"KMK" (space) message & send to 7575

دو بھائیوں کی مشہور دکان

میں لاہور میں ہوں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ لاہور ستر کی دہائی میں کیسا تھا؟ ماموں اندرون لوہاری گیٹ رہتے تھے۔ لوہاری دروازے میں اندر داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ پر ایک چنوں والا ہوتا تھا۔ کھٹ مٹھے چھولے۔ لوہاری کے باہر ایک چھابڑی میں ایک اور طرح کے چنے۔ پلیٹ میں چنے ڈال کر اوپر لیموں نچوڑا جاتا۔ چنوں میں موجود پانی ایک دم دودھیا ہو جاتا۔ دوسرے کونے کے پاس نعمت کدہ۔ مسلم مسجد کے نیچے کتابوں کی دکانیں۔ آئینہ ادب اور دوسرے پبلشر۔ سب کچھ ہوا ہو گیا۔ آئینہ ادب کی جگہ دوائیوں والوں نے لے لی۔ چنے والے خدا جانے کہاں گئے۔ لوہاری کے اندر ماموں والے گھر کی گلی کے سامنے چھوٹی سی مسجد تھی۔ نہانے کے لیے اس مسجد میں جاتے۔ نلکہ چلا کر غسلخانے میں اوپر بنی ہوئی سیمنٹ کی چھوٹی سی ٹینکی بھری جاتی۔ اندر جا کر اس ٹینکی کے نیچے لگے ہوئے لوہے کے پائپ میں پھنسی ہوئی لکڑی نکالتے۔ ٹھنڈے پانی کی ایک دھار۔ اب بھی یاد آئے تو سارا جسم ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ وحدت کالونی میں خالہ کا چھوٹا سا کوارٹر۔ تب بہت بڑا لگتا تھا۔ اب لاہور ویسا نہیں رہا۔ صرف لاہور کا کیا رونا؟ ملتان بھی ویسا نہیں رہا۔ 
فلرٹن شہر میں شفیق کے ساتھ میٹھے چاولوں کے لیے گڑ خریدنے سکھ کی دکان پر گئے۔ پھر گڑ والے چاولوں پر ڈالنے کے لیے ملائی کی تلاش ہوئی۔ شفیق نے کہا دیسی ملائی تو ملنا ممکن نہیں البتہ سویٹ کریم سے کام چلایا جا سکتا ہے۔ میں نے کہا گزارا کرنا ہے لہٰذا سویٹ کریم ہی سہی۔ اب فلرٹن کے ایک اور سٹور پر گئے۔ سٹور کا نام تھا Stater brothers۔ شفیق سے میں نے پوچھا کہ کیا یہ بھی دو بھائیوں کی دکان ہے؟ شفیق ہنسا اور کہنے لگا خدا جانے یہ کتنے بھائیوں کی دکان ہے لیکن میں سمجھ گیا ہوں کہ تم کن دو بھائیوں کی دکان کا ذکر کر رہے ہو۔ ملتان میں حرم گیٹ کے باہر والی‘ دو بھائیوں کی مشہور دکان۔ یہ دکان دو بھائیوں کی مشترکہ ملکیت تھی‘ اسی بنا پر اس کا نام ''دو بھائیوں کی مشہور دکان‘‘ تھا۔ سادہ سا نام۔ دکان کے بورڈ پر دونوں بھائیوں کا نام لکھا ہوا تھا مگر اب یاد نہیں۔ 
یہ خوشبویات اور تیل کی دکان تھی باہر بورڈ پر بے شمار اقسام کے تیل درج تھے۔ ملتان کا مشہور تیل دھنیا‘ کرنے کا تیل‘ چنبیلی کا تیل‘ سرسوں کا تیل اور خدا جانے کس کس قسم کا تیل۔ تب ملتان کا تیل دھنیا بڑا مشہور ہوتا تھا۔ حافظ کے سوہن حلوے اور آموں کی طرح۔ جب ہم لاہور جاتے تو سوغات کے طور پر تیل دھنیا بھی لے جاتے۔ ایک پھپھو کی فرمائش ہوتی تھی کہ آتے ہوئے دھنیے کا تیل ضرور لانا ہے۔ تب یہ تیل ٹین کی کپی نما بوتل میں ملتا تھا۔ منہ کے ساتھ دو عدد انگلیاں ڈالنے والے گول ہک ہوتے تھے جن میں پٹ سن کا دوہرا موٹا سا دھاگہ جسے ''سیبا‘‘ کہتے تھے گزار کر ریڈی میڈ سا ہینڈل بنایا جاتا تھا جس سے یہ کپی اٹھائی جاتی تھی۔ ہم یہ تیل لینے کے لیے حرم گیٹ کے باہر دو بھائیوں کی مشہور دکان پر جایا کرتے تھے۔ یہ دکان حرم گیٹ کے باہر الحرم ہوٹل کے نیچے تھی۔ اب نہ الحرم ہوٹل ہے اور نہ ہی دو بھائیوں کی مشہور دکان۔ اب اس جگہ پارکنگ ہے۔ ایک بدتمیز سا ٹھیکیدار 
اس پارکنگ کا چودھری ہے۔ کبھی یہاں خوشبو کی لپٹیں اٹھتی تھیں۔ دو بھائیوں کی مشہور دکان سے اٹھتی ہوئی عطریات کی خوشبو‘ تیل دھنیا کی خوشبو۔ سامنے پھولوں والی دکان کے گلابوں کی خوشبو۔ اب دھول اڑتی ہے اور گھوڑوں کی لید کی باس۔ 
یہ دروازے کے باہر کا حال تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی دیسی گھی کے کھانوں کی خوشبو بے چین کر دیتی تھی۔ یہ خوشبو چراغ ہوٹل کے کھانوں سے آتی‘ ساتھ ہی مدینہ ہوٹل تھا۔ اس سے آگے دائیں ہاتھ پر پہلی دکان کے گرما گرم گلاب جامن۔ سب اڑن چھو ہو گئے۔ اندر دو کھیروالوں کی آمنے سامنے دکانیں تھیں۔ کاکا کھیر والا اور پردیسی کھیر والا۔ اب ایک دکان رہ گئی ہے کیا خبر کب وہ بھی بند ہو جائے۔ نشاط روڈ کا نعمت کدہ ہوٹل اور نشاط روڈ اور شاہ رسال روڈ کے سنگم پر واقع پانی کا کنواں جس سے ماشکی چمڑے کی مشکوں میں پانی بھر کر گھروں میں پہنچاتے تھے۔ اب نہ کنواں ہے‘ نہ ماشکی اور نہ گھروں میں گھڑے ہیں۔ لال پمپ کا پیلا پانی ہے اور سرکاری نلوں کا پانی جس میں سیوریج کا آلودہ پانی شامل ہے۔ دولت دروازے اور دہلی دروازے کے درمیان مشرقی طرف مٹی کے برتنوں کی کئی دکانیں تھیں اب صرف دو دکانیں بچی ہیں اور ان پر بھی زیادہ تر گملے پڑے ہیں۔ برسوں پہلے میں اپنی اہلیہ کے ساتھ یہاں سے سرسوں کا ساگ پکانے کے لیے روغنی ہانڈی خریدی تھی۔ یہ ہنڈیا پتہ نہیں کہاں چلی گئی۔ اب ہنڈیا کا کیا ذکر‘ گھروالی ہی نہیں۔ ہر شے جگہ سے بے جگہ ہے۔ 
دولت گیٹ چوک سے تھوڑا آگے محلہ کاشی گراں والی گلی کی نکر پر قادر بخش دال مونگ والا ہوتا تھا۔ ملتان کا آخری بزرگ جو ملتان کی روایتی دال مونگ اس کی اصل ذائقے میں بناتا تھا۔ کئی برس ہوتے ہیں اب ویسے دال مونگ خواب ہو گئی ہیں۔ ویسے ہی جیسے پیجا چانپ والا۔ بوہڑ گیٹ کے پاس پہلوان فالودے والا۔ اب وہاں پینٹ شاپ اور ہارڈویئر کی دکان ہے۔ سامنے ڈاکٹر ولی محمد کی دکان تھی وہاں بھی ہارڈویئر کی دکان کھل گئی ہے۔ اکبر روڈ پر فالودے کی دکان تھی۔ اس دکان پر پہلوانوں کی بے شمار تصاویر لگی ہوتی تھیں۔ نامی گرامی پہلوان‘ کندھوں پر چاندی کے گرز رکھے۔ اب نہ وہ دکان رہی، نہ پہلوان اور نہ اکھاڑہ شاہ رسال۔ میں نے وہاں پہلی اور آخری بار راجوراکٹ پہلوان کو دیکھا۔ ایک دن گوگل پر راجو راکٹ کا نام ڈالا کہ اس کے بارے میں کچھ مزید جان سکوں۔ راجوراکٹ پہلوان کے بجائے یہ ایک ڈرامہ نکلا۔ راجو راکٹ ہماری تاریخ سے بھی نکل گیا۔ چھریرے بدن کا چاق و چوبند اور پھرتیلا پہلوان۔ بجلی کی طرح چمکنے اور لپکنے والا۔ اب اس کا نام لوں تو بچے حیرانی سے شکل تکنے لگتے ہیں۔ سیالکوٹ کا نامور پہلوان جو سنا ہے اب بڑی مشکل کی زندگی گزار رہا ہے۔ شیر پنجاب‘ رستم لاہور و ملتان۔ 
ڈیرہ اڈہ اور بوتلوں کی دکانیں۔ دودھ سوڈے کی بوتلیں اور گولی والی بوتلیں۔ دو چار برس ہوتے ہیں اسلام آباد سے ایمن آئی تو فرمائش کی کہ میں نے گولی والی بوتل دیکھنی ہے اور پینی ہے۔ اسد نے بتایا تھا کہ اس بوتل پر ڈھکن نہیں ہوتا بلکہ اس کے منہ کے اندر ایک شیشے کی گولی پھنسی ہوتی ہے جسے لکڑی کے ایک خاص لیکن سادہ سے انگلی نما آلے سے دبا کر کھولا جاتا ہے۔ ایمن کو لے کر ڈیرہ اڈہ گئے۔ پہلے یہاں چھ سات دکانیں تھیں اب محض دو بچی ہیں اور وہ بھی آدھی آدھی رہ گئی ہیں۔ کچھ دن جاتے ہیں یہ بھی بند ہو جائیں گی۔ بابا ہوٹل کی طرح۔ ملتان کا ''پاک ٹی ہائوس‘‘ بابا ہوٹل۔ اب ملتان میں ایک شاندار ''ملتان ٹی ہائوس‘‘ بن رہا ہے مگر وہ کتنا ہی شاندار یا عالی شان کیوں نہ ہو بابا ہوٹل تو نہیں ہوگا۔ فلرٹن شہر میں سٹیٹر برادرز کی دکان چل رہی ہے مگر میں اپنے بچوں کو دو بھائیوں کی مشہور دکان کبھی نہیں دکھا سکوں گا۔ 
قارئین! یہ میرے لڑکپن کا ملتان تھا جو میں اپنی یادوں میں سنبھالے بیٹھا ہوں اور آج آپ سے شیئر کر رہا ہوں۔ مجھے اپنے ان قارئین سے دلی ہمدردی ہے جنہوں نے کالم کا عنوان پڑھ کر کوئی اور اندازہ لگایا تھا۔ میں ان کا وقت برباد ہونے پر معذرت خواہ ہوں کہ وہ دو بھائیوں کی مشہور دکان سے کوئی اور مفہوم اور مطلب نکال بیٹھے۔ میری مراد واقعی حرم دروازے والی دو بھائیوں کی مشہور دکان تھی۔ اگر کسی کو کوئی اور غلط فہمی ہو جائے تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں