"KMK" (space) message & send to 7575

چھ میں سے دو سوالوں کے جواب

میرا بیٹا سکول سے آیا تو خلافِ معمول میں گھر میں تھا۔ میں عموماً گھرسہ پہر چار پانچ بجے آتا ہوں مگر گزشتہ روز جلد واپس گھر آ گیا۔ دوپہر کو جب بیٹا واپس سکول سے گھر پہنچا تو مجھے موجود پا کر کہنے لگا بابا جان! آپ سے دو سوال پوچھنے ہیں۔ میں نے کہا، بسم اللہ! پوچھو۔ کہنے لگا اس وقت دنیا کے تمام ملک مقروض ہیں۔ پاکستان تو مقروض ہے ہی۔ دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک امریکہ ہے جو دنیا بھر کو خود قرضے دیتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ چین امریکہ کو قرضے دیتا ہے اور وہ خود بھی مقروض ہے۔ پاکستان سے کئی گنا زیادہ مقروض۔ امریکی قرض تو سینکڑوں ٹریلین میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا بھر کے تمام ملک مقروض ہیں تو پیسہ کہاں ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ جب جہاز تباہ ہوتا ہے تو اس کا بلیک بکس ہمیشہ بچ جاتا ہے، وہ کبھی تباہ نہیں ہوتا جبکہ ہوائی جہاز خود تباہ ہو جاتا ہے۔ آخر بلیک بکس بھی تو کسی ایسے خاص میٹریل سے بنایا جاتا ہے جو کسی صورت تباہ نہیں ہوتا۔ جب ایسا میٹریل موجود ہے اور بلیک بکس بنانے میں استعمال ہو سکتا ہے تو پورا جہاز ہی اس میٹریل سے کیوں نہیں بنایا جاتا؟ میں اس کے دونوں سوال سن کر سوچ میں پڑ گیا۔ تاہم میں نے اسے ٹالنے کی غرض سے کہا کہ اس کے پاس صرف دو سوالات ہیں جبکہ میرے پاس اس قسم کے درجنوں سوالا ت ہیں جن کے جوابات مجھے خود درکار ہیں، تاہم فی الوقت چار سوالات تو بہت اہم ہیں۔ پہلا سوال یہ کہ ملائیشیا کا ہوائی جہاز کہاں ہے اور اس کے ساتھ کیا بیتی؟ دوسرا یہ کہ ڈیڑھ ارب ڈالر کہاں سے آئے ہیں اور کیوں؟ تیسرا سوال یہ کہ طالبان حکومت مذاکرات کا کیا بنے گا اور چوتھا سوال یہ کہ خواجگان ن لیگ کیا چاہتے ہیں؟ میرے پاس ان چاروں سوالات سے متعلق الٹی سیدھی معلومات ہیں، غلط ملط تجزیے ہیں اور گنجلک قسم کی تھیوریاں جو معاملات کو حل کرنے کے بجائے مزید کنفیوژن کا باعث بن رہی ہیں۔ میرے والے چاروں سوالات کے مقابلے میں تمہارے دونوں سوالات کم کنفیوزنگ ہیں۔ تمہارے سوالات کے جوابات بہرحال علمی اور تکنیکی بنیادوں پر تلاش کیے جا سکتے ہیں، حتیٰ کہ کامن سنس سے بھی دیے جا سکتے ہیں مگر میرے والے چاروں سوالات کے جوابات کے لیے ہر قسم کی کوشش اور طے شدہ قاعدے ضابطے اپنے ہاتھ کھڑے کر چکے ہیں۔ 
تمہارا پہلا سوال ہے کہ دنیا کے سب ملک مقروض ہیں تو یہ پیسہ کہاں گیا ہے؟ تمہارا مطلب ہے کہ اگر کچھ ملک مقروض ہوتے اور کچھ قرض خواہ ہوتے تو بات پلے پڑتی مگر سب کے سب ملک مقروض ہیں تو آخر قرض کا یہ پیسہ کہاں گیا؟ اس کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ ہم گزشتہ کئی عشروں سے عمومی طور پر اور گزشتہ تین عشروں سے خصوصی طور پر ورلڈ بنک، آئی ایم ایف، اے ڈی بی اور اس قسم کے دوسرے عالمی اداروں سے قرض لے رہے ہیں۔ یہ سارا قرض کہاں گیا؟ کہاں خرچ ہوا؟ اس کے ثمرات عام آدمی تک کیوں نہیں پہنچے؟ اور اس سے ملک کی معاشی حالت سنبھلنے کے بجائے مزید خراب تر کیسے ہو گئی؟ جب قرضے ترقیاتی اور معاشی بہتری کی سکیموں کے بجائے غیر ترقیاتی مدات میں خرچ کیے جائیں گے اور عوامی بہبود کے بجائے ذاتی فوائد پر خرچ کیے جائیں گے تو یہی ہو گا لیکن یہ معاشی گورکھ دھندہ ہے۔ اس میں امریکہ بھی مقروض ہے اور چین بھی، برطانیہ بھی اور پاکستان، روس اور فرانس بھی۔ اب سارا پیسہ کہاں گیا؟ سارا پیسہ خرچ ہو چکا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور چین جیسے ملکوں نے یہ پیسہ اپنی ملکی ترقی میں خرچ کیا ہے اور پاکستان جیسے ملکوں میں یہ پیسہ ملکی ترقی پر خرچ ہونے کے بجائے دوسرے راستے سے سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں چلا گیا ہے، برطانیہ اور فرانس میں پراپرٹی خریدنے میں خرچ ہوا ہے، امریکہ میں Ranchesخریدنے کے کام آیا ہے۔ دبئی میں، سپین میں رئیل سٹیٹ کے بزنس میں صرف ہوا ہے۔ اب رہ گئی بات یہ کہ سارے ملک مقروض ہیں تو پیسہ کہاں گیا؟ مطلب یہ کہ آخر قرضدار تو موجود ہیں بلکہ سارے ملک ہی قرضدار ہیں قرض خواہ کہاں ہے؟ قرض خواہ عالمی ادارے ہیں۔ آئی ایم ایف ہے، ورلڈ بنک ہے اور اسی قسم کے دوسرے استعماری ادارے ہیں جن کا مقصد صرف دوسروں کو قرض کے جال میں پھنسانا ہے۔ انہیں انگلیوں پر نچانا ہے اور وہ ایسا کر رہے ہیں۔ ان اداروں کو عالمی طاقتیں اپنے توسیع پسندانہ ایجنڈے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ یہ ادارے ان عالمی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں، بھتہ وصول کرنے والے غنڈے ہیں۔ تحصیلدار ریکوری ہیں۔ یہ ساری معاشی اور اقتصادی پالیسیاں یہودی بناتے ہیں اور اپنے سرپرستوں کی مرضی اور منشا کے مطابق چلاتے ہیں مگر یہ ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے جو ابھی تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گا۔
یہ پیسے کا گھمائو پھرائو بڑا عجیب ہے۔ کبھی سارا پیسہ خرچ ہو جاتا ہے اور پتہ نہیں چلتا کہ خرچ ہو گیا ہے اور کبھی کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا اور سارے کام ہو جاتے ہیں۔ میرا بیٹا حیرانی سے پوچھنے لگا ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے کہا مثلاً میرا معاملہ دیکھو۔ اخبار سے تنخواہ ملتی ہے۔ بظاہر بڑی معقول نظر آتی ہے۔ ہر مہینے ملتی ہے اور خرچ ہو جاتی ہے۔ سارے کام، خرچے اور منصوبے ادھورے رہ جاتے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ سارے پیسے کہاں خرچ ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف ایک طبقہ ہے جسے ہم اشرافیہ یا ایلیٹ کلاس کہہ سکتے ہیں۔ اس میں سیاستدان ہیں، بیورو کریٹ ہیں اور ان کے کمیشن ایجنٹ ہیں۔ ان کے اللّے تللّے بھی چلتے ہیں اور ان کا کچھ خرچ بھی نہیں ہوتا۔ ان کی تنخواہیں بنکوں میں پڑی رہتی ہیں۔ ان کی بیگمات سائلوں کے کریڈٹ کارڈز پر شاپنگ کرتی ہیں۔ ان کے گھر کا خرچہ دیگر پارٹیاں چلاتی ہیں۔ ان کے غیر ملکی دوروں کا خرچہ ان کے سپانسر ادا کرتے ہیں۔ ان کے بچوں کی بیرون ملک تعلیم کا خرچہ ضرورتمند ادا کرتے ہیں اور ان کو گاڑیوں کے تحفے فنانسروں کی طرف سے ملتے ہیں۔ یہ اپنی ساری سرکاری نوکری میں پلے سے ٹکا خرچ نہیں کرتے، مگر ان کی ساری زندگی نہایت عیش و عشرت سے گزر جاتی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت تھی لیکن پیسے کی گردش یعنی Circulation of Moneyکا ایک اپنا میکنیزم ہے اور سمجھ سے بالا تر ہے۔ مثلاً ایک چھوٹا سا یہ قصہ!
ایک امریکی قصبے کے ایک ہوٹل میں رات کو ایک مسافر رکا۔ وہ کسی دوسرے شہر جا رہا تھا لیکن راستے میں رات ہو گئی۔ اس نے سوچا کہ رات گاڑی پر سفر کرنے کے بجائے کسی ہوٹل میں رات گزار لی جائے۔ وہ اس چھوٹے سے قصبے کے اکلوتے ہوٹل میں پہنچا اور کمرہ دکھانے کے لیے کہا۔ کائونٹر پر بیٹھے ہوٹل مینیجر نے جو اس چھوٹے سے ہوٹل کا مالک بھی تھا ،اسے کہا کہ وہ اسے کمرہ دکھاتا ہے مگر وہ پہلے سو ڈالر جمع کروائے۔ مسافر نے سو ڈالر ہوٹل کے مالک کو پکڑائے۔ ہوٹل مالک نے اپنے اسسٹنٹ کو بلایا اور اسے ہدایت کی کہ وہ مہمان کو کمرے دکھائے اور جو کمرہ اسے پسند آئے، وہ اس کمرے میں اس کا سامان رکھ دے۔ لڑکا مسافر کو کمرے دکھانے لے گیا جبکہ ہوٹل مالک فوراً ہی ساتھ والے سٹور چلا گیا اور اس کے مالک کو سو ڈالر دے کر کہنے لگا کہ یہ ہوٹل کے لیے خریدے گئے سامان خورونوش کی ادائیگی ہے۔ گروسری سٹور کے مالک نے وہ سو ڈالر کائونٹر پر رقم کا تقاضا کرنے والے قصبے کے واحد لائیو سٹاک فارمر کو دے دیے جو سٹور کو دودھ، مکھن، پنیر اور انڈے سپلائی کرتا تھا۔ فارمر نے وہ سو ڈالر فوراً کرائے پر گاڑیاں چلانے والے شخص کو بھجوا دیے جس کی گاڑی پر وہ سارا سامان لاد کر سٹور پر پہنچاتا تھا۔ (اصل قصے میں فارمر نے وہ سو ڈالر قصبے کی طوائف کو دیے تھے جس سے اس کا ادھار چل رہا تھا۔ طوائف نے وہ سو ڈالر فوراً ہوٹل کے مالک کو پہنچا دیے جہاں وہ اپنے گاہکوں کو لے کر جایا کرتی تھی مگر میں نے یہاں قصے میں تھوڑی سی تبدیلی کر دی)کرائے پر گاڑیاں چلانے والے نے وہ سو ڈالر فوراً ہوٹل میں جا کر کائونٹر پر بیٹھے ہوئے ہوٹل کے مالک کو ادا کر دیے جہاں اس نے گزشتہ دنوں اپنے مہمان ٹھہرائے تھے۔ وہ اسے سو ڈالر دے کر واپس چلا گیا۔ اسی اثنا میں وہ مسافر کمرے دیکھ کر واپس آیا اور کہنے لگا اسے کمرے پسند نہیں آئے، وہ کسی اگلے قصبے میں جا کر رات گزارے گا۔ ہوٹل کے مالک نے اسے وہ سو ڈالر واپس پکڑا دیے جو اسے گاڑیاں کرائے پر دینے والا دے کر گیا تھا۔ مسافر نے اپنے سو ڈالر پکڑے اور گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گیا۔ اس رات کسی کا کوئی پیسہ خرچ نہ ہوا مگر سار قصبہ قرض سے پاک ہو گیا۔
میرا بیٹا حیرانی سے کہنے لگا۔ بابا جان! یہ کیسے ہوا؟ میں نے کہا یہ تمہارے پہلے سوال کا جواب ہے۔ رہ گئی بات بلیک بکس کی۔ تو برخوردار وہ جس وزنی میٹریل سے بنتا ہے، اس سے بنا ہوا جہاز اُڑ تو نہیں سکتا، البتہ گھسٹ سکتا ہے۔ جہاز کو اڑنے کے لیے حجم اور وزن کی ایک کم از کم نسبت درکار ہے جو بلیک بکس والے میٹریل سے بننے والے جہاز میں ممکن نہیں۔ تمہارے دونوں سوالات کا جواب تو تمہیں مل گیا ہے مگر میرے چاروں سوالات ابھی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ اب تم نے ان چاروں سوالات کا جواب دینا ہے۔ اسی دوران شاہ جی آ گئے۔ میرا بیٹا کہنے لگا، ان چار سوالات کے لیے انکل میری مدد کر سکتے ہیں؟ میں نے کہا جو مرضی چاہے تمہاری مدد کرے۔ مجھے تو اپنے سوالات کے جواب چاہئیں۔ چھ میں سے دو سوال تو حل ہوئے۔ باقی چار رہ گئے ہیں اور یہ تمہارے ذمے ہیں۔ میرا بیٹا کہنے لگا، تین سوالوں کے جواب تو انکل دیں گے۔ مجھے تو ان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں البتہ پہلے سوال کے بارے میں میرے پاس کچھ تکّے ہیں۔ شاہ جی کہنے لگے، بیٹا! آپ پریشان نہ ہوں۔ میرے پاس بھی بقیہ تینوں سوالوں کے تکّے ہی ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں