مجھے آج بھی یاد ہے کہ 28 مئی 1998ء کے روز اسلام آباد میں دھوپ میں بارش ہو رہی تھی۔ ایک طرف سورج نکلا ہوا تھا اور دوسری طرف بادل مینہ برسا رہے تھے۔ اُس روز سکول سے چھٹی تھی اور ہم سب بچے خوشی خوشی اپنے اپنے ٹیرس پر بارش میں بھیگ رہے تھے۔ وہ بے فکری کا دور تھا‘ زندگی بس کھیل اور کھلونوں تک ہی محدود تھی۔ جب مطلع صاف ہوا تو قوسِ قزح نے بھی اپنے رنگ بکھیر دیے۔ تبھی سرکاری ٹی وی پر یہ خبر آئی کہ پاکستان نے بلوچستان میں چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکے کرکے بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا ہے۔ یہ سننا تھا کہ سارے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ میری امی نے فوری طور پر حلوہ پکاکر اپنی گلی میں تقسیم کیا۔ میرے ابو مٹھائی لے لائے۔ اُس دن ہم بچے سارا دن میٹھی چیزیں کھاتے رہے۔ میں اپنے پاس موجود نقشہ کھول کر بیٹھ گئی اور دیکھنے لگی کہ چاغی کہاں پر ہے۔ اسلام آباد سے بہت دور یہ بلوچستان میں نظر آیا۔ پھر ٹی وی لگا لیا اور سننے لگی کہ آج کیا کیا ہوا۔ اس وقت اتنا شعور نہیں تھا کہ کتنا بڑا سنگِ میل پاکستان نے عبورکیا ہے۔ اگلے روز سکول میں اعلان ہوا کہ اس دن کے حوالے سے مضمون نویسی اور تقریری مقابلہ ہو گا۔ یہ موضوع ہم بچوں کے لیے کافی مشکل تھا۔ میرے والد گرامی حافظ محمد صدیق اور میری ٹیچر میڈم ریحانہ نے ہم بچوں کی بہت مدد کی۔ مجھے اپنے والد کی ایک بات بہت پسند ہے‘ وہ ہمیشہ تاریخ کا اصل رُخ بیان کرتے ہیں‘ اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کو ایک طرف رکھ کر انہوں نے مجھے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تاریخ بتائی۔ ہمارے ہاں تو تاریخ بدلنے اور کریڈیٹ چھیننے کا چلن ہے؛ تاہم میرے والد نے مجھے یہ سکھایا کہ کسی بھی واقعہ کے حوالے سے سبھی کرداروں کا ذکر کرو‘ کسی بھی کردار کا نام تاریخ سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ میڈم ریحانہ نے لائبریری سے کچھ کتابیں ریفرنس کے لیے نکال کر دیں۔ یوں ہم بچوں نے مل کر پاکستان کی کامیابی کا دن منایا۔ میں نے ملی نغمہ گایا اور تقریری مقابلے میں حصہ لیا۔ میں بہت کم عمری سے اخبارات کے بچوں کے ایڈیشن کے لیے لکھ رہی تھی‘ ایک اخبار میں مضمون لکھ کر بھیجا جو چند دنوں بعد شائع گیا‘ اس سے میری خوشی دوچند ہو گئی۔
پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں حکومت‘ سیاستدانوں‘ سائنسدانوں اور پاکستان کے سکیورٹی اداروں کا برابر کا حصہ ہے۔ جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تھے تو امریکہ نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ جوابی دھماکے نہ کیے جائیں۔ یہاں تک کہ پاکستان کو ایف سولہ طیارے دینے‘ امریکی قرضوں کی سہولت اور بڑی ملٹری امداد فراہم کرنے کی ترغیب بھی دی گئی‘ تاہم پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت نے کوئی بھی دباؤ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اُس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے درمیان دوستی تھی‘ تاہم یہ دوستی بھی پاکستان کو اپنے مصمم ارادے سے پیچھے نہیں ہٹا سکی۔ اس کے مقابلے میں عوامی دباؤ اتنا شدید تھا کہ حکومت کے پاس ایٹمی دھماکے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ عوام بے چین تھے کہ بھارت کو اس کی زبان میں جواب دینا ضروری ہے کیونکہ ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارت کا غرور عروج پر تھا اور وہ آئے روز پاکستان پر حملے کی باتیں کر رہا تھا۔
ایٹمی دھماکوں کیلئے چاغی میں کوہ راس کے پہاڑوں میں سرنگیں کھودی گئیں تو ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی اپنی ٹیموں کے ساتھ وہاں پہنچے۔ پاکستان ایئر فورس نے سامان کی ترسیل میں معاونت فراہم کی۔ عملے اور سامان کی سکیورٹی کے لیے جنگی جہاز تعینات کیے گئے۔ یہ کام برسوں کی محنت کے بعد پایۂ تکمیل تک پہنچ رہا تھا اور 28مئی 1998ء کو تمام قربانیوں اور محنت کا پھل مل گیا۔ اس وقت ہم بچوں کیلئے ایک شخصیت بہت ہی پُرکشش اور پسندیدہ تھی۔ وہ تھے ڈاکٹر اے کیو خان۔ اُن دنوں ہم بچوں میں یہ باتیں مشہور تھیں کہ ڈاکٹر اے کیو خان کے تین‘ چار ہم شکل موجود ہیں اور وہی ڈاکٹر اے کیو خان کی جگہ عوامی تقریبات میں جاتے ہیں تاکہ اصل ڈاکٹر قدیر خان کی زندگی کو کوئی رِسک نہ ہو۔ ہم سب کے لیے وہ ایک سپر ہیرو تھے۔ بہت دل کرتا تھا کہ ہم ان سے ملیں‘ آٹوگراف لیں‘ تاہم سکیورٹی وجوہات کی بنا پر یہ ممکن نہ تھا۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند سے بچپن میں ایک سائنس فیئر میں میری ملاقات ہوئی تھی لیکن ڈاکٹر قدیر خان سے ملنے کی حسرت ہی رہی۔
بعد ازاں سرکاری طور پر یہ اعلان ہوا کہ جس دن ایٹمی دھماکے ہوئے‘ اس دن کو ہر سال قومی دن کے طور پر منایا جائے گا۔ اس دن کو کوئی نام دینے کے لیے عوام سے بھی تجاویز مانگی گئیں۔ ہم طالب علموں نے بھی کچھ نام تجویز کرکے بذریعہ خط ارسال کر دیے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خط و کتاب کا استعمال ترک ہو رہا تھا‘ موبائل اور کمپیوٹر آچکے تھے۔ بعد ازاں اس دن کے لیے یومِ تکبیر کا نام فائنل ہوا۔ یہ نام ایک سول انجینئر سید غضنفر عباس نے تجویز کیا تھا۔ نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد پرویز مشرف حکومت میں یہ دن منانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی گئی۔ میرے جیسے طالب علم اس بات کے خواہاں تھے کہ اس دن کو ہر سال سرکاری سطح پر منایا جانا چاہیے۔ ایک میوزیم یا گیلری ہونی چاہیے جہاں ان تمام لوگوں کی تصاویر آویزاں ہوں جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں اہم کردار ادا کیا‘ تاہم ایسا نہیں ہو سکا۔ نواز شریف اُن دنوں اٹک جیل میں قید تھے‘ بعد میں انہوں نے جلاوطنی اختیار کر لی۔ اس کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر کڑا وقت آن پڑا۔ انہوں نے تمام الزامات اپنے اوپر لے لیے لیکن اس کے باوجود عوام کے دل میں ان کیلئے محبت موجود رہی اور ہمیشہ رہے گی۔ انہوں نے بیرونِ ملک اپنا شاندار کیریئر چھوڑا اور پاکستان واپس گئے۔ یہاں وہ چکا چوند والی زندگی سے دور‘ ہمہ وقت اپنے کام میں مصروف رہے۔ میرے دل میں بہت حسرت تھی کہ میں زندگی میں ایک بار ڈاکٹر اے کیوخان سے مل سکوں لیکن یہ حسرت پوری نہ ہو سکی۔ نظربندی کے بعد جب ڈاکٹر اے کیو خان کو عدالت سے رہائی ملی‘ میں اُس روز پارلیمنٹ ہاؤس کا سیشن کور کررہی تھی۔ میری ساتھی رپورٹر نے بتایا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر رہا ہو گئے ہیں‘ چلو اُن سے ملنے چلیں۔ یہ سن کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ وہاں سے ان کے گھر کا فاصلہ صرف دس منٹ کا تھا۔ میرا دل خوشی سے دھڑک رہا تھا کہ آج میں پہلی بار محسنِ پاکستان سے ملوں گی۔ جب ہم ان کے گھر کے گیٹ پر پہنچے تو صحافیوں کا کافی رش لگ چکا تھا۔ سکیورٹی اہلکاروں نے ہمیں واپس جانے کیلئے کہا تو میرا دل مایوسی میں ڈوبنے لگا۔ اسی دوران ڈاکٹر قدیر خان گیٹ کی طرف آتے نظر آئے۔ میری دوست نورین نے فون پر ان سے انٹرویو کا وقت مانگ رکھا تھا‘ تاہم یہ ممکن نہ ہو سکا۔ لیکن انہوں نے گیٹ کے اوپر سے میرے اور نورین کے سر پر دستِ شفقت رکھا۔ میری آنکھوں میں نمی آ گئی۔ ہمیں ان کی جرأت‘ بہادری اور صبر کو دیکھ کر فخر بھی ہوا۔ انہوں نے کہا کہ آپ سب گرمی میں کھڑے ہیں‘ میں ابھی ملازم کے ہاتھ شربت بھیجتا ہوں۔یہ سب باتیں آج بھی میرے حافظے میں پوری طرح محفوظ ہیں۔
اس بار ملک بھر میں یوم تکبیر منایا گیا۔ حکومت کی طرف سے یومِ تکبیر کے حوالے سے ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا۔ چلو دیر سے ہی سہی‘ حکومت کو یہ دن منانے کا خیال تو آیا‘ ورنہ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ ماضی قریب میں اس دن کو کبھی سرکاری سطح پر منایا گیا ہو۔ یومِ تکبیر کو سیاست کی نذر نہیں ہونا چاہیے‘ اس دن کو قومی دن کے طور پر منایا جانا چاہیے۔ حکمران ملک کی نئی نسل کو اپنی تاریخ سے روشناس کرائیں‘ جس سے وہ واقف نہیں۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں جس جس فرد کی محنت شامل ہے‘ اس کے کارناموں کو منظر عام پر لایا جانا چاہیے۔ انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے اس موضوع پر کوئی ڈرامہ‘ فلم یا سیریز بھی بنائی جانی چاہیے کیونکہ زندہ قومیں اپنے ہیروز کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔