"KMK" (space) message & send to 7575

حلوائی کی دکان اور نانا جی کا فاتحہ

دیو سائی سے سکردو کا راستہ بڑا تکلیف دہ اور تھکا دینے والا تھا لہٰذا فیصلہ ہوا کہ یہاں سے سیدھالوئر کچورا جھیل جائیں گے اور وہیں رہائش رکھی جائے گی۔ لوئر کچورا جھیل کو شنگریلا جھیل بھی کہا جاتا ہے۔ اس جھیل کے کنارے اول اول بریگیڈئر اسلم خان نے جو ایئرمارشل اصغر خان کے بھائی تھے‘ شنگریلا ریزارٹس کے نام سے ایک ٹورسٹ ریزارٹ بنائی۔ یہاں جھیل کے پاس سرسبز میدان میں پروں کے بغیر ایک جہاز کھڑا ہے جس پر اورینٹ سکائی لائنز لکھا ہوا ہے۔ یہ اورینٹ ایئر ویز کا جہاز DC-3 ہے جو پچاس کی دہائی میں سکردو ائیرپورٹ سے اڑنے کے محض تین منٹ بعد ایک انجن خراب ہوجانے کے باعث دریائے سندھ میں لینڈ کر گیا۔ سارا عملہ اور مسافر محفوظ رہے۔ کچھ عرصہ یہ جہاز دریاکے کنارے پڑا رہا پھر اسے شنگریلا والوں نے محض ڈیڑھ سو روپے میں خرید لیا۔ لکڑی اور لوہے کے رولرز پر رکھ کر یہ جہاز خچروں، گھوڑوں اور سینکڑوں مزدوروں کے ذریعے کھینچا گیا اور تقریباً تین ماہ میں یہ جہاز موجودہ جگہ پہنچا دیا گیا۔ یہ اورینٹ ایئر ویز کا جہاز تھا۔ قائداعظم کی فرمائش پر بنائی گئی اولین ائیرلائن کا جہاز۔ قائداعظم کی خواہش پر دولت مند مسلمان تاجر مرزا احمد اصفہانی اور آدم جی حاجی دائود نے 23 اکتوبر 1946ء کو اورینٹ ایئر ویز کے نام سے ایک کمپنی کلکتہ میں رجسٹر کروائی۔ اسی سال انہوں نے ٹیکساس سے تین DC-3 جہاز خریدے اور لائسنس حاصل کیا۔ ماہ جون میں اس ایئرلائن نے آپریشن شروع کیا۔ چودہ اگست 1947ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا تو اصفہانی صاحب نے جہاز اور سارا عملہ پاکستان شفٹ کرلیا۔ اورینٹ ایئر لائن برصغیر کی پہلی پرائیویٹ ایئرلائن تھی۔ بعد ازاں ایئرلائن نے مزید دس عدد DC-3 اور تین کنویئر 240 جہاز خرید لیے۔ ہیڈکوارٹر کراچی قرار پایا۔ اس ایئرلائن نے کراچی، ڈھاکہ براستہ دہلی کلکتہ، کراچی، لاہور، پشاور، کراچی، کوئٹہ، لاہور، اور فیصل آباد کے لیے پروازیں شروع کردیں۔ یہ پاکستان کے لیے مسلمان تاجروں کا ایثار اور قائد کی خواہش کا نتیجہ تھا۔ اسی دوران BOAC کو پاکستان میں فلائٹ آپریشن کی اجازت مل گئی۔ سرمائے، جہازوں اور تکنیکی سپورٹ سے لیس برطانوی کمپنی نے بے سروسامان پاکستانی ایئرلائن کے کڑاکے نکال دیئے۔ ایئرلائن کا چلنا محال ہوگیا۔ مزید برآں غیر ملکی پائلٹوں کی تنخواہ اور دیگر اخراجات نے مالی مشکلات مزید بڑھا دیں۔ اورینٹ ایئرویز کے ڈائریکٹروں کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ حکومت پاکستان کی پیشکش کو قبول کرلیں۔ اس طرح 5اگست 1953ء کو وزیراعظم پاکستان اور، اورینٹ ایئرویز کے ڈائریکٹروں نے ایک معاہدے پر دستخط کردیے جس کے بعد اورینٹ ایئر ویز پاکستان کی سرکاری ائیرلائن پاکستان انٹرنیشنل یعنی پی آئی اے کا حصہ بن گئی۔ مارچ 1955ء میں اورینٹ ایئرویز کے تمام جہاز، عملہ، آپریشن اور اثاثے پی آئی اے کو منتقل ہوگئے۔ یوں اورینٹ ایئرویز کا اختتام اور پی آئی اے کا آغاز ہوا۔ پی آئی اے کی اُٹھان بڑی زبردست تھی۔ اس کا موٹو تھا ’’باکمال لوگ، لاجواب سروس‘‘ اور یہ سو فیصد درست بھی تھا۔ تب یہ چھوٹی سی ایئرلائن اپنی کارکردگی، سروس، نظم و نسق اور مہارت کے حوالے سے مثالی سمجھی جاتی تھی اور اس کا اعتراف ائیرلائنز کی کارکردگی کا جائزہ لینے والے مختلف عالمی ادارے بھی کرتے تھے۔ لوگ پی آئی اے پر اعتماد کرتے تھے۔ پی آئی اے کے پائلٹ، دیگر عملہ اور تربیتی ادارے دوسروں کے لیے مشعل راہ تھے اور کئی ممالک ان سے فیض یاب ہوتے تھے۔ حکومت کے پاس پیسہ نہیں تھا، دیگر وسائل بھی نہ ہونے کے برابر تھے مگر ان برے حالات میں بھی پی آئی اے کا گراف ہر لحاظ سے اوپر کی طرف جاتارہا۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ پی آئی اے کے انتظامی معاملات میں سیاسی عمل دخل بالکل نہیں تھا۔ عملہ میرٹ پر بھرتی ہوتا تھا۔ ضرورت کے مطابق لوگ بھرتی ہوتے تھے اور وہ کام کرتے تھے۔ مرزا احمد اصفہانی اس کے پہلے چیئرمین تھے اور انہوں نے اس ایئرلائن کو انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں چلایا۔ اس دوران پی آئی اے نے وقت کے مطابق بہترین جہازوں سے ایک بہترین فلیٹ قائم کیا اور اسے منافع بخش ادارہ بنا دیا۔ اردگرد کے ممالک کے لیے پی آئی اے کی کارکردگی اور ترقی لائٹ ہائوس کا کام دے رہی تھی۔ تقریباً تمام عرب ممالک، خلیجی ریاستوں اور دیگر ممالک نے پی آئی اے سے عملہ ادھار لے کر اپنا کام شروع کیا۔ عملے کو پی آئی اے کے تربیتی شعبوں سے تربیت دلائی‘ پائلٹ ادھار لیے اور اپنی اپنی ایئرلائنز قائم کیں۔ اب صورتحال بالکل الٹ ہے۔ پی آئی اے کی مدد سے شروع ہونے والی ائیرلائنز مسلسل ترقی کررہی ہیں اور پی آئی اے مسلسل تنزلی کا شکار۔ ہر آنے والا دن بری خبر لے کر آتا ہے۔ خسارہ بڑھتا جارہاہے اور ہر روز کسی نہ کسی سیکٹر پر پی آئی اے کا آپریشن بند ہورہا ہے۔ گلاسگو، ہوسٹن اور شکاگو تو اس کی تھوڑا عرصہ پہلے کی مثالیں ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں‘ پی آئی اے نے اپنا ایمسٹرڈم، فرینکفرٹ، دہلی اور ممبئی کا آپریشن ختم کردیا۔ ملتان سے دبئی‘ پی آئی اے کی ہفتے میں تین پروازیں تھیں جو ختم کر دی گئیں۔ اب ملتان سے دبئی کے لیے ’’فلائی دبئی‘‘ نامی ائر لائن ہفتے میں تین دن فلائٹس چلا رہی ہے اور تین دن سیالکوٹ دبئی فلائٹس جارہی ہیں۔ سیالکوٹ سے ’’ایئرعریبیہ‘‘ ہفتے میں سات دن شارجہ کے لیے فلائٹس چلائے گی۔ ایئرعریبیہ اس سے پہلے پشاور اور کراچی سے اپنی پروازیں چلا رہی ہے۔ اریٹیریا، سری لنکا اور دیگر چھوٹے چھوٹے ممالک پاکستان سے فلائٹس چلا کر سارا منافع سمیٹ رہے ہیں اور ہم آہستہ آہستہ اپنا آپریشن ہر جگہ ختم کرتے جارہے ہیں۔ دوسری طرف کوئی اچھی ایئرلائن یا مغربی ایئرلائن پاکستان میں کام نہیں کررہی۔ ایک ایک کرکے تمام یورپی اور اچھی ایئرلائنز پاکستان میں اپنے آپریشن بند کر چکی ہیں۔ یہ سلسلہ پین ایم سے شروع ہوا۔ برٹش ایئرویز، لفتھانزا، کے ایل ایم، سوئس ایئر، الایطالیہ، ایئرفرانس، سنگا پور ایئرلائن، ملائیشیا حتی کہ مصری ایئرلائن نے بھی یہاں اپنا سارا آپریشن بند کردیا۔ پاکستان کی قومی ایئر لائن کے لیے یہ موقع تھا کہ بند کیے گئے تمام روٹس پر فلائٹس شروع کرکے منافع کمائے اور اپنا نیٹ ورک بڑھائے مگر یہاں سب کچھ الٹ ہوا۔ بڑی ایئرلائنز یہاں سے رخصت ہوئیں اور سارا بزنس امارات، اتحاد، تھائی، ایئرعریبیہ اور فلائی دبئی ٹائپ ائیرلائنز نے ہتھیا لیا کیونکہ پی آئی اے کے کرائے، سہولیات، کارکردگی اور سروس اس قابل نہیں رہی تھی کہ لوگ اس پر اعتماد کرتے۔ بہت سے روٹ ایسے تھے جن پر پی آئی اے کو اجارہ داری اور اچھے بزنس کے ذریعے نفع بخش بنایا جاسکتا تھا مگر کمیشن مافیا نے سارے ادارے کا بیڑہ غرق کر دیا۔ کبھی ٹرکش ایئرلائن سے کمیشن لے کر اچھے روٹس چھوڑنے کی خبریں تھیں اور کبھی کمیشن لے کر مہنگے پرزوں کی خرید کی داستانیں تھیں۔ غرض اس ڈوبتے ہوئے ٹائی ٹینک کو بچانے کے بجائے ہر کسی نے اس میں مزید سوراخ کیے۔ پی پی پی کی حکومت میں اس ادارے کو دکانداری کا ذریعہ بنا لیا گیا اور دنیا میں فی جہاز سب سے زیادہ ملازمین کا اعزاز رکھنے والی اس قومی ایئرلائن میں پہلے تو برسوں قبل فارغ ہونے والے ہزاروں ملازمین معہ گزشتہ تنخواہ و الائونس بحال کر دیے پھر مزید بھرتیاں کی گئیں اور ہر بھرتی پر نقد وصولی کی گئی۔ ملتانی وزیراعظم کے سارے خاندان نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ اسے کہتے ہیں ’’حلوائی کی دکان اور نانا جی کا فاتحہ‘‘!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں