ترکیہ ‘جاپان اور زلزلہ

قدرتی آفات میں انسان بہت بے بس اور خوف زدہ محسوس کرتا ہے۔ طوفان ہو‘ تیز بارش ہو‘ بجلی کا کڑکا ہو‘ سیلاب ہو یا زلزلہ‘ ان کے آگے انسان کی تمام طاقت اور ترقی دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ انسان جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اپنے نقصانات کو تو کم کر سکتا ہے یا ان کی کسی حد تک پیش گوئی تو کر سکتا ہے مگر ان کو روک نہیں سکتا۔ قدرتی ماحول کچھ اس طرح کا ہے کہ اس پر انسان کا کچھ زیادہ اختیار نہیں۔ حالیہ چند برسوں میں اتنے زلزلے آئے ہیں کہ انسان ہر وقت خوف محسوس کرتا رہتا ہے کہ دوبارہ نجانے کب زلزلہ آ جائے۔ میں نے 2005ء کے زلزلے اور اس کی تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہے، وہ بہت خوفناک اور تباہ کن زلزلہ تھا۔ گزشتہ برس ایک بہت خوفناک زلزلہ آیا تھا جس کے دو شدید جھٹکوں نے سب کو شدید خوفزدہ کر دیا تھا۔ انہی دنوں چونکہ ترکیہ اور شام میں بھی بدترین زلزلہ آیا تھا اس لیے یہاں کے شہریوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا؛ تاہم اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور یہاں پر زیادہ نقصان نہیں ہوا اور پاکستان محفوظ رہا، الحمدللہ! اب جیسے جیسے زمانہ ترقی کر رہا ہے‘ جدید سمارٹ فونز آپ کو زلزلہ آنے سے چند لمحوں قبل آگاہ کر دیتے ہیں کہ زلزلہ آ سکتا ہے‘ خود کو کسی محفوظ جگہ پر منتقل کر لیں۔ اس الرٹ اور زلزلے کے جھٹکے میں محض چند سیکنڈز کا فرق ہوتا ہے۔ جب سِسمک ایکٹوٹی (Seismic Activity) ریکارڈ ہوتی ہے تو سمارٹ فون فوری الرٹ جاری کر دیتا ہے۔ جان بچانے کے لیے کچھ لمحات بھی کافی ہوتے ہیں، انسان شیشوں سے مزین عمارت سے باہر آ سکتا ہے۔ کسی محفوظ جگہ کے نیچے اپنا سر ڈھانپ کر بیٹھ سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زلزلوں کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی لیکن جیولوجیکل سروے کرنے والے ادارے اس بات کی آگاہی ضرور دے سکتے ہیں کہ کس جگہ زمین کی پرتیں متحرک ہیں اور کہاں سزمک ایکٹوٹی ہو سکتی ہے۔
ترکیہ میں کچھ عرصہ قبل ہولناک زلزلہ آیا تھا‘ جس میں ہزاروں لوگ لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ اس زلزلے کے بعد بھی کئی روز تک آفٹر شاکس آتے رہے تھے۔ پہلا زلزلہ 7.5 سکیل کا تھا اور دوسرا 7.8 سکیل کا۔ یہ شدید نوعیت کا زلزلہ ہوتا ہے جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی ہے۔ ترکیہ میں ایسا ہی ہوا اور ان زلزلوں سے بہت زیادہ تباہی ہوئی۔ ترکیہ نے ہنگامی طور پر اپنے شہریوں کے لیے امدادی کارروائیاں کا آغاز کیا لیکن زلزلے کے پہلے جھٹکے ہی سے بہت زیادہ مالی اور جانی نقصان ہو چکا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق مالیاتی طور پر 100 بلین ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔ غازی انتیپ، حطائے، مرعش، آدانا، دیاربکر، کیلیس، آدیامان اور عثمانیہ جیسے شہروں میں شدید تباہی ہوئی۔ پچاس ہزار سے زائد افراد ان زلزلوں میں جاں بحق ہو گئے۔ ان زلزلوں کے جھٹکے شام‘ لبنان اور قبرص میں بھی محسوس کیے گئے۔
اسی طرح نئے سال کے آغاز پر جاپان میں خوفناک زلزلہ آیا۔ اس زلزلے کے فوٹیج دیکھ کر 2011ء کا زلزلہ یاد آگیا جس کے نتیجے میں سونامی آگیا تھا اور جاپان کا ایٹمی بجلی گھر تباہ ہو گیا تھا۔ اُس زلزلے میں 18 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ زلزلے کے نتیجے میں شدید سونامی آیا جس کی لہریں چالیس میٹر تک بلند تھیں۔ زلزلے اور سونامی کی وجہ سے فوکوشیما ایٹمی ری ایکٹر تباہ ہو گیا اور اردگرد کے علاقوں میں تابکاری پھیل گئی۔ اس زلزلے اور سونامی کے سبب جاپان کا بہت زیادہ نقصان ہوا۔ خاص طور پر تین ایٹمی ری ایکٹرز کا اس قدرتی آفات میں متاثر ہونا ماحول اور عوام کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ تھا۔
سالِ نو کے موقع پر جاپان میں آنے والے ہولناک زلزلے نے ایک بار پھر 2011ء کے سونامی کی یادیں تازہ کر دیں۔ اس زلزلے کے ساتھ ہی سونامی کی وارننگز بھی جاری کر دی گئیں۔ حالیہ زلزلے کی شدت 7.6 ریکارڈ کی گئی۔ ایک افسوسناک سانحہ یہ پیش آیا کہ جاپان میں ایک چھوٹا طیارہ‘ جو زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے جا رہا تھا‘ مسافروں سے بھرے بوئنگ سے ٹکرا گیا۔ دونوں طیاروں میں آگ لگ گئی، حیرت انگیز طور پر مسافر طیارے میں موجود تمام مسافروں کو زندہ بچا لیا گیا۔ جاپان ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور سونامی‘ زلزلوں اور مختلف قدرتی آفات کے حوالے سے اس نے اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے بہت سے اقدامات کر رکھے ہیں تاکہ نقصانات کا پھیلائو کم سے کم کیا جا سکے۔
دنیا میں تین زون سِسمک ایکٹوٹی کو لے کر بہت متحرک ہیں جن میں پیسفک بیلٹ، ایلپیڈ بیلٹ (Alpide Belt) اور اٹلانٹک ریج (Atlantic Ridge) شامل ہیں۔ جاپان چونکہ پیسفک بیلٹ پر موجود ہے لہٰذا یہاں پوری دنیا میں سب سے زیادہ زلزلے ریکارڈ کیے جاتے ہیں۔ جاپان نے اپنے شہریوں کے لیے ایسا سسٹم بنایا ہوا ہے کہ ان کو فون اور ٹی وی پر فوری الرٹ مل جاتے ہیں تاکہ قدرتی آفات کے دوران وہ خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ وہاں بچوں کو سکولوں کی سطح سے ہی زلزلے سے بچنے اور خود کو محفوظ رکھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں وہاں پر انفراسٹرکچر بھی ایسا تعمیر کیا جاتا ہے کہ زلزلے کے دوران نقصان کم سے کم ہو۔ اس وقت جاپان اپنے جوہری اثاثوں کا بھی معائنہ کر رہا ہے تاکہ کسی قسم کے نقصان کا فوری ازالہ کیا جا سکے؛ تاہم اب تک کوئی شکایت سامنے نہیں آئی۔ جاپان میں بلڈنگ لاز کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ وہاں زلزلے کے دوران میٹرو بسیں اور ٹرینیں خودبخود رک جاتی ہیں۔ جو قوم ایٹمی حملے برداشت کر کے اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی‘ وہ زلزلوں کو بھی جھیل لیتی ہے۔
جاپان اور ترکیہ ترقی یافتہ ممالک ہیں‘ وہ اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں ہیں لیکن پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اسلام آباد میں گزشتہ چند دنوں میں تین‘ چار بار زلزلہ آ چکا ہے۔ یہاں پر بلڈنگ لاز کی کسی کو کوئی پروا ہی نہیں، بالخصوص بلیو ایریا میں بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر زور و شور سے جاری ہے۔ پاکستان میں جب بھی کسی اونچی عمارت پر آگ لگی‘ ہمیشہ یہی دیکھنے کو ملا کہ نہ تو انتظامیہ کے پاس اونچی سیڑھی ہوتی ہے نہ ہی فائر بریگیڈ کے پائپ وہاں تک پہنچ پاتے ہیں۔ اسی طرح ایمرجنسی راستے بلاک ہوتے ہیں اور عوام عمارت میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ کیا پاکستان میں تعمیر شدہ پل‘ فلائی اوورز اور بلند و بالا عمارتیں زلزلے کے جھٹکے سہہ سکتی ہیں؟ ہم ایسی فالٹ لائنز پر بیٹھے ہیں جو بہت زیادہ متحرک ہیں۔ یہاں ہمہ وقت زلزلے کا خدشہ رہتا ہے لیکن کیا یہاں پر کسی بھی زلزلے کے جھٹکے کے بعد انتظامیہ رہائشی اور کمرشل پراپرٹیز کا معائنہ کرتی ہے؟ شہریوں کو اس حوالے سے آگاہی دی جاتی ہے؟ ایف ٹین میں کچھ پرانے فلیٹس بنے ہوئے ہیں‘ گزشتہ برس آنے والے زلزلے کے بعد ان میں دراڑیں پڑ گئی تھیں لیکن لوگ وہاں اب بھی رہائش پذیر ہیں۔
میں متعدد بار ان چیزوں کی نشاندہی کر چکی ہوں لیکن سی ڈی اے اور متعلقہ حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اسلام آباد کو کنکریٹ کا ایک جنگل بنایا جا رہا ہے۔ درختوں کو کاٹ کاٹ کر اور سیمنٹ‘ بجری اور سریے سے شہر کی ہیئت ہی کو بدل دیا گیا ہے۔ جاپان‘ ترکیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک امدادی کارروائیوں سے اپنے شہریوں کو سنبھالا دیتے ہیں لیکن پاکستان میں کوئی سانحہ ہو جائے تو متاثرین رُل کر رہ جاتے ہیں۔ اس لیے فوری سروے کرنا چاہیے کہ کون سے عمارتیں مخدوش ہیں‘ ایسی جگہوں پر شہریوں کو رہائش یا کمرشل سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جن جگہوں پر بکثرت زلزلے آتے ہیں‘ وہاں بلند عمارتوں کی تعمیر کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ زلزلے میں سب زیادہ نقصان اس وقت ہوتا ہے جب بلند و بالا عمارتیں مسمار ہو جاتی ہیں اور لوگ ان کے اندر اور ملبے تلے پھنس کر رہ جاتے ہیں‘ اس لیے اس طرف دھیان دیں۔ سیاست تو ہوتی رہی گی لیکن ماحولیاتی توازن کی طرف توجہ دیں کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ زمین ہمیشہ سے تغیراتی عمل کا حصہ رہی ہے‘ پہلے بھی بہت سے خطے‘ قومیں اور ملک قدرتی آفات کی وجہ سے تباہ ہو گئے۔ آگے بھی ایسا ہو سکتا ہے‘ اس لیے ان نقصانات کے تدارک اور ان کو کم کرنے کے لیے کام کرنا ہو گا، یہ نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں