"KMK" (space) message & send to 7575

نومنتخب گورنر سے ایک سوال

ملک رفیق رجوانہ نے گورنر پنجاب کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ پاکستان کے آئین کے تحت اپنے فرائض سرانجام دیں گے۔ ملتان میں ان کے لیے بڑے بڑے تہنیتی بینر اور پینافلیکس لگے ہوئے ہیں۔ ملتان والوں کو گمان ہے‘ جو کہ سراسر خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں‘ کہ ملتان کا گورنر ان کے مسائل حل کروائے گا‘ ان کی مشکلات کم کروائے گا اور ان کی محرومیوں کا علاج کرے گا۔ ملک رفیق رجوانہ نے اپنے اس بیان سے ایک فقرے میں سب کچھ کہہ دیا ہے۔
ایک خاتون اپنے بیمار شوہر کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی۔ ڈاکٹر نے مریض کا اچھی طرح معائنہ کیا۔ بیماری کی تفصیل پوچھی۔ مختلف علامات کے بارے دریافت کیا۔ سوال و جواب کیے اور مریض کو باہر بھیج دیا جبکہ اس کی اہلیہ سے کہا کہ وہ بیٹھی رہے۔ مریض کے باہر جانے کے بعد ڈاکٹر نے مریض کی بیوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے شوہر کی صحت کا بلکہ صاف لفظوں میں آئندہ زندگی کا دارومدار آپ پر ہے‘ آپ کا شوہر گو کہ دل کا مریض ہے‘ مگر اس سے بھی زیادہ اہم اور نازک معاملہ یہ ہے کہ وہ اعصابی تنائو کا شکار ہے اور اس کا نروس سسٹم تقریباً تباہ ہو چکا ہے اور کوئی ایک جھٹکا اس کی زندگی کی ڈور کاٹ سکتا ہے۔ آپ کے شوہر کے دل کا مسئلہ تو ہم کسی نہ کسی طرح کنٹرول کر سکتے ہیں مگر اعصاب کا مسئلہ دوائیوں سے زیادہ گھریلو سکون کا متقاضی ہے۔ آپ کم از کم چھ ماہ تک اسے مکمل ریلیکس رکھیں۔ اس کے ذہن پر کسی قسم کا دبائو نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے بلند آواز میں بات نہ کریں۔ اس کی کسی بات سے اختلاف نہ کریں۔ وہ جیسا کہے ویسا کریں۔ جس بات سے روکے‘ رک جائیں۔ جس چیز سے منع کرے اس سے باز آ جائیں۔ اسے صدمہ نہ پہنچائیں۔ جن باتوں یا چیزوں کے بارے میں وہ حساس ہے اس بارے کوئی منفی بات نہ کی جائے۔ فرمائشوں وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔ مالی معاملات میں اس پر دبائو نہ ڈالا جائے۔ خاندانی معاملات میں اس کے فیصلوں سے اختلاف نہ کیا جائے۔ غرض آپ نے چھ ماہ تک اس کے ہر حکم کی‘ فرمائش کی اور خواہش کی مکمل تعمیل کرنی ہے اور اس سلسلے میں اپنی ذات کو مکمل طور پر سرنڈر کر دینا ہے۔ بس یوں سمجھیں کہ آپ کے شوہر کی بات حرفِ آخر ہے اور اس پر کسی قسم کی بحث یا اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ بیوی نے ڈاکٹر کی تمام ہدایات بغور سنیں اور ہر بات پر نہایت سمجھداری اور تابعداری سے سر ہلاتی رہی۔ باہر جا کر اس نے شوہر کو ساتھ لیا اور گھر واپس چل پڑی۔ راستے میں شوہر نے بیوی سے پوچھا کہ آخر ڈاکٹر نے اسے اکیلے بٹھا کر کیا کہا ہے؟ بیوی نے نہایت افسردگی سے اسے بتایا کہ ڈاکٹر نے اس کی زندگی بارے صاف جواب دے دیا ہے۔
یہی حال اپنے ملک رفیق رجوانہ صاحب گورنر پنجاب نے کیا ہے۔ آئین پر عمل کرنے اور اس کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دینے کا کہہ کر انہوں نے تمام خوش فہم اور خوش عقیدہ لوگوں کو صاف جواب دے دیا ہے۔ اگر گورنر کے اختیارات کے بارے میں آئین میں کوئی دم ہوتا تو چودھری سرور ابھی گورنر ہائوس میں ہوتے۔ ویسے گورنر ہائوس اپنی تمام تر وسعت اور تاریخی پس منظر کے باوجود رہائشی اعتبار سے کوئی اعلیٰ عمارت بھی نہیں کہ ضمیر کو مار کر اس میں خوش رہا جا سکے۔ چودھری سرور کی گورنری کے دنوں میں برطانیہ سے لارڈ نذیر آئے اور گورنر ہائوس میں چودھری سرور کی میزبانی کا مزہ لینے کے لیے آن ٹھہرے۔ بقول لارڈ نذیر ان کے باتھ روم کی ٹونٹیوں میں پانی نہیں آتا تھا اور یہ مسئلہ کوئی تازہ نہیں بلکہ خاصا قدیم معلوم ہوتا تھا کیونکہ باتھ روم میں کافی ساری پانی کی بھری ہوئی بوتلوں سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ سارے عملے کو ان ٹونٹیوں کی خرابیوں کا علم تھا۔ مجھے تو کبھی گورنر ہائوس داخل ہونے کا موقعہ نہیں ملا مگر جنہوں نے یہ خستہ حال رہائش گاہ اندر سے دیکھی ہے ان کے بقول چھتیں ٹپکتی ہیں۔ دیواروں سے چونا جھڑتا رہتا ہے‘ دیواروں پر سیم ہے اور وسیع و عریض کمرے اپنی کہنگی اور خستگی کی کہانی باآواز بلند سناتے ہیں۔
ملک رفیق رجوانہ شریف آدمی ہیں۔ باقاعدہ ان معنوں میں شریف‘ جو لغت میں لکھے ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ بطور وکیل بھی شریف آدمی ہیں۔ جس طرح کبھی کبھار کسی ڈاکٹر سے مل کر احساس ہوتا ہے کہ مسیحا کس کو کہتے ہیں اسی طرح وکالت کے پیشے کی حرمت کا احساس ملک رفیق رجوانہ کو مل کر ہوتا ہے۔ میرا ملک رفیق رجوانہ سے دیرینہ تعلق ہے۔ طبیعت میں نرمی اور دھیما پن سب سے بڑی خوبی ہے۔ مشورہ مانگیں تو مشورہ دیں گے نہ مانگیں تو خاموش رہیں گے۔ آپ کی رائے سے متفق نہیں تو دیگر ملتانی سیاستدانوں کی طرح نہ تو سر ہلا کر تائید کریں گے اور نہ ہی داد کے ڈونگرے برسائیں گے۔ باقاعدہ اختلاف کریں گے لیکن نہایت دھیمے پن سے۔ اس دھیمے پن سے مراد یہ نہیں کہ اتنی آہستگی سے کہ کسی کے کان میں آواز ہی نہ جائے۔ دھیمے پن سے مراد شائستگی ہے۔ اختلاف کرتے ہوئے دلیل سے بات کرنی ہے مگر زور نہیں دیتے۔ ملتانی سیاستدانوں کی طبیعت اور رویے کو سامنے رکھیں تو غنیمت معلوم ہوتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ کئی معاملات پر سرکار سے میرا مطلب ہے میاں صاحبان سے اختلاف کیا (میاں صاحبان کے دور میں سرکار اور ان کی ذات ایک ہی چیز ہوتے ہیں) میٹرو کے مسئلے پر ملتان میں اس پروجیکٹ کے جو دو ایک مخالفین تھے ملک رفیق رجوانہ ان میں سے نہ صرف ایک تھے بلکہ سب سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ اپنا مؤقف پیش کرنے والے واحد مقامی سیاستدان تھے۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ جب دیکھا کہ میاں شہبازشریف اس پروجیکٹ سے دستکش ہونے والے نہیں تو پہلو بچا کر ایک طرف ہو گئے۔
ملک رفیق رجوانہ اختلاف کرتے ہیں‘ ضد نہیں کرتے۔ مؤقف بیان ضرور کرتے ہیں مگر اس پر اڑتے نہیں۔ مشورہ دیتے ضرور ہیں مگر اس پر اصرار نہیں کرتے۔ سچ بولتے ہیں مگر اس پر سٹینڈ نہیں لیتے۔ ممکن ہے آپ کو میری یہ باتیں پڑھ کر لگے کہ میں ملک رفیق رجوانہ کی تعریف کے بجائے تنقیص کر رہا ہوں مگر شاید آپ ملتان کی موجودہ سیاسی لاٹ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ جو جانتے ہیں وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ملتان میں ایسے شخص کا ہونا بھی غنیمت ہے جو آہستگی سے سہی مگر اختلاف کرے۔ جو شائستگی سے ہی سہی مگر اپنا ذاتی مؤقف بیان کرنے میں جھجک محسوس نہ کرے اور جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ مخاطب کیا چاہتا ہے‘ اسے اس کی توقع کے برخلاف مشورہ دے۔ ملک رفیق رجوانہ میں یہ خوبیاں تھیں۔ حالات اگر زیادہ ناموافق ہوں تو لڑائی جھگڑے کے بجائے خاموشی سے ایک طرف ہو جائیں گے مگر تادیر ضمیر کے خلاف مراعات پر گزارا نہ کریں گے۔ برسوں پہلے ایڈیشنل سیشن جج بنائے گئے مگر چند ماہ بعد استعفیٰ دے کر گھر آ گئے کہ تنخواہ میں گزارا مشکل تھا اور دوسرے ذرائع پر ان کا یقین نہیں تھا۔
گورنر کے پاس آخری اختیار یونیورسٹیوں کے چانسلر کی حیثیت سے وائس چانسلر صاحبان کی تقرری وغیرہ کا رہ گیا تھا مگر اٹھارہویں ترمیم کے بعد گورنر کا یہ اختیار بھی وزیراعلیٰ نے اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد گورنر ہائوس کے وسیع و عریض لان میں دھنیے کی کیاریوں کی تعداد میں اضافہ کردیا تاکہ گورنر کی طبیعت میں دھنیے کے کثرت استعمال سے مثبت اثرات مرتب ہوں۔
ملک رفیق رجوانہ کی ملتان شہر میں کمرشل ویلیو کی حامل شہری جائیداد ہے‘ وکالت کا چیمبر ہے جسے ان کی غیرموجودگی میں ان کا بیرسٹر بیٹا بخوبی چلا سکتا ہے۔ پیسے کی ریل پیل نہ بھی ہو تو ان کے گزارے کے لیے کافی سے زیادہ آمدنی ہے۔ جس طبیعت کے وہ آدمی ہیں ان کے لیے جائیداد سے حاصل ہونے والا کرایہ ہی ان کی ضرورت سے زیادہ سے زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود انہیں بطور گورنر تنخواہ لینے سے انکار نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس سے شدید قسم کی غلط فہمی پھیل سکتی ہے کہ وہ بغیر کام کیے معاوضہ لینے کے قائل نہیں۔ اگر معاملہ ایسا ہی ہے کہ وہ ایک نمائشی عہدے کا‘ جہاں کوئی کام نہیں ہے معاوضہ لینے کو ضمیر پر بوجھ سمجھتے ہیں تو پھر دوسری بات ہے وگرنہ ان کو اگر یہ خوش فہمی ہے کہ ان کی عطیہ کی گئی تنخواہ سے غریبوں کے کام سنور جائیں گے یا یہ پیسے مستحقین پر خرچ ہوں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ ان کی بچائی گئی تنخواہ سے کسی اور پروجیکٹ کے افتتاح پر دوچار کرسیاں مزید لگوائی جائیں گی یا ایک آدھ مزید اشتہار چھپوا دیا جائے گا۔ ایسے پروجیکٹ! جو سراسر گھاٹے کا سودا ہیں۔
ہاں چلتے چلے یاد آیا۔ ملک رفیق رجوانہ گورنر بننے سے قبل سینیٹر تھے۔ اس سے تو استعفیٰ دے دیا۔ وہ جنوبی پنجاب کو بااختیار بنانے والی حکومت پنجاب کی بنائی پانچ کمیٹیوں میں آخری بچ جانے والی ''سب کمیٹی برائے ایڈمنسٹریٹو میٹرز‘‘ کے کنوینر تھے اور جنوبی پنجاب میں ایک ''منی سیکرٹریٹ‘‘ کے تجویز کنندہ تھے۔ اب اس کمیٹی کا کیا بنے گا؟ کیا بطور گورنر وہ اب بھی اپنے مؤقف پر قائم ہیں یا ''سینیٹری‘‘ کی طرح اس کمیٹی اور اپنے مؤقف سے بھی مستعفی ہو چکے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں