پاکستان کے بیشتر علاقوں بشمول وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دسمبر‘ جنوری میں سردی کے باعث دھند چھا جاتی ہے اور بعض اوقات حدِ نگاہ صفر ہو جاتی ہے۔ سردی‘ خاموشی اور دھند‘ ان سب میں ایک عجیب سے اداسی اور پُراَسراریت چھپی ہوتی ہے۔ کبھی یہ دھند سموگ کی صورت میں نمودار ہوتی ہے جو بہت مضرِ صحت ہے۔ دھند میں انسان کچھ بھی دیکھنے سے قاصر ہو جاتا ہے اور اگر یہ سموگ کا دھواں ہو تو آنکھیں جلنے لگتی ہیں اور سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے۔ اس وقت پاکستان اور بھارت کے بیشتر علاقوں میں سخت سردی اور دھند چھائی ہوئی ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سارا دسمبر گزر گیا‘ جنوری بھی ختم ہونے کے قریب ہے مگر نہ تو اب تک سردیوں کی بارشیں ہوئی ہیں اور نہ ہی برف باری ہوئی ہے۔ خشک سردی کی وجہ سے لوگ بیمار ہو رہے ہیں۔ سردیوں میں جو پہاڑ برف کی سفید چادر اوڑھ لیتے تھے‘ وہ اس وقت ویران پڑے ہیں۔ سیاح برف نہ ہونے کی وجہ شمالی علاقوں کا رخ نہیں کر رہے۔ لوگ یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ کیا خدا ہم سے ناراض ہے؟ کیا ہم نظامِ قدرت میں بہت زیادہ خلل ڈال چکے ہیں کہ ایسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں؟ وجہ کچھ بھی ہو مگر وہ یہ سب دیکھنے سے قاصر ہیں جن کو ان واضح تبدیلیوں کو دیکھ کر اقدامات کرنا ہیں‘ جنہیں ان کا تدارک کرنا ہے۔
یہ خطہ اس وقت شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے۔ موسم بدل گئے ہیں‘ مسلسل زلزلے آ رہے ہیں‘ رہی سہی کسر سیلاب‘ خشک سالی اور بارشوں کی کمی پورا کر دیتی ہے۔ اس کے باوجود اس پر کوئی بات ہی نہیں ہو رہی‘ کوئی کانفرنس نہیں‘ کوئی ایکٹوازم نظر نہیں آ رہا۔ نہ بڑے بزرگ اور نہ ہی نئی نسل اس پر بات کر رہی ہے۔ دنیا کو بتائیں تو سہی کہ ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ سردیاں سکڑ کر چھوٹی ہوگئی ہیں‘ بارشیں کم ہو گئی ہیں‘ گرمیاں طویل اور اب زیادہ شدت کے ساتھ آتی ہیں‘ گلیشیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اور ان کی وجہ سے دریائوں میں طغیانی آ جاتی ہے‘ پانی آبادیوں میں گھس کر تباہی مچا دیتا ہے۔ 2022ء میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے پاکستان کو تیس ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا تھا؛ تاہم عالمی برادری اُس ملک کی مدد کے لیے سامنے نہیں آئی جس کا عالمی کاربن کے اخراج میں ایک فیصد بھی حصہ نہیں۔ اس کے باوجود پاکستان موسمیاتی اور ارضیاتی تبدیلیوں کی زد میں اس قدر آ چکا ہے کہ اس کے موسم اور ماحول پر خاصا منفی فرق پڑ چکا ہے۔
آلودگی میں بھی ہم الگ ہی مقام رکھتے ہیں۔ امریکی سفارتخانہ اکثر ایئر کوالٹی انڈیکس شیئر کرتا رہتا ہے جس کے مطابق پشاور اور لاہور کی فضا ایسی ہے جیسے کسی جنگ کے بعد مختلف گیسز کا اخراج ہو رہا ہو۔ ان شہروں کی ہوا ایسی ہے کہ یہاں جدید ماسک پہن کر جانا چاہیے مگر ہم سب اس میں سانس لے رہے ہیں۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر ابھی سے اقدامات نہ کیے گئے تو آگے چل کر ایک پوری نسل سرطان میں مبتلا ہو جائے گی مگر کسی کو پروا ہی نہیں۔ بارش کا نہ ہونا‘ موسمیاتی تبدیلیوں اور آلودگی کا اثر طویل مدتی ہوگا اور ہم کچھ نہیں کر پائیں گے‘ اگر ابھی سے ان پر دھیان نہ دیا گیا۔ اس کا حل یہ ہے کہ ماحول دوست سرگرمیوں میں تیزی لائی جائے اور ایکو سسٹم کو تباہ ہونے سے بچایا جائے۔ اس زمین کو کنکریٹ کا جنگل نہ بنایا جائے، اس کو اس کی قدرتی حالت میں قائم رہنا چاہیے۔ جب میں اپنے اردگرد جنگلوں کو ختم ہوتا دیکھتی ہوں تو میرا دل روتا ہے۔ یہ عجیب ترقی ہے جو قدرتی وسائل کو نگل رہی ہے۔
ایک دھند ہمارے ماحول اور اس ملک کے جمہوری نظام پر بھی چھائی ہوئی ہے جس میں نہ ہمیں الیکشن کی گہماگہمی نظر آ رہی ہے نہ ہی انتخابات نظر آ رہے ہیں۔ نگران حکومیتں اپنی مدت کب کی پوری کر چکی ہیں لیکن الیکشن کرانے کے بجائے ہر وہ کام کر رہی ہیں جس سے سیاسی مخالفین کو زیر کیا جا سکے۔ جمہوری نظام پر یوں دھند چھا جائے گی‘ کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ پاکستان مارشل لائوں کی زد میں بھی رہا لیکن پھر یہاں جمہوری سفر بحال ہوا اور اسمبلیوں نے اپنی میعاد پوری کرنا شروع کر دی؛ البتہ کوئی وزیراعظم اتنا خوش نصیب نہیں تھا کہ وہ پانچ سال پورے کر پاتا۔ اقتدار‘ طاقت اور اَنا کی یہ جنگ ہمارے معاشرے کو بہت نقصان پہنچا چکی ہے۔ ہر شعبہ اب اس دھند کی لپیٹ میں آ چکا ہے‘ ہزاروں سیاسی کارکنان اس وقت اسیر ہیں‘ خوف اور دکھوں کے سائے گہرے ہو گئے ہیں‘ لوگ ایک دوسرے سے سیاسی اختلاف کی بناپر قطع تعلق کر لیتے ہیں۔ اگلے روز پشاور میں ایک باپ نے سیاسی بحث پر اپنے سگے بیٹے کو قتل کر دیا۔ معاشرے کے رگ و پے میں نفرت اور انتہاپسندی سرایت کر چکی ہے۔ اس دھند میں جمہوریت کا مستقبل بھی کھو چکا ہے مگر اس پر کسی سے کیا گلہ کریں‘ جمہوریت کے داعی خود جمہوریت کو یہاں تک لے کر آئے ہیں۔ دل و دماغ اور سوچ پر چھائی دھند نے معاملات کو اس نہج تک پہنچایا ہے۔
گزشتہ روز اسلام آباد؍ راولپنڈی میں اتنی شدید دھند تھی کہ حدِ نگاہ صفر ہوگئی۔ اسی اثنا میں دکھوں کے مارے ایک شخص نے ایکسپریس ہائی وے کے ایک پل پر سے پھندہ لے کر خودکشی کر لی۔ اس شخص کی لاش شہرِ اقتدار کی ایک مصروف شاہراہ کے اوپر لٹک رہی تھی اور بہت دیر تک لٹکتی رہی۔ دھند کی وجہ سے نیچے سے گزرنے والوں کو یہ منظر نظر ہی نہیں آیا۔ متوفی کے والد کے مطابق وہ شخص بیروزگار اور مالی تنگی کا شکار تھا۔ وہ چھپ کر بھی خودکشی کر سکتا تھا لیکن ایک اہم شاہراہ پر آکر خود کو پھندہ لگانا... وہ شاید معاشرے کو بتانا اور جھنجھوڑنا چاہ رہا تھا۔ وہ اپنی موت سب کے سامنے لا کر اس معاشرے کو بہت کچھ بتانا چاہ رہا تھا کہ اس نے زندگی کا خاتمہ کیوں کیا۔ زندگی میں تو اس کو کسی نے سنا نہیں‘ شاید مر کر ہی اس کا غم دیگر لوگ جان سکیں۔ وہ اٹھائیس سال کا ایک نوجوان تھا اور کافی عرصے سے بیروزگار تھا۔ بیروزگاری اور ملک پر چھائی مایوسی کی دھند اس کو نگل گئی۔ اشرافیہ مگر اپنے کاموں میں مصروف ہے‘ اس کو عوام کے مسائل سے کوئی سروکار ہی نہیں۔
سوچ و فکر‘ ادب و صحافت پر بھی دھند چھائی ہوئی ہے۔ لوگ ظالم کے آلہ کار تو بن سکتے ہیں لیکن مظلوم کا ساتھ کوئی نہیں دے رہا۔ خوشامدی تو بہت ہیں مگر حق بات کرنے والے بہت کم ہیں۔ جو وقتی مفادات کی خاطر اصولوں پر سمجھوتا کر لیتے ہیں‘ وزارتیں قبول کر لیتے ہیں‘ وہ یہاں عروج پا جاتے ہیں اور جو سچ کا راستہ اختیار کرتے ہیں وہ تاریک راہوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ ارشد شریف‘ ناظم جوکھیو‘ ولی بابر... ایک طویل فہرست ہے جن کا جرم سچ بولنا تھا اور وہ اس کرپٹ نظام کی دھند میں کھو گئے۔ جو اس کرپشن کے سسٹم کا حصہ بن جاتے ہیں‘ وہ ترقی کرتے رہتے ہیں‘ ان کو مراعات ملتی رہتی ہیں مگر جو انکار کرتے ہیں‘ ان کی زبان بندی کر دی جاتی ہے۔
ملک میں دھند اتنی بڑھ چکی ہے کہ انٹرنیٹ کبھی بند ہو جاتا ہے تو کبھی سست ہو جاتا ہے‘ کبھی سوشل میڈیا ایپس کام کرنا چھوڑ جاتی ہیں۔ اس دھند میں اچھے بھلے انسان لاپتا ہو جاتے ہیں‘ ان کے لواحقین شور مچاتے رہ جاتے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ شاہراہِ دستور پر بھی ایک دھند چھائی ہوئی ہے جس کے پار بیٹھے مظلومین اشرافیہ کو دکھائی نہیں دے رہے۔ ان کے آنسو‘ آہ وبکا اور غم و دکھ اس شدید دھند میں اشرافیہ کو بالکل نظر نہیں آ رہے۔ غرور و تکبر اور طاقت و رعونت کی دھند سوچنے‘ دیکھنے‘ سننے اور سمجھنے کی صلاحیت کو بھی ختم کر دیتی ہے۔ اسی کی وجہ سے معاشرہ تنزلی کا شکار ہو چکا ہے۔ ہم اپنے ہمسایوں اور علاقائی ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ معاشی طور پر‘ سفارتی طور پر‘ کھیلوں کے میدان میں اور سائنس کے شعبے میں‘ ہر جگہ ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور تاسف کے سوا کچھ کر بھی نہیں سکتے کہ ہمارے اختیار ہی میں کچھ نہیں ہے۔
کاش دھند کے یہ بادل چھٹ جائیں اور امید کا سورج اپنی کرنوں سے ہر شہری کو منور کر دے۔ بہت ناامیدی‘ بہت دکھ اور بہت تکالیف جھیل لیں۔ کاش کوئی تو عوام کے دکھوں کا مداوا کرے‘ کوئی تو مسیحا ہو جو روتے‘ بلکتے‘ سسکتے لوگوں کے آنسو صاف کرے۔ مجھے امید ہے کہ محبت‘ امن‘ خوشیوں اور ترقی کا سورج بہت جلد طلوع ہو گا جس کی کرنوں سے ہر کوئی فیض یاب ہو گا۔ عنقریب یہاں امن ہو گا‘ خوشحالی ہو گی۔