"KMK" (space) message & send to 7575

لفظ آموزش اور محسنِ فارسی

سفر بذات خود ایک مشکل کام ہے اور اس پر اگر ہمسفر بھی مشکل ٹائپ کا ہو تو یہ مشکل باقاعدہ عذاب کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ میں اس سلسلے میں ہمیشہ ہی اللہ کے ان بندوں میں شمار ہوتا رہا ہوں جنہیں نہایت خوشگوار ہمسفر نصیب ہوئے ہیں۔ اگر ہمسفر اور ہمراہی انور مسعود ہو تو بندہ باقاعدہ خوش نصیب سمجھا جا سکتا ہے۔ ریاضی کی اس ''مساوات‘‘ (Equation) میں میرا نام ڈالا جائے تو میں خوش نصیب شمار ہوں گا۔ میں آج کل یہی Status انجوائے کر رہا ہوں۔
سارا دن خوش خوش گزرتا ہے۔ مجھے فلو کے ساتھ ساتھ بخار ہے۔ سر درد ہے بلکہ سارے بدن میں درد ہے مگر باوجود اس آزار کے سارا دن جس میں بیشتر حصہ سفر پر مشتمل ہے‘ نہایت مزے میں گزر جاتا ہے۔ انور مسعود صاحب کو محبت اور ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے جملہ مارا جاتا ہے اور حسب توقع ادھر سے نہایت خستہ اور کرارہ جواب آتا ہے۔ کبھی حملہ اور کبھی جوابی حملہ۔ غرض ایک ایسا ماحول بنا ہوا ہے کہ ہم سب اسے جی جان سے انجوائے کر رہے ہیں۔ بخار کا احساس تب ہوتا ہے جب میں رات گئے بستر پر جاتا ہوں۔ روزانہ رات کو ارادہ کرتا ہوں کہ صبح ہر حال میں کسی ڈاکٹر کو دکھائوں گا مگر صبح ناشتے سے ہی دوبارہ ایک خوشگوار جملے بازی والے دن کا آغاز ہو جاتا ہے۔ رات کا ارادہ کہیں راستے میں رہ جاتا ہے۔ بیگ میں رکھی ہوئی ادویات سے کام چلاتا ہوں اور اگلی صبح کے لیے پھر ارادہ کرتا ہوں کہ پہلا کام یہ کرنا ہے کہ ڈاکٹر کو دکھانا ہے۔ اگلی صبح پھر اس ارادے کو ملیا میٹ کر دیتی ہے۔
ہیتھرو ایئرپورٹ پر عامر جعفری مجھے لینے کے لیے آیا ہوا تھا۔ انور مسعود صاحب کو وہ گاڑی میں ہی چھوڑ آئے تھے کہ کافی پیدل چلنا پڑتا تھا۔ گاڑی پارکنگ کی آخری منزل پر کھڑی تھی۔ یہ پارکنگ کی چھت تھی۔ اس اوپن پارکنگ کے چاروں طرف لوہے کا جنگلہ لگا ہوا تھا۔ اب صحیح طرح یاد نہیں مگر شاید یہ چھٹی منزل تھی۔ نیچے سڑک پر چلتی ہوئی گاڑیاں کافی چھوٹی لگ رہی تھیں۔ ایئرپورٹ کے ڈھکے ہوئے حصے سے نکل کر اوپن پارکنگ میں پہنچے تو شدید ٹھنڈی‘ بدن کو چیرنے والی ہوا چل رہی تھی۔ ہوا نہایت ہی تندوتیز تھی۔ قدم باقاعدہ اکھڑ رہے تھے۔ اوپر پہنچے تو دیکھا کہ گاڑی‘ جس میں انور مسعود صاحب بیٹھے ہوئے تھے‘ پارکنگ کے اس آخری سرے پر منہ جنگلے کی طرف کیے کھڑی تھی جہاں آگے چھت کا اختتام ہو رہا تھا۔ میں نے انور مسعود صاحب سے کہا کہ محض ہینڈ بریک پر کھڑی یہ کار اتنی تیز ہوا میں اگر دو فٹ بھی آگے سرک جاتی تو پھر یہ کئی منزل نیچے خود بخود پہنچ جاتی۔ انور صاحب ہنس کر کہنے لگے۔ تے فیر میں ایہناں کولوں جرمانہ لے لینا سی (پھر میں نے ان سے جرمانہ لے لینا تھا)۔
واپسی کا سفر شروع ہوئے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ میں نے سابق حساب کتاب کھول لیا۔ دس پونڈ کی وصولی کے سلسلے میں میں نے انور صاحب کو اپنا نیا کلیم پیش کردیا۔ گزشتہ سال انور صاحب سے فون چارجر کے کرائے کی مد میں دس پونڈ لینے تھے۔ سفر گزارنے کے لیے میں اور انور مسعود صاحب آپس میں ''بزنس‘‘ کرتے رہتے ہیں۔ یہ محض اتفاق ہے کہ اس بزنس میں ہمیشہ مجھے فائدہ ہوتا ہے تاہم یہ بھی محض اتفاق ہے کہ ایک بار کے علاوہ مجھے کبھی اپنا نفع وصول نہیں ہوا۔ مقصد نفع وصول کرنا بھی نہیں۔ سفر گزارنے کے لیے یہ وہ چھوٹی چھوٹی خوشگوار چہلیں ہیں جو ہم آپس میں کرتے ہیں۔ گزشتہ سفرِ برطانیہ میں انور صاحب اور میرے پاس باریک پن والا نوکیا فون تھا۔ میرے پاس فون چارجر تھا جبکہ انور صاحب اپنے ساتھ چارجر لانا بھول گئے۔ جونہی فون نے اگلے روز بیٹری کے ختم ہونے کی ٹوں ٹوں کی‘ انور صاحب کو پریشانی شروع ہو گئی اور کہنے لگے آپ کی بھابھی کا فون آنا تھا۔ اب کیا کریں؟ میں نے کہا انور صاحب‘ پیسے بھلا بھابھی کے فون کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتے ہیں؟ آپ میرا چارجر کرائے پر لے لیں۔ ایک پونڈ فی گھنٹہ پر۔ انور
صاحب اپنی اہلیہ کے فون کے بارے میں بڑے فکر مند تھے‘ فٹافٹ راضی ہو گئے۔ میرا چارجر لیا‘ فون چارجنگ پر لگایا اور مشاعرے پر چلے گئے۔ رات گئے واپسی ہوئی‘ چارجر واپس نہ ہو سکا۔ صبح واپس کیا تو تیرہ گھنٹے گزر چکے تھے۔ میں نے تیرہ پونڈ کا بل پیش کردیا۔ ساتھ ہی کہا کہ انور مسعود صاحب جیسی خوشحال اور سخی شخصیت کے لیے گو کہ تیرہ پونڈ ادا کرنا کوئی مسئلہ نہیں مگر ہمارے لیے بھی لازم ہے کہ ان کی شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے خاص ڈسکائونٹ کا اعلان کریں لہٰذا میں یہ کرایہ تیرہ پونڈ سے دس پونڈ کرتا ہوں۔ اس کے بعد سارا سفر ان دس پونڈ کی وصولی کی جدوجہد میں گزر گیا۔ واپسی پر اعلان کیا گیا کہ اس ڈوبی ہوئی رقم کی وصولی کی مہم فی الحال معطل کی جاتی ہے‘ اگلی بار برطانیہ آمد پر دوبارہ اسے بحال کردیا جائے گا۔ ہیتھرو سے واپسی پر اس ریکوری مہم کو دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ساتھ ہی اعلان کر دیا گیا کہ اب یہ رقم دس پونڈ نہیں بلکہ پندرہ پونڈ ہو چکی ہے۔ پانچ پونڈ سالانہ فنانشل کاسٹ ہے جسے سود ہرگز نہ سمجھا جائے۔ مزید یہ بھی کہا کہ کل سے اس رقم پر مزید پچاس پنس روزانہ کے حساب سے سرچارج عائد کیا جائے۔ آج یہ رقم سولہ پونڈ ہو چکی ہے۔
لندن سے لیوٹن جاتے ہوئے راستے میں عامر جعفری کہنے لگا کہ ہم نے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایک پراجیکٹ شروع کیا ہے جس کو ہم نے Ensure learning کا نام دیا ہے۔ اس کااردو ترجمہ یا مناسب اردو متبادل کیا ہو سکتا ہے؟ میں نے کہا کہ اس کا لفظی مفہوم تو یقینی آگاہی ہے تاہم ضروری نہیں کہ لفظی ترجمہ کیا جائے۔ انور مسعود کہنے لگے لفظ Learning کا صحیح ترجمہ ''آموزش‘‘ ہے۔ میری ہنسی نکل گئی۔ میں نے کہا انور صاحب آپ نے تو اچھی خاصی آسان قسم کی ''لرننگ‘‘ کو مزید مشکل تر کردیا ہے۔ اسی قسم کا ایک واقعہ برادرم عطا الحق قاسمی نے سنایا تھا۔ وہ گلزار وفا چودھری کو ملنے گئے تو وہ کلاس روم میں تھے۔ قاسمی صاحب کلاس روم سے باہر انتظار میں کھڑے ہو گئے۔ اندر گلزار وفا لیکچر دے رہے تھے۔ اسی دوران انہوں نے ایک لفظ بولا ''نظم و ضبط‘‘۔ کسی طالبعلم نے کہا‘ سر اس لفظ کا کیا مطلب ہے‘ گلزار وفا کہنے لگے‘ آپ اسے آسان لفظوں میں تادیب‘ ضبط نفسی یا انضباط کہہ سکتے ہیں۔ قاسمی صاحب باہر کھڑے کافی دیر تک ہنستے رہے۔ آموزش کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
اب صورتحال یوں ہے کہ ہمارے گزشتہ دن اسی ''آموزش‘‘ کے سہارے گزرے ہیں۔ ہر بات پر کسی نہ کسی طرح اس لفظ کو ٹھونس دیا جاتا ہے۔ ہم ٹریول لاج ہوٹل میں داخل ہوئے۔ بکنگ پہلے سے ہو چکی تھی۔ استقبالیہ پر موجود لڑکی نے کہا کہ پارکنگ استعمال کرنے کے لیے ادائیگی کرنی پڑے گی۔ وائی فائی کے لیے بھی علیحدہ ادائیگی کرنا ہوگی۔ ناشتہ عام برطانوی ہوٹلوں کے برعکس فری نہیں ہوگا۔ میں نے یہ سنا تو عامر سے کہا‘ یہ ہوٹل والے باقاعدہ چور‘ لٹیرے‘ ڈاکو اور آموزش ہیں۔ آموزش کے استعمال پر ایک زوردار قہقہہ لگا۔ سب سے بلند انور مسعود صاحب کا تھا۔ اس کے بعد تو گویا اس لفظ کے استعمال کا دروازہ ہی کھل گیا۔
لفٹ رکی‘ دروازہ کھلا‘ ہم نے اندر دیکھا تو چھوٹی سی لفٹ میں دو انتہائی فربہ افریقی خواتین پھنسی کھڑی تھیں اور لفٹ میں ان دو کی موجودگی میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ عامر نے صورتحال دیکھ کر اعلان کیا کہ لفٹ مکمل طور پر آموزش ہے لہٰذا اس کے واپس آنے کا انتظار کیا جائے۔ رات کمرے میں جانے لگے تو دروازہ کھولنے والا کارڈ کام نہیں کر رہا تھا۔ میں نے اعلان کردیا کہ کارڈ آموزش ہو گیا ہے۔ نیچے جا کر اس کو تازہ دم کروایا جائے۔ انور مسعود صاحب نے پوچھا کہ اب میرے بخار کا کیا حال ہے؟ میں نے بتایا کہ بخار ڈھیٹ‘ ضدی اور آموزش ہو گیا ہے۔ تنگ آ کر خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ کل صبح ناشتے پر میں نے انور صاحب کو کہا آپ کی طرف آج صبح تک سترہ پونڈ کی رقم واجب الادا ہو چکی ہے۔ اگر آپ نے یہ ادائیگی نہ کی تو میں آموزش کرنے پر مجبور ہو جائوں گا۔ انور مسعود صاحب اپنے مخصوص انداز میں مسکرائے اور کہنے لگے اس آموزش سے تمہاری کیا مراد ہے؟ میں نے کہا جناب پروفیسر صاحب! فارسی آپ کے گھر کی لونڈی ہے۔ آپ کو مجھ سے کہیں بہتر علم ہوگا کہ آموزش کا اس جملے میں کیا مفہوم ہے۔ ہم کم علم لوگوں کو اس لفظ کی اتنی گہرائی کا کیا علم جس سے آپ واقف ہیں۔ ناشتے پر میں نے انیق احمد صاحب کو کہا کہ میں آپ کو منصف بنا کر اپنی ایک سالہ پرانی آموزش کے سلسلے میں ایک آموزش داخل کرنا چاہتا ہوں۔ انیق احمد مسکرا کر پوچھنے لگے کہ پچھلے سال والا واقعہ تو بعد میں سنیں گے یہ آموزش کا کیا معاملہ ہے جو اس بے دردی سے استعمال ہو رہا ہے۔ چنانچہ انیق احمد کو پہلے آموزش کا واقعہ سنایا گیا اور پھر واجب الوصول رقم کا مقدمہ پیش کیا۔
انیق احمد نے مسکراتے ہوئے پراٹھا مونگرے کھاتے ہوئے سارا قصہ سنا۔ سن کر کہا کہ معاملہ صاف ہے اور خالد صاحب کا کلیم سو فیصد درست ہے لیکن! پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگے یہ رقم وصول ہوتی تو نظر آ نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس معاملے میں ''معاف کر دینا بہرحال بہتر عمل ہے‘‘۔ میں نے کہا اللہ تعالیٰ ادائیگی کے بارے کیا تاکید کرتا ہے؟ انیق احمد کہنے لگے۔ وہ کافی سخت تاکید ہے جسے میں سنانے کا متحمل نہیں ہو سکتا؛ تاہم آج کی اس آموزش سے مجھے دو باتیں سمجھ میں آئی ہیں۔ پہلی یہ کہ کسی مزاحیہ شاعر کو فون چارجر کرائے پر نہیں دینا چاہیے اور دوسری یہ کہ آپ نے جس طرح لفظ آموزش کو بے دردی اور بے جگری سے استعمال کیا ہے اس پر آپ کو محسن فارسی کا خطاب ملنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں