"KMK" (space) message & send to 7575

دوسرا رُخ

اگر سرکار کی دی گئی بریفنگ‘ تفصیلات اور استعداد کو تھوڑی دیر کے لیے بھول کر گہرائی میں جائیں تو صورتحال اتنی خوشگوار اور رنگین نظر نہیں آتی جتنی بظاہر محسوس ہوتی ہے۔ ایک سو میگاواٹ کی پیداواری استعداد کے حامل قائداعظم سولر پلانٹ کی تنصیب پر ایک سو تینتیس ارب روپے لاگت آئی ہے۔ بظاہر یہ بڑی اچھی نسبت نظر آتی ہے مگر حقیقی صورتحال بالکل مختلف ہے۔ یہ بات سمجھنا اتنا مشکل ہرگز نہیں کہ اس پلانٹ کی حقیقی پیداواری استعداد بتائی گئی پیداواری استعداد کا پانچواں حصہ بھی نہیں ہے۔ پلانٹ کے ساتھ بیٹریاں نہیں ہیں اس لیے یہ جتنی بجلی پیدا کرے گا فوری طور پر نیشنل گرڈ میں شامل کردی جائے گی۔ سولر پلانٹ پر جو بجلی پیدا ہوتی ہے وہ اتنے سائیکل کی نہیں ہوتی جتنے سائیکل کی ہمارے سسٹم میں بجلی رواں ہے۔ سولر سے پیدا ہونے والی ڈی سی کرنٹ کو اے سی کرنٹ میں تبدیل کرنے کے لیے آسان طریقہ انورٹر (Inverter) لگانا ہے۔ سولر پینلز سے پیدا کردہ ڈی سی کرنٹ کو سسٹم میں شامل کرنے سے پہلے بذریعہ انورٹرز اے سی کرنٹ میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ اس عمل کے دوران تقریباً بیس فیصد کے لگ بھگ کرنٹ انورٹروں کی نذر ہو جاتا ہے۔
قائداعظم سولر پارک میں پیدا ہونے والی سو میگاواٹ بجلی دراصل اس کی انتہائی پیداواری حد ہے اور یہ پلانٹ یہ حد صرف دو گھنٹے کے لیے حاصل کرتا ہے یعنی تقریباً بارہ بجے دوپہر سے دو بجے دوپہر تک۔ پلانٹ کی پیداوار سورج نکلنے کے ساتھ شروع ہوتی ہے یعنی صبح چھ سات بجے بجلی پیدا ہونی شروع ہوتی ہے اور پانچ چھ میگاواٹ سے اس کا آغاز ہوتا ہے اور دوپہر کو بارہ بجے پیداوار کا حساب کیا جائے تو سسٹم میں تقریباً اسی سے چوراسی میگاواٹ شامل ہوتی ہے۔ اوپر والی تیرہ سے بیس میگاواٹ بجلی انورٹر کھا جاتے ہیں۔ دو بجے پیداوار پھر کم ہونی شروع ہو جاتی ہے اور شام چھ سات بجے صفر ہو جاتی ہے۔ اگر سارے دن کی کل پیداوار کا 24/7 پر اوسط نکالا جائے یعنی ہفتے کے سات دن اور ہر دن کے چوبیس گھنٹے کے حساب سے اس پلانٹ کی پیداواری اوسط نکالی جائے تو فی دن یہ اٹھارہ میگاواٹ بنتی ہے۔ یہ بات کسی بھی ٹیکنیکل شخص سے کنفرم کی جا سکتی ہے۔ اس حساب سے اگر فی میگاواٹ کی پیداواری لاگت کا حساب لگایا جائے تو صورتحال نہایت خراب بلکہ خوفناک نظر آتی ہے۔
پلانٹ کی تعمیری لاگت ایک سو تینتیس ارب روپے یعنی ایک سو تینتیس ملین امریکی ڈالر ہے۔ سڑکوں اور دیگر انفراسٹرکچر پر ہونے والے خرچے کو شامل کریں اور زمین کی قیمت نہ لگائیں تو یہ پلانٹ تقریباً ڈیڑھ سو ملین امریکی ڈالروں میں پڑتا ہے۔ اس حساب سے پیداواری لاگت آٹھ اعشاریہ تینتیس ملین ڈالر فی میگاواٹ بنتی ہے۔ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر پر یہ لاگت دو ملین ڈالر فی میگاواٹ بنتی ہے۔ اگر کوئلے کا پلانٹ پانچ سو میگاواٹ کی پیداواری استعداد کا ہو تو یہ لاگت مزید کم ہو جاتی ہے اور تقریباً ڈیڑھ ملین ڈالر فی میگاواٹ کے لگ بھگ بنتی ہے۔ اس حساب سے دیکھیں تو سولر پلانٹ کی فی میگاواٹ پیداواری لاگت (شروع میں) کوئلے کے پلانٹ کے مقابلے میں چار سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ دونوں پلانٹس کا تقابلی جائزہ پچیس سالہ مدت کو بنیاد بنا کر کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے سولر بجلی پیدا کرنا کوئلے یا گیس کے مقابلے میں کہیں زیادہ لاگت کی متقاضی ہے اور اسی حساب سے یہ بجلی مہنگی بھی ہے۔
پہلے دس سال‘ جس مدت میں اس پلانٹ کی لاگت پوری ہونا ہے‘ بجلی کی پیداواری لاگت بائیس سینٹ فی یونٹ کے لگ بھگ ہے اور دس سال کے بعد یعنی جب پلانٹ کی لاگت پوری ہو جائے تب پیداواری لاگت ساڑھے چھ سینٹ کے لگ بھگ ہو جاتی ہے۔ اس طرح پچیس سال کا اوسط ریٹ تقریباً تیرہ سینٹ فی یونٹ بنتا ہے۔ کوئلے پر یہ یونٹ سات سینٹ کا جبکہ گیس پر ساڑھے آٹھ سینٹ پڑتا ہے۔ اس حساب سے دیکھیں تو کوئلے پر پیدا کی گئی بجلی کا یونٹ سولر پلانٹ پر پیدا کیے یونٹ سے چھ سینٹ سستا ہے مگر معاملہ یہ ہے کہ کوئلے پر چلنے والے پلانٹ کی تکمیل کی مدت دو سال سے زیادہ ہے جبکہ سولر پلانٹ ایک سال میں پیداوار شروع کردیتا ہے۔ معاملہ صرف انہی پھرتیوں کا تھا کہ کچھ کر کے دکھایا جائے۔ اشتہار لگائے جائیں۔ بینر لگیں۔ نمبر بنیں اور عوام کو غلط حساب کتاب پر مبنی سبز باغ دکھایا جا سکے۔ ملتان سے بہاولپور تک ہر جگہ بینر لگے ہوئے تھے۔ ''اب روشن ہوگا پاکستان‘‘۔ چار ہزار میگاواٹ کی قلت کے مارے ہوئے ملک میں جہاں بارہ سے چودہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے صرف اٹھارہ میگاواٹ دے کر خوشخبری سنائی جا رہی ہے کہ ''اب روشن ہوگا پاکستان‘‘۔
ملتان میں پیراں غائب تھرمل پاور سٹیشن کبھی دو سو پینسٹھ میگاواٹ بجلی پیدا کرتا تھا مگر آہستہ آہستہ اس کی مشینری جواب دیتی گئی اور اس وقت اس کی قابل استعمال مشینری ساٹھ میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتی ہے۔ اگر اس بجلی گھر کو جو کہ گیس پر چلتا ہے صرف بیس ایم ایم سی ایف ڈی گیس دے دی جائے تو ساٹھ میگاواٹ دن رات حاصل کیے جا سکتے ہیں اور فی یونٹ لاگت دس روپے سے تھوڑی کم آئے گی۔ پاکستان میں اس وقت گیس کی کل کھپت تین ارب سی ایف ڈی ہے اور اس پلانٹ کو صرف بیس ملین سی این ڈی گیس درکار ہے۔ اسے ایل این جی پر چالو کیا جا سکتا ہے۔ ایک باخبر دوست کا کہنا ہے کہ قائداعظم سولر پارک میں سو میگاواٹ کے اس پلانٹ‘ جس کی حقیقی پیداواری صلاحیت اوسطاً اٹھارہ میگاواٹ ہے‘ پر کل خرچہ دو سو دس ملین ڈالر آیا ہے اور اتنی رقم میں پیراں غائب پاور سٹیشن جیسا نیا یونٹ لگ سکتا تھا جس سے چوبیس گھنٹے یعنی دن رات دو سو چالیس میگاواٹ حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
ملتان شہر کے عین درمیان میسکو پاور سٹیشن کھڑا ہوا ہے۔ صرف تین سے چھ ماہ میں آٹھ کروڑ روپے کی لاگت سے اس کا کولنگ ٹاور مکمل کر لیا جائے اور صرف پانچ ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کردی جائے تو ساڑھے آٹھ روپے یونٹ میں اٹھارہ میگاواٹ بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ قائداعظم سولر پلانٹ میں پیدا ہونے والی بجلی کا اپ فرنٹ ٹیرف سولہ اعشاریہ ایک سینٹ یعنی تقریباً ساڑھے سولہ روپے فی یونٹ سے زیادہ ہے لیکن مسئلہ صرف یہ ہے کہ میاں صاحبان کو کچھ نیا کر کے دکھانے کا شوق ہے۔ وہ میٹرو ہو‘ موٹروے ہو یا فلائی اوور ہوں۔ ان کے اپنے پروجیکٹ ہوں‘ جنہیں وہ لوگوں کو دکھا سکیں۔ ملتان میں پرویزالٰہی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں توسیع کا منصوبہ برسوں سے ٹھپ پڑا ہے کہ اس کا کریڈٹ بہرحال چودھری پرویزالٰہی کو جائے گا۔ یہی حال اس سولر پلانٹ کا ہے کہ اس کا تمغہ وہ اپنے سینے پر سجانا چاہتے ہیں۔ کسی پرانے یونٹ کی بحالی کا تمغہ ان کے سینے پر نہیں سجے گا لہٰذا وہ کوئی چیز ٹھیک نہیں کریں گے‘ نئی بنائیں گے۔
ایک اور بات یاد آ گئی۔ بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع ریوا میں سات سو پچھتر میگاواٹ کا سولر پروجیکٹ زیر تعمیر ہے جو اگلے سال بھارت کے یوم آزادی پر چالو ہونے کی توقع ہے۔ اس پلانٹ کا کل خرچہ چالیس ارب بھارتی روپے ہے۔ آج بھارتی روپے کی امریکی ڈالر سے نسبت ایک اور چونسٹھ کے لگ بھگ ہے یعنی ایک امریکی ڈالر چونسٹھ بھارتی روپوں کے برابر ہے۔ اس حساب سے یہ پلانٹ چھ سو پچاس ملین امریکی ڈالروں میں تیار ہوگا۔ یعنی فی میگاواٹ اعشاریہ آٹھ تین تین ملین ڈالر۔ دوسرے لفظوں میں قائداعظم سولر پارک میں پیدا ہونے والے فی میگاواٹ کے مقابلے میں دس گنا سستا۔ ممکن ہے میرے حساب کتاب میں کمی کوتاہی رہ گئی ہو مگر آپ نیٹ پر Rewa solar plant لکھ کر تصدیق کر سکتے ہیں۔ ہاں یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ بھارتیوں نے میاں صاحبان کو خراب کرنے کے لیے غلط اعداد و شمار نیٹ پر ڈال دیے ہوں۔
اس سستے اور اعلیٰ کارکردگی کے حامل اٹھارہ میگاواٹ کی عظیم پیداوار کے حامل پلانٹ کی تشہیر اور کمپنی کی مشہوری کے لیے اسلام آباد سے ایک چارٹرڈ طیارہ آیا تھا جس میں اسلام آباد کے صحافی حضرات کی کافی بڑی تعداد سوار تھی؛ تاہم اس کو تھوڑا جانتے ہوئے یہ طیارہ لاہور رُکا اور لاہور کے صحافیوں کو لے کر بہاولپور آیا۔ میاں شہبازشریف وزیراعظم کے طیارے پر جبکہ وزیراعظم اس چارٹرڈ طیارے میں آئے۔ گورنر صاحب اپنے جہاز میں آئے جبکہ ایک آدھ پرائیویٹ جہاز بھی اس قافلے میں شامل تھا۔ بہاولپور میں ہونے والی اس پلانٹ کی افتتاحی تقریب میں ملتان یا بہاولپور کا کوئی صحافی مدعو نہ تھا۔ شاید اس پلانٹ میں بیس ملین ڈالر چھڑوانے کے بعد پنجاب حکومت کے پاس دولت کی ریل پیل ہو گئی تھی اور امارت کے اس عالم میں انہیں گاڑیوں پر مفت میں آنے والے صحافی حضرات کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ وہ سلوک ہے جس کی وجہ سے اس علاقے کے لوگوں میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے کہ جنوبی پنجاب میں ہونے والی تقریب میں بھی جنوبی پنجاب کے لوگوں کو ملیچھ اور شودر سمجھا جاتا ہے۔ پورے جنوبی پنجاب سے ایک صحافی کو بھی اس تقریب میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ جنوبی پنجاب کی تقریب میں سارے صحافی اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی سے آئے ہوئے تھے۔ یہ جنوبی پنجاب سے روا رکھے جانے والی ناانصافیوں میں سے ایک مثال ہے جس کے باعث جنوبی پنجاب والے علیحدہ صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
آج طبیعت میں بہتری تھی لہٰذا مناسب سمجھا کہ معاملے کا دوسرا رُخ بھی پیش کردیا جائے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں