"KMK" (space) message & send to 7575

بے شک انسان خسارے میں ہے

کالم لکھنے کی طویل غیر حاضری تھی۔ معاملہ سفر کا نہیں تھا۔ سفر تو میرا مقدر ہے اور کالم نویسی پیشہ۔دونوں کے باہمی تعلقات انتہائی خوشگوار ہیں۔سفر میں کالم لکھنے میں نہ تو کوئی دقت ہے اور نہ کوئی مشکل۔ ایک زمانہ تھا‘ جب کالم لکھنے کے بعد ہاتھ میں لیے پھرتے تھے کہ کہاں سے فیکس کیا جائے۔رسل سکوائر لندن کے ایک فلیٹ میں کالم لکھا اور ہاتھ میں پکڑے فیکس مشین والا پی سی او ڈھونڈا جا رہا ہے۔ مسلسل ڈیڑھ گھنٹے کی پیدل تگ و دو کے بعد ایک ڈاکخانے میں یہ بندوبست میسر ہوا۔
کالم فیکس کیا اور دوہرا تہرا کر کے جیب میں ٹھونس لیا اور آکسفورڈ سٹریٹ پہنچ گئے۔ دو گھنٹے بعد موبائل پر گھنٹی بجی۔ فون اٹھایا تو دوسری طرف ایڈیٹوریل انچارج تھے۔ کہنے لگے کہ دوسرا صفحہ ٹھیک سے نہیں آیا۔پڑھا نہیں جا رہا۔ دوسرا صفحہ دوبارہ فیکس کریں۔ اب دوسری مصیبت آن پڑی۔ ایک تو فیکس مشین تلاش کی جائے اور دوسری یہ کہ اب کئی تہوں والا مڑا تڑا کالم والا صفحہ کس طرح سے''استری‘‘ کیا جائے کہ وہ دوبارہ مشین میں سے بخیرو خوبی گزر سکے۔ایک گھنٹے بعد ایک ڈاکخانہ ملا۔ اندر جا کر بنچ پر کاغذ پھیلایا اور کافی دیر تک ہاتھ سے استری کیا۔ جب میں نے یہ خراب و خستہ کاغذ گوری لیڈی آپریٹر کے ہاتھ میں پکڑایا تو وہ آثار قدیمہ سے نکلنے والے اس کاغذ کو دیکھ کر پہلے تو زور سے ہنسی پھر اس نے یہ کاغذ ہوا میں لہرایا اور بآواز بلند اپنے دوسرے ہم پیشہ مرد و خواتین کو مخاطب کر کے یہ عجوبہ روزگار کاغذ دکھایا۔ یہ حرکت کرنے کے بعد اس نے کاغذ واپس مجھے پکڑایا اور کہا کہ میری تمام تر دلی ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں مگر برسوں پرانی ہماری فیکس نے کبھی اس قسم کی چیز نہ تو پہلے دیکھی ہے اور نہ ہی اسے اس قسم کی چیزوں کو فیکس کرنے کا کوئی تجربہ ہے۔ پھر مسکرا کر کہنے لگی ''یہ سب کچھ آپ نے اکیلے کیا ہے یا(میرے ساتھ آنے والے میرے دوست کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگی)آپ دونوں نے مل کر یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے؟‘‘ جواباً میں نے جیب میں اس کاغذ سے بھی زیادہ مڑی تڑی مبلغ ساڑھے تین پائونڈ کی رسید نکالی اور اس کے ہاتھ میں پکڑا کر کہا کہ اگر بی ٹی والے (برٹش ٹیلی کام) یہ والا صفحہ درست طور پر فیکس کر دیتے تو میں اس قیمتی کاغذ کی آپ کو ہوا بھی نہ لگنے دیتا۔اب خاتون کے چہرے پر خجالت کے آثار نظر آئے۔ اس نے کاغذ کو کائونٹر پر رکھا۔ ٹیپ سے ایک اور سیدھا کاغذ اس کے ساتھ جوڑا اور اسے مشین میں ڈال کر نمبر ڈائل کر دیا۔ ساتھ جوڑے ہوئے سیدھے کاغذ کے طفیل میرا کاغذ بھی مشین سے گزر گیا۔ ڈاکخانے سے اخبار کے دفتر فون کیا۔ فیکس کیے جانے والے کاغذ کا حال پوچھا۔ جواب ملا کہ بس گزارا ہے۔ کسی نہ کسی طور پڑھ لیں گے۔
اسی طرح کی صورتحال امریکہ میں پیش آتی تھی۔ کالم لکھ لیا ہے اور اب فیکس مشین ڈھونڈی جا رہی ہے جو تقریباً متروک ہو چکی تھی۔ شوکت فہمی نے اس مصیبت سے جان چھڑوانے کے لیے ایک مشین خرید کر میرے کمرے میں لگا دی تھی۔ اب بھی یہ فیکس مشین اسی کمرے کے کونے میں پڑی ان دنوں کی یاد تازہ کرتی ہے۔ رکھی صرف اس لیے ہے کہ ممکن ہے کبھی ایمرجنسی میں پھر اس کی حاجت ہو جائے۔ اب بڑی آسانی ہے۔ فون میں سیکنر کی ایپلیکشن موجود ہے۔ ہائیڈ پارک کے بنچ پر بیٹھ کرکالم لکھا۔ فون سے سکین کیا۔پیکیج میں موجود جی پی آر ایس کی سہولت کے طفیل اسے چند سکینڈ میں ای میل کے ذریعے بھیج دیا اور قصہ تمام ہوا۔ٹرین میں ‘پارک میں‘ گھر میں‘لائبریری میں ‘ غرض آپ کہیں بھی موجود ہیں کالم لکھ کر بھیجنا اب اتنا آسان ہے کہ چند سال قبل اس کاتصور بھی نہیں کیاجا سکتا تھا۔میں ویسے بھی سفر کا عادی ہوں اور اس دوران اپنے سارے کام کسی نہ کسی طور کرتا ہی رہتا ہوں لیکن اب کی بار معاملہ ذرا مختلف تھا۔
گھر میں تل دھرنے کے لیے تو بے شمار جگہیں میسر تھیں مگر کہیں بیٹھ کر کالم لکھنے کی جگہ بہرحال نہیں تھی۔مہمانوں کی آمد سے قبل کی جانے والی صفائی تقریباً جنرل ہولڈاپ جیسی تھی جس سے کوئی شے نہیں بچ پائی تھی۔حتیٰ کہ میرے کاغذ اور قلم بھی لاپتہ کے زمرے میں آ چکے تھے۔ اس آپریشن کلین اپ کی انچارج میری بڑی بیٹی تھی اور اس کے نائب کے فرائض چھوٹی بیٹی نے سرانجام دیے تھے۔ایک عرصے کے بعد گھر کی انچارج میری منجھلی بیٹی اس گھمسان کے معرکے سے لاتعلق تھی بلکہ اسے زبردستی اس میں شرکت سے روک دیا گیا تھا۔بڑی بہن کا کہنا تھا کہ اسے گھر سے رخصتی سے کم از کم تین چار دن پہلے تو اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔منجھلی بیٹی نے یہ آفر سنتے ہی کہا کہ میں سونے جا رہی ہوں۔
شادی کارڈ چھپے تو اس پر میزبان کے طور پر صرف مجھ اکیلے کا نام تھا۔ بڑی بیٹی کی شادی پر دعوتی کارڈ پر میرے ساتھ میری اہلیہ کا نام بھی تھا۔ اس بار صرف میرا نام تھا۔ گھر میں مہمان تھے 
اور ہر طرف تھے۔ اوپر والا سارا پورشن محمدی بستروں سے مزین تھا ۔ محمدی بستروں میں بڑی برکت ہوتی ہے۔ بیٹھنے کے لیے لائونج تھا۔ ہر کمرے میں بیگ بکھرے ہوئے تھے اور بے ترتیبی اپنے عروج پر تھی۔ صبح سے رات گئے تک مختلف کمروں میں مختلف پارٹیاں اپنی اپنی منڈلی جمائے بیٹھی تھیں۔نوجوان اور بزرگ حتی الامکان ایک دوسرے سے بچ بچا کر اپنا اپنا کیمپ چلا رہے تھے۔ رات گئے مرد حضرات میرے برادر نسبتی کامران کے گھر چلے جاتے تھے۔ سارے بچے ایک ڈبل کیبن ڈالے پر جسے چھوٹے بچے ''ڈیلا‘‘ کہتے تھے‘ سوار ہو کر کبھی برف کا گولا کھانے‘ کبھی قلفی کھانے اور کبھی ہوا کھانے کے لیے نکل جاتے تھے۔ بزرگ خواتین نیچے والے کمروں میں‘دیگر خواتین بالائی منزل پر‘ لڑکے ڈرائنگ روم میں اور لڑکیاں رات کو میری بڑی بیٹی کے گھر چلی جاتی تھیں۔ صبح کا آغاز چھ بجے ہو جاتا تھا اور مختلف کمروں سے لائونج کی طرف آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا‘ جو دوپہر بارہ بجے تک جاری رہتا تھا۔ ناشتے کا وقت بھی صبح چھ بجے سے دوپہر بارہ بجے تک تھا۔ صبح چھ بجے ناشتہ کرنے والوں کا دوپہر کے کھانے کا وقت آخری ناشتے کے اختتام کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا تھا۔ ہر مہمان اپنی جگہ پر میزبان بھی تھا۔ایک عرصے کے بعد یوں ہوا تھا کہ میری منجھلی بیٹی اس سارے ہنگامے میں کمانڈر انچیف کے بجائے محض تماشائی تھی۔ اس نے حسب عادت معاملات کواپنے ہاتھ میں لینے کی دو چار بار تو کوشش بھی کی مگر کسی نے اس کی چلنے ہی نہ دی۔ان چار پانچ دنوں میں میں نے کیا کیا؟یاد کرتا ہوں تو کچھ یاد نہیں آتا۔ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ اس دوران ایک 
لمحے کی فرصت بھی نہیں ملی۔میں رات کو تین بجے کے بعد سوتا تھا اور صبح پہلی کھیپ کے ساتھ اٹھ کر لائونج میں آ جاتا تھا۔ناشتہ چھ گھنٹے پر مشتمل ایک کار مسلسل کا نام تھا۔ مال پوڑے ‘ نان‘ چنے ‘ ڈبل روٹی‘ پراٹھے‘خشک روٹی اور رات کو بچا ہوا سالن۔ باہر سے سپلائی کا سارا انتظام اللہ نواز کے سپرد تھا۔ اللہ نواز میرے پاس گزشتہ تئیس سال سے ڈرائیورہے۔اس نے میری منجھلی بیٹی کو گود کھلایا ہوا ہے۔ اندر کا سارا نظام میرے بچوں کی چھوٹی ممانی اور خالہ نے سنبھالا ہوا تھا۔میں یاد کرتا ہوں تو بس اتنا یاد آتا ہے کہ میں نے اپنے دوستوں کو دعوتی کارڈ بھیجنے کے لیے ایک فہرست بنائی تھی اور وہ فہرست اور کارڈ پانچ حصوں میں تقسیم کر دیے تھے۔ بیرون شہر کارڈ پوسٹ کرنے کی ذمہ داری زاہد کے سر تھی۔ ملتان کے رشتہ داروں کے کارڈ اسماعیل نے تقسیم کیے جو میرا تایا زاد ہے۔ کچھ لوگوں کو اللہ نواز نے کارڈ پہنچائے اور باقی سارے کارڈ سجاد بخاری نے تقسیم کیے۔ میں نے دو تین چکر فرنیچر والے کے پاس اور ایک چکر جیولر کا لگایا اور بس۔ چار پانچ کارڈ میں نے تقسیم کرنے تھے اور وہ میرے دفتر کی دراز میں پڑے ہیں۔ کھانے کا سارا انتظام سجاد بخاری کے ذمے تھا۔ میں نے خود کچھ بھی نہیں کیا مگر ان چار پانچ دن میں‘ میں ایک لمحہ فارغ بھی نہیں رہا۔
آج کالم لکھنے بیٹھا ہوں ۔گھر اتنا خاموش اور سنسان ہے کہ گمان میں نہیں آتا کہ کل تک یہاں کتنی رونق تھی۔ ڈیڑھ سال ہوتا ہے اس گھر کے چھ مکین تھے اب تین ہیں۔آنے والے دنوں میں شاید اس کا واحد مکین میں رہ جائوں گا۔ اور پھر باقی رہے گا نام اللہ کا۔ ساری بھاگ دوڑ‘ دنیاداری ‘خود غرضی‘لالچ اور ہوس۔ سب کچھ بے معنی ہے مگر انسان کو یہ باتیں بڑی دیر سے یاد آتی ہیں۔ ہم سمجھتے بھی ہیں مگر کہاں سمجھتے ہیں؟۔ انسان کے ساتھ یہ المیہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔''بے شک انسان خسارے میں ہے‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں