"KMK" (space) message & send to 7575

کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر اور دریائے سندھ کا پانی

ڈائیرائٹ کے ہوائی اڈے سے شہر کی طرف روانہ ہوئے تو سڑک کے کنارے ایک بہت بڑا بل بورڈ لگا ہوا تھا جس پر لکھا تھا \"Coal provides you affordable electricity\" یعنی کوئلہ آپ کو مالی اعتبار سے قابل برداشت بجلی فراہم کرتا ہے۔ یہ بورڈ امریکہ میں لگا ہوا ہے جہاں پاکستانی روپوں کے حساب سے (جبکہ ڈالر ایک سو روپے تک پہنچ گیا ہے) آج بھی پٹرول پاکستان سے سستا ہے۔ سعودی عرب اور عراق وغیرہ کے پیدا کردہ تیل کو امریکہ لے جانے میں پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ کرایہ لگتا ہے مگر امریکہ میں آج بھی پٹرول پاکستانی حساب سے پچانوے روپے فی لٹر ہے۔ امریکہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ بجلی پیدا کرنے والا ملک ہے۔ امریکہ کی آبادی اکتیس کروڑ کے لگ بھگ ہے اور چین کی آبادی ایک ارب پینتیس کروڑ سے زائد ہے۔ یعنی چین کی آبادی امریکہ سے تقریباً ساڑھے چار گنا ہے مگر امریکہ چین سے زیادہ بجلی پیدا کرتا ہے۔ امریکہ کی کل بجلی کا تقریباً اسی فیصد کوئلے سے پیدا ہوتا ہے۔ امریکہ دنیا میں بجلی کی پیداوار کے اعتبار سے پہلے‘ چین دوسرے‘ جاپان تیسرے‘ روس چوتھے اور انڈیا پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان بجلی کی پیداوار کے اعتبار سے دنیا بھر میں بائیسویں جبکہ آبادی کے اعتبار سے چھٹے نمبر پر ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش آبادی کے اعتبار سے دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے اور بجلی کی پیداوار کے اعتبار سے ستائیسویں نمبر ہے۔ پاکستان بنگلہ دیش سے تقریباً اڑھائی گنا زیادہ بجلی پیدا کرتا ہے لیکن پاکستانی صنعتکار بجلی کی وجہ سے اپنا سرمایہ اور کارخانے بنگلہ دیش منتقل کر رہے ہیں جہاں پاکستان سے کپاس درآمد کر کے ٹیکسٹائل کا ایک بڑا انفراسٹرکچر چلایا جا رہا ہے۔ سیاسی بنیادوں پر کی جانے والی ’’ویلج الیکٹریفیکیشن‘‘ بجلی کی چوری اور لائن لاسز نے سارے نظام کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ تھرکول کے بارے میں کم از کم اس عاجز کو ابھی تک پتہ نہیں چل سکا کہ اس کی اصل حقیقت کیا ہے لیکن یہ بات یقینا معلوم ہے کہ پانی سے پیدا کی جانے والی سستی بجلی کے بعد دوسری سستی ترین بجلی کوئلے سے حاصل کی جاتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت ہائیڈل پاور یعنی پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت ایک سے ڈیڑھ روپیہ ہے جبکہ تھرمل بجلی یعنی تیل سے پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت تقریباً چودہ روپے سے لے کر بائیس روپے تک ہے۔ پیداوار میں آنے والا ہر نیا تھرمل بجلی گھر پاکستان میں بجلی مہنگی کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ ایک دور تھا جب پاکستان کی تقریباً نوّے فیصد بجلی ہائیڈل بجلی گھروں سے بنتی تھی‘ آج پاکستان میں ہائیڈل پاور جنریشن کی شرح کم ہو کر تقریباً پچیس فیصد ہے جبکہ تیل سے پیدا ہونے والی بجلی چالیس فیصد کے قریب ہے۔ گیس سے بتیس فیصد بجلی پیدا ہو رہی ہے اور ایٹمی بجلی پیداوار کل ملکی پیداوار کا تقریباً تین فیصد ہے۔ دوسری سستی ترین بجلی یعنی کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کی کل پیداوار آدھے فیصد سے بھی کم ہے۔ پاکستان میں تھرکول کا معاملہ بھی عجب ہے۔ ایک پارٹی کہہ رہی ہے کہ اس سے ہزاروں میگاواٹ بجلی کئی سو سال تک پیدا ہو سکتی ہے اور دوسری پارٹی کہتی ہے کہ یہ سب کچھ فراڈ ہے اور سارے اعدادو شمار جھوٹ پر مبنی ہیں۔ 1991ء میں دریافت ہونے والا تھرکول فیلڈ تقریباً نو ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے اور یہ دنیا کا اس وقت چھٹا بڑا کوئلے کا ذخیرہ ہے جس کا تخمینہ تقریباً ایک سو پچھتر ارب ٹن لگایا گیا ہے۔ اس کی متنازعہ کوالٹی کے باوجود زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کوئلہ بجلی پیدا کرنے کے لیے درکار کم از کم معیار سے کہیں بہتر ہے اور اس سے بجلی پیدا ہو سکتی ہے مگر یہ منصوبہ اپنے منصوبہ سازوں کی نالائقی کے باعث اڑیل ٹٹو کی مانند ایک ہی جگہ پر کھڑا ہے۔ باہمی سیاست سے قطع نظر جرمنی کی آر ڈبلیو ای‘ امریکہ کا منگولین انسٹی ٹیوٹ اور یونائیٹڈ سٹیٹس جیالوجیکل سروے تھر کے کوئلے کو بجلی پیدا کرنے کے لیے موزوں اور مناسب قرار دے چکے ہیں۔ دنیا بھر میں پیدا ہونے والی بجلی کی مقدار بیس ہزار دو سو اکسٹھ ٹیرا واٹ آور (TWH) ہے جس میں تیل سے ایک ہزار ایک سو گیارہ‘ گیس سے چار ہزار تین سو ایک‘ ایٹمی طاقت سے دو ہزار سات سو اکتیس‘ پانی سے تین ہزار دو سو اٹھاسی‘ دیگر ذرائع (سولر‘ ونڈ انرجی وغیرہ) سے پانچ سو ارسٹھ اور کوئلے سے آٹھ ہزار دو سو تریسٹھ ٹیراواٹ آور بجلی پیدا ہوتی ہے۔ اگر اسے شرح فیصد سے ناپا جائے تو دنیا کی کل بجلی کا اکیس فیصد گیس سے‘ سولہ فیصد پانی سے‘ تیرہ فیصد ایٹمی طاقت سے‘ تیل سے پانچ فیصد‘ دیگر ذرائع سے تین فیصد اور کوئلے سے اکتالیس فیصد بجلی پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس کے بالکل الٹ ہے۔ یہاں تیل سے چالیس فیصد اور کوئلے سے اعشاریہ پانچ (0.5) فیصد بجلی پیدا ہوتی ہے۔ جب تک تھرکول کا منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا تب تک اگر ہم کوئلہ درآمد کر کے بھی بجلی پیدا کریں تو اس کی پیداواری لاگت تقریباً بارہ روپے فی کلو واٹ بنتی ہے جو تیل سے پیدا ہونے والی بجلی سے کافی کم ہے۔ اگر پاکستان اگلے تین چار سال میں ہائیڈل پاور سے دس ہزار میگاواٹ مزید بجلی پیدا کر لیتا ہے اور تیل سے بجلی پیدا کرنے والے یونٹس کو کوئلے پر شفٹ کر لیتا ہے تو بجلی کی کل پیداواری لاگت نصف ہو سکتی ہے جس سے نہ صرف یہ کہ سرکلر ڈیٹ کا مسئلہ حل ہو جائے گا بلکہ صارفین کو فرنس آئل کی روز افزوں بڑھتی ہوئی قیمتوں کے نتیجے میں ہر دوسرے مہینے سکائی لیب کی طرح گرنے والے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز سے بھی نجات مل جائے گی۔ فی الوقت پاکستان میں تمام ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کی اوسط پیداواری لاگت چودہ پندرہ روپے اور اوسط قیمت فروخت گیارہ بارہ روپے فی یونٹ ہے۔ تین روپے کے اس منفی فرق کے طفیل سرکلر ڈیٹ ہر روز بڑھتا جا رہا ہے۔ اسے کم کرنے بلکہ روکنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ہائیڈل بجلی کی پیداوار زیادہ سے زیادہ کی جائے۔ ممکنہ حد تک تیل پر چلنے والے پیداواری یونٹس کو کوئلے پر شفٹ کیا جائے۔ گیس سے بجلی پیدا کرنے والے یونٹس کو گیس کی فراہمی ترجیحی بنیادوں پر دی جائے اور جدید تحقیق پر مبنی پیداواری یونٹس کو فروغ دیا جائے۔ پاکستان میں قدرتی گیس کے درجنوں فیلڈ ہیں جہاں سے گیس حاصل کی جاتی ہے۔ قدرتی گیس کی دو اقسام ہیں ایک قسم جو ہم گھروں میں‘ سی این جی سٹیشنوں پر اور بجلی گھروں میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ قسم سویٹ گیس کہلاتی ہے۔ دوسری قسم کو ٹیل (Tail) گیس کہا جاتا ہے۔ یہ گیس ناقابل استعمال ہے کیونکہ اس میں ایسے کیمیکلز ہوتے ہیں جو مشینری کو کھا جاتے ہیں۔ گیس کی یہ قسم کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے بلکہ یہ پیدا ہونے والی قدرتی گیس میں ہی شامل ہوتی ہے؛ تاہم اسے گیس پیوریفائنگ پراسس کے دوران علیحدہ کیا جاتا ہے اور اسے گیس فیلڈ پر ہی ایک اونچی چمنی کے ذریعے جلا دیا جاتا ہے۔ اگر اس گیس میں موجود نقصان دہ اور ضرر رساں کیمیکلز جن کو علیحدہ کرنا ممکن نہیں کے مطابق پیدا کرنے والی مشینری بنوائی جائے تو ہوا میں جلا دی جانے والی اس گیس سے بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ یہ بات کوئی تھیوری نہیں ہے بلکہ پاکستان میں ایسا ہو رہا ہے۔ سندھ میں قادرپور گیس فیلڈ سے نکلنے والی گیس کی اسی بیکار اور ناکارہ قسم سے دو سو سترہ میگاواٹ کا بجلی گھر چلایا جا رہا ہے اور اسی تکنیک کو مدنظر رکھتے ہوئے دیگر گیس فیلڈز پر بجلی گھر لگا کر کئی ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ دریائے سندھ سے ایک غیر ملکی تحقیقی مقالے کے مطابق پچاس ہزار سے ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے بشرطیکہ بھارت دریائے سندھ کے پانی کو روکنے کے منصوبے ترک کردے۔ بھارت سے دوستی کی خواہش میں بے حال ہونے والے میاں نوازشریف کو اگر بھارت سے اپنی اس یکطرفہ محبت سے فرصت ملے تو اس مسئلے پر بھی کوئی اصولی موقف اختیار کر کے ملک عزیز کو بنجر ہونے سے بچائیں اور بجلی میں خودکفالت کی طرف مثبت پیش رفت کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں