت گردی کا ناکام بنایا تھا۔ مگر یہ معاشرہ ان کی اس طرح عزت نہیں کرتا‘ ان کو ان کا جائز مقام نہیں دیتا‘ ان کو معقول تنخواہیں بھی نہیں دی جاتیں جبکہ لائف انشورنس سمیت ضروری سہولتیں بھی میسر نہیں ہوتیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں غریب محنت کش کی کوئی عزت نہیں جبکہ کرپٹ امیر کو سب سلام کرتے ہیں۔ حالانکہ معاشرہ ان محنت کشوں کی وجہ سے چل رہا ہے۔ لازم ہے کہ ان کو عزت دی جائے‘ جائز حقوق دیے جائیں ان کو سہولتیں بھی دی جائیں۔ مگر ایسا ہونے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے۔ اس لیے ہم سب کو اپنے اپنے تئیں کچھ کرنا ہوگا۔ اگر ہم بطور فرد ان کے ساتھ رویہ اچھا رکھیں تو بطور معاشرہ آہستہ آہستہ تبدیلی آنا شروع ہو جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں