"KMK" (space) message & send to 7575

میری اور میرے بچوں کی عید

گزشتہ دو دن سے ہر فون کال کا دوسرا سوال یہ ہے کہ ’’عید کیسی گزر رہی ہے؟‘‘ یہ روٹین کا سوال ہے اور اس کا جواب بھی روٹین کا ہے کہ ٹھیک گزر رہی ہے۔ ہر دوست فون اٹھانے پر پہلے عید کی مبارک دیتا ہے اور پھر خیرخیریت دریافت کرنے کے بعد پوچھتا ہے کہ عید کیسی گزری یا کیسی گزر رہی ہے؟ اس کا جواب بھی اسی طرح بنا بنایا ہے کہ ٹھیک گزر گئی ہے یا ٹھیک گزر رہی ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ عید اب صرف گزرتی ہے۔ اچھی گزرے عرصہ ہو گیا ہے۔ ہم خود تو ایک طرف رہے‘ اب ہمارے بچے بھی ویسی عید نہیں گزارتے جیسی عید ہم اپنے بچپن میں گزارتے تھے۔ عید کا سارا منظرنامہ تبدیل ہو چکا ہے۔ چوک شہیداں میں ہم چاروں بہن بھائی عید والے دن علی الصبح اٹھتے تھے۔ ایک غسل خانہ تھا اور چھ لوگ نہانے والے ہوتے تھے۔ لہٰذا ’’باتھ مینجمنٹ‘‘ کا پروگرام ترتیب دیا جاتا تھا۔ پہلے مردوں اور لڑکوں کی باری ہوتی تھی کہ انہوں نے عید نماز پر جانا ہوتا تھا۔ میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا۔ مجھے بالٹی میں پانی ڈال کر اوپر والے کمرے میں بھیج دیا جاتا تھا۔ کمرے کے ایک کونے میں پانی کے نکاس کا راستہ تھا۔ اس کونے کے دو طرف دو چارپائیاں کھڑی کر کے ان پر چادر ڈال کر ایک علیحدہ عارضی غسل خانہ بنا دیا جاتا تھا۔ یہ میرا غسل خانہ ہوتا تھا۔ نہا دھو کر کپڑے پہن کر ہم عید نماز کے لیے دولت گیٹ روانہ ہو جاتے۔ ہمارے پاس سکوٹر موجود تھا اور ہم دونوں بھائی والد صاحب کے ساتھ بیٹھ کر عیدگاہ جا سکتے تھے مگر ایسا نہ ہوتا تھا۔ ہم اپنے چچا اور تایا کے ساتھ ان کے بچوں کے ہمراہ تانگے پر بیٹھ کر عیدگاہ جاتے تھے۔ سارا راستہ بلند آواز سے تکبیرات پڑھتے۔ تایا مرحوم عبدالعزیز ایک خاص لے سے ’’اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد‘‘ پڑھتے اور ہم سب بچے‘ والد صاحب اور چچا جان عبدالرئوف ان کے ساتھ ساتھ تکبیرات پڑھتے تاوقتیکہ عیدگاہ آ جاتی۔ عید نماز کے فوراً بعد ہماری عید شروع ہو جاتی۔ خریداری کی ابتدا کھوئے والی مٹھائی سے شروع ہوتی جو لکڑی کی ٹرٹر کرتی ہوئی ’’ٹٹیری‘‘ سے ہو کر جامنی رنگ کے نہایت بدنما گھوڑے پر ختم ہوتی۔ یہ گھوڑے صرف عید والے دن عیدگاہ کے باہر نظر آتے تھے۔ پرانے سے کپڑے کو رنگدار کلف لگا کر‘ ٹانگوں کی جگہ پر سرکنڈے لگا کر اور اوپر کاغذ چپکا کر بنائے ہوئے ان گھوڑوں کا رنگ فوراً ہاتھوں اور کپڑوں پر لگ جاتا تھا مگر یہ گھوڑے ہمارے پسندیدہ ہوتے تھے اور ان کو خریدنے کے لیے ہم عید کا انتظار کیا کرتے تھے۔ ہم عید گاہ سے سیدھے اپنی چھوٹی پھوپھی کے گھر جاتے جو عیدگاہ سے محض سو دو سو گز کے فاصلے پر تھا۔ عیدی کی وصولی کا کام وہاں سے شروع ہوتا اور گھر جانے کے تھوڑی دیر بعد ختم ہو جاتا۔ چار چھ گھر تھے جہاں سے عیدی ملتی تھی۔ کل عیدی ملا جلا کر پچاس ساٹھ روپے کے قریب بنتی تھی۔ سال بھر میں اس کے علاوہ اور کسی دن ہمارے پاس یکمشت اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ گھر آنے کے بعد عیدیاں وصول کر کے ہم گھر سے نکل جاتے تھے اور پھر واپسی تبھی ہوتی تھی جب ہم تھک جاتے تھے یا دن ڈھلنے لگتا تھا۔ پیسے ختم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ دن ڈھلے جب واپس گھر آتے تو جیب میں بیس پچیس روپے موجود ہوتے تھے جو اگلے دن کے لیے کافی ہوتے تھے۔ دن بھر کی مصروفیات بڑی مزیدار ہوتی تھیں۔ گلی میں بچوں نے بالٹی میں پانی ڈال ڈال کر بالٹی میں تبت کریم کی خالی شیشی رکھ کر ایک گیم بنائی ہوتی تھی۔ بچے ا وپر سے ایک پیسہ یا دو پیسے کا سکہ پانی میں گراتے۔ اگر وہ سکہ بالٹی کے پیندے میں رکھی تبت کریم کی شیشی میں چلا جاتا تو اسے اتنی ہی مالیت کا ایک سکہ انعام ملتا ورنہ اس کا اپنا سکہ بھی بالٹی والے کی جیب میں چلا جاتا۔ پھر ہم ریاض کی دکان پر جاتے جہاں ایک فریم میں لگے کپڑے پر مختلف اشیا لگی ہوتیں۔ پلاسٹک کا پستول‘ ٹوپی والا سپاہی‘ بسکٹ کا ڈبہ‘ پلاسٹک کی موٹر سائیکل‘ شیشے کے ٹکڑوں سے بھری ہوئی رنگ برنگی دوربین‘ ٹین کی موٹر لانچ اور اسی قبیل کی ایسی چیزیں جو آج نہایت گھٹیا اور فضول لگتی ہیں‘ تب وہ ہمارے لیے دنیا کی بہترین ا ور خوبصورت چیزیں ہوتی تھیں۔ دو پیسے میں لاٹری نکالی جاتی۔ عموماً خالی پرچی نکلتی لیکن یہاں تین چار آنے ضائع کیے بغیر ہم آگے نہ ہلتے۔ چینی سے ہماری آنکھوں کے سامنے بننے والے رنگدار لچھے‘ میٹھے پان‘ گڑ کی جلیبیاں‘ تخم ملنگاں کا شربت‘ میٹھی سونف‘ آلو کچالو‘ سکرین والی بوتلیں‘ قلفیاں اور اسی قسم کا الا بلا۔ غرض ہر چیز کھائی جاتی۔ پھر ہمارا رخ گلی کے سرے پر واقع کھلے میدان کی طرف ہو جاتا۔ یہاں گول گھومنے والے جھولے جن میں ہاتھی‘ شیر‘ گھوڑے اور مگرمچھ ہوتے تھے پر سواری کی جاتی۔ اوپر سے نیچے گول گھومنے والے جھولے پر سواری کی جاتی۔ بندر کا تماشا دیکھا جاتا۔ سپیرے سے سانپ دیکھا جاتا۔ تیمور روڈ پر سکول کے ساتھ خالی جگہ پر مداری آتا۔ طوطا توپ چلاتا‘ بکری چھوٹے سے پائے پر کھڑی ہوتی۔ کتا کرتب دکھاتا اور آخر میں بکری سلام کرتی‘ سب بچے پیسے دو پیسے زمین پر پھینکتے اور آگے چل پڑتے۔ نہ ہمیں گھر جانے کی جلدی ہوتی تھی اور نہ گھروالوں کو ہماری سلامتی کی فکر ہوتی تھی۔ ہم منشی کے پاس جاتے اور چھوٹا سائیکل کرائے پر لیتے۔ چار آنے فی گھنٹہ کے حساب سے آٹھ آنوں میں دو گھنٹے فضول میں سائیکل چلاتے۔ دو تین بار گرتے‘ گھٹنے چھلواتے‘ کپڑے گندے کرتے اور منشی کو سائیکل واپس کر کے درکھانوں والے محلے میں شارٹ کٹ لگا کر واپس اپنے محلے میں آ جاتے۔ لالہ مشتاق سے ’’ڈکروں والا‘‘ فالودہ کھایا جاتا۔ چچا ملنگ کی دکان سے پودینے والی ٹافیاں اور چورن خریدا جاتا۔ چاچا پاری کی دکان سے سوہن حلوہ لیا جاتا اور سامنے گامے چاچا سے دال مونگ کے ساتھ ڈولی روٹی کھائی جاتی۔ اللہ جانے ہم اتنا سب کچھ کیسے کھا لیتے تھے اور اس سے زیادہ حیرت اب اس بات پر ہوتی ہے کہ ہم سارا الا بلا اور الم غلم کھا کر اسے ہضم بھی کر جاتے تھے۔ عید کا دن ہمارے لیے واقعتاً عید کا دن ہوتا تھا۔ کم از کم ہمارے بچے اس عید سے محروم ہیں۔ اب بچوں کو ہزاروں روپے عیدی ملتی ہے مگر وہ اسے پا کر بھی خوش نہیں ہوتے کہ خوشی روپوں میں نہیں لاحاصل چیز کے حصول میں ہوتی ہے۔ اب بچوں کے لیے کچھ نیا نہیں۔ عید کے دن ان کے پاس کوئی ایسی مصروفیت یا کام نہیں جو انہیں سال بھر نصیب نہ ہوا ہو۔ ان کے پاس جانے کے لیے ایسی کوئی جگہ نہیں بچی جس کے لیے وہ عید کے منتظر رہیں۔ سارا سال ہر چیز کے حصول کی سہولت سے ان سے لاحاصل کے حصول کی خوشی چھین لی ہے۔ فوڈ چینز کی اب خاص اہمیت نہیں رہی۔ عید پر نئے کپڑوں کی خوشی کا مفہوم انہیں معلوم ہی نہیں کہ وہ سارا سال عام دنوں میں بھی برانڈڈ کپڑوں میں ملبوس رہتے ہیں۔ عید کے دن شلوار قمیض پہننا اب ان کے لیے کسی خوشی کا نہیں بلکہ مجبوری کا نام ہے۔ میرے بچوں کی عید ویسی نہیں جیسی میری عید ہوا کرتی تھی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میری عید بھی اب ویسی نہیں رہی جیسی ہوا کرتی تھی۔ میرے بچے تھوڑی دیر باہر رہیں تو میں ان کی سلامتی کے بارے میں فکرمند ہو جاتا ہوں۔ میری بچپن کی عید میں کبھی پولیس والے عیدگاہ میں جانے والوں کی تلاشی نہیں لیتے تھے۔ دوران نماز ہمیں خودکش حملہ آور کا خوف نہیں ہوتا تھا۔ کسی مجمعے میں جاتے ہوئے ریموٹ کنٹرول دھماکے کا خوف نہیں ہوتا تھا۔ عید والے دن کوئی وزیر خودکش دھماکے میں جاں بحق نہیں ہوتا تھا۔ غلام محمد اپنی پانچ سالہ بیٹی کے لیے عید کے نئے کپڑے نہ بنوا سکنے پر خودکشی نہیں کرتا تھا۔ سکینہ اپنی دو بیٹیوں سمیت غربت کے مارے نہر میں چھلانگ نہیں لگاتی تھی اور عید سے چند روز قبل بڑھتی ہوئی عمر کی تین کنواری بہنیں غربت کے باعث شادی نہ ہونے پر نہر میں نہیں کودتی تھیں۔ کوئی بے روزگار باپ اپنی اولاد کو بھوک کے مارے بلکتا دیکھ کر زہر نہیں دیتا تھا۔ مسجدیں غیر محفوظ نہیں تھیں اور مسلمان کو مسلمان سے کم از کم خدا کے گھر میں جان کا خوف نہیں تھا‘ لیکن اب یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ اس عید پر میری دعا ہے کہ اللہ غفور الرحیم اگلے سال میرے بچوں کو بھی میرے بچپن جیسی عید نصیب کرے جس میں صرف اور صرف خوشیاں تھیں‘ کسی قسم کے خوف کا نام و نشان تک نہ تھا۔ لوگ صرف قضائے الٰہی سے مرتے تھے‘ اختیاری حرام موت کو گلے نہیں لگاتے تھے۔ ہم کتنے بدنصیب ہیں کہ بچوں کو عید پر ہزاروں روپے عیدی تو دے سکتے ہیں‘ عید کی خوشیاں نہیں دے سکتے۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں