مجھے یہ کہانی لفظ بہ لفظ تو یاد نہیں مگر اس کا مرکزی خیال اور کہانی کا بنیادی خاکہ پوری طرح ذہن میں ہے۔ یہ کہانی مرحوم شیر محمد خان المعروف ابن انشا نے اپنی کتاب ''اردو کی آخری کتاب‘‘ میں لکھی ہے۔ ابن انشا نے اپنی اس کتاب میں جہاں اور بہت سی دلچسپ چیزیں لکھی ہیں‘ وہیں انہوں نے ہمارے بچپن کی معروف کہانیوں کو نئی اور تبدیل شدہ شکل میں لکھ کر ایک نیا ذائقہ کشید کیا ہے۔ اس میں ایک کہانی ہے ''اتفاق میں برکت ہے‘‘ اس کی بھی نئی صورت ہے اور کیا خوب مزہ دیتی ہے۔ ابن انشا والی کہانی کچھ یوں ہے۔
ایک بڑے میاں تھے جنہوں نے زندگی میں بہت کچھ کمایا تھا‘ بیمار ہوگئے اور بچنے کی کوئی امید نہ رہی۔ ان کو دم رخصت اس بات کی بڑی فکر تھی کہ ان کے پانچ بیٹوں کی آپس میں بالکل نہیں بنتی تھی۔ گاڑھی چھننا تو ایک طرف پتلی بھی نہیں چھنتی تھی۔ ہر وقت آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ حالانکہ اتفاق میں بڑی برکت ہے مگر ان میں تو کبھی کسی بات پر بھی اتفاق نہ ہوتا تھا۔ مرتے وقت بڑے میاں کو صرف یہی فکر لاحق تھی کہ ان کے بعد ان کے بیٹوں کا کیا بنے گا؟ ہمہ وقت آپس میں برسرپیکار رہیں گے اور لڑتے مرتے رہیں گے۔ وقت آخر ان کو ایک ترکیب سوجھی جس سے وہ اپنے بیٹوں پر اتفاق میں برکت کی خوبیاں واضح کر سکتے تھے۔ کہنے لگے کہ میں اب کچھ لمحوں کا مہمان ہوں سب جا کر ایک ایک لکڑی لے آئو۔
ایک لڑکا بولا‘ اس وقت جبکہ آپ کا دم نکلا چاہتا ہے لکڑی کا کیا کریں گے؟ دوسرا کہنے لگا‘ بڑے میاں کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ شاید لکڑی کھانے کو دل کر رہا ہے۔ تیسرا کہنے لگا‘ شاید سردی لگ رہی ہے آگ جلانے کے لیے لکڑیاں منگوا رہے ہیں۔ چوتھا پوچھنے لگا‘ ابا جی! کوئلے لے آئوں؟۔ پانچویں کو نئی سوجھی اور کہنے لگا‘ اُپلے لے آتے ہیں۔ وہ زیادہ اچھا جلتے ہیں۔ باپ زچ ہو کر کہنے لگا۔ ارے بدبختو! جو میں کہہ رہا ہوں وہ کرو اور جنگل سے لکڑیاں لائو۔
ایک بیٹا کہنے لگا‘ بڑے میاں! یہاں جنگل کہاں ہے؟ اور محکمے والے بھلا لکڑیاں کیوں کاٹنے دیں گے؟ دوسرا بولا‘ ابا جی آپے میں نہیں ہیں۔ ہذیان بک رہے ہیں۔ تیسرا کہنے لگا‘ مجھے تو ان لکڑیوں والی بات ہی سمجھ نہیں آئی۔ چوتھا کہنے لگا‘ بڑے میاں نے زندگی میں کبھی کوئی خواہش نہیں کی۔ یہ شاید ان کی آخری خواہش ہے‘ اس کو تو پورا کرنا چاہیے۔ پانچواں کہنے لگا‘ اچھا میں قریبی ٹال سے لکڑیاں لاتا ہوں۔ وہ ٹال پر گیا اور ٹال والے سے کہا کہ پانچ لکڑیاں دے دو‘ اچھی کوالٹی کی ہوں اور مضبوط بھی۔
ٹال والے نے پانچ موٹی موٹی مضبوط لکڑیاں دیں جو وہ گھر لے آیا۔ باپ نے لکڑیاں دیکھیں تو بالکل حواس باختہ ہوگیا کہ اتنی مضبوط لکڑیوں سے اسے مقصد پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ خیر اب کیا کرتا؟ یہ بتانا بھی نہیں تھا کہ لکڑیاں کیوں منگوائی ہیں؟ بیٹوں سے کہنے لگا کہ اب ان لکڑیوں کا گٹھا بنائو۔ اب بیٹوں میں پھر پریشانی پھیل گئی۔ ایک کہنے لگا‘ گٹھا کیوں باندھیں؟ دوسرا کہنے لگا‘ اب نئی سنو۔ بھلا اب اس وقت رسی کہاں سے لائیں؟ تیسرا بولا‘ یہ بڈھا دم آخر بڑا تنگ کر رہا ہے۔ لوگوں کے باپ سکون سے دم دیتے ہیں‘ یہ نہ خود چین لے رہا ہے نہ ہمیں لینے دے رہا ہے۔ آخر ایک بیٹے نے اپنے پائجامے سے ازاربند نکالا اور لکڑیوں کا گٹھا باندھا۔ بڑے میاں کہنے لگے‘ اس گٹھے کو توڑو۔ اب نئی پریشانی شروع ہوگئی کہ اس گٹھے کو کیسے توڑیں؟ ایک بولا‘ بھئی کلہاڑا لائو۔ دوسرا کہنے لگا اب کلہاڑا کہاں سے لائیں؟ تیسرا بولا‘ بھئی یہ تو بہت ہی اُلٹی سیدھی فرمائشیں کر رہا ہے۔ چوتھا بولا‘ میرا تو اپنا دماغ خراب ہو رہا ہے کہ اب کلہاڑا تلاش کرو۔ بڑے میاں بولے‘ ارے بیوقوفو کلہاڑے سے نہیں‘ ہاتھوں سے یا گھٹنے پر رکھ کر توڑو۔
والدکی آخری خواہش سمجھتے ہوئے پانچوں نے چاروناچار اس گٹھے کو توڑنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ اتنی مضبوط لکڑیوں کے گٹھے کو ہاتھوں یا گھٹنے سے توڑنا ناممکن تھا۔ کافی تگ و دو کے بعد بیٹوں نے ناکامی کا اعلان کردیا۔ باپ کہنے لگا‘ اب ان لکڑیوں کو الگ الگ کردو‘ ان کی رسی کھول دو۔ جس بیٹے نے اپنا ازار بند نکال کردیا تھا‘ بھنا کر کہنے لگا۔ ابا جی! یہ رسی نہیں‘ میرا ازاربند ہے۔ اگر اس کو کھلوانا ہی تھا تو بندھوایا کیوں تھا؟ پھر کہنے لگا‘بھئی کسی کے پاس پینسل وغیرہ ہو تو مجھے دے تاکہ میں اپنے پائجامے میں ازاربند دوبارہ ڈالوں۔
باپ نے اب اپنی حکمت بھری نصیحت کو اختتام پر پہنچانے کی غرض سے کہا کہ اب ان لکڑیوں کو ایک ایک کرکے‘ الگ الگ توڑو۔ لکڑیاں چونکہ بہت موٹی اور مضبوط تھیں لہٰذا کسی سے بھی نہ ٹوٹیں۔ بڑے بھائی نے باپ کی آخری فرمائش کو پورا کرنے کی غرض سے لکڑی کو گھٹنے پر رکھ کر بہت زیادہ زور لگایا تو ایک تڑاخ کی آواز آئی۔
باپ نے نصیحت کرنے کے لیے بمشکل آنکھیں کھولیں تو کیا دیکھا کہ بڑا بیٹا بے ہوش ہوا پڑا ہے۔ لکڑی تو ٹھیک ٹھاک اور سالم پڑی تھی؛ البتہ بیٹے کے گھٹنے کی ہڈی ٹوٹی پڑی ہے۔ یہ تڑاخ کی آواز لکڑی کی نہیں‘ گھٹنے کے ٹوٹنے کی تھی۔ ایک لڑکا کہنے لگا‘ یہ بڈھا ہے ہی ازلی جاہل۔ دوسرا کہنے لگا‘ اڑیل اور ضدی۔ تیسرا کہنے لگا‘ عقل سے فارغ‘ سنکی اور گھامڑ۔ چوتھا کہنے لگا‘ یہ سارے بڈھے اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ مرتے ہوئے سکون سے مرنے کے بجائے لواحقین کو خوامخواہ تنگ کرتے ہیں۔ پانچواں کہنے لگا‘ بھلا یہ سکون سے مرتا کیوں نہیں؟ سکون سے مرنے میں آخر کیا حرج ہے؟
بڑے میاں نے مرتے ہوئے اطمینان کا سانس لیا کہ کم از کم ان نااتفاق بیٹوں میں کسی ایک بات پر تو اتفاق ہوا ہے۔ بڑے میاں نے سکون کی سانس لی اور نہایت اطمینان سے اپنی جان دے دی۔
قارئین! مجھے یقین ہے کہ آپ اس کہانی کو پڑھ کر بالکل اسی طرح محظوظ ہوئے ہوں گے جیسا میں ہوا تھا مگر مجھے یہ بھی یقین ہے کہ آپ پریشان بھی ضرور ہوئے ہوں گے کہ اس کہانی کو لکھنے کا آخر مقصد کیا تھا؟ اس طرح کی کہانی کو کالم میں لکھنے کا کیا تک ہے؟ دراصل مجھے یہ کہانی پچھلے دنوں سردار ایاز صادق کے الیکشن کمیشن کے لتے لینے پر یاد آئی ہے۔ پہلے عمران خان الیکشن کمیشن کو نااہل اور نالائق کہتا تھا۔ پھر اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کا بھی یہی مؤقف تھا کہ الیکشن کمیشن آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کروانے میں ناکام ہوا ہے اور اس میں اس کام کی نہ صلاحیت ہے اور نہ ہی اہلیت۔ پیپلزپارٹی‘ مولانا فضل الرحمن‘ اے این پی اور دیگر ساری جماعتیں‘ علاوہ مسلم لیگ ن کے‘ کہتی تھیں کہ الیکشن کمیشن کے زیرسرپرستی دھاندلی ہوئی ہے اور سارا الیکشن ہی مشکوک ہے۔ عمران خان نے اس نااہلی اور دھاندلی کے خلاف
دھرنا دیا۔ جوڈیشل کمیشن بنا۔ کمیشن نے بھی مختلف قسم کی نالائقیوں کا ذکر کرتے ہوئے منظم دھاندلی کو تو تسلیم نہ کیا مگر کئی کوتاہیوں کے بارے میں نشاندہی کرتے ہوئے کیس ٹھپ کردیا۔ کمیشن کے اس فیصلے کو سب نے عموماً اور عمران خان نے خصوصاً بادل نخواستہ ہی تسلیم کیا ۔ عدالتی کمیشن کے فیصلے بارے تمام تر تحفظات کے باوجود ایک خوش آئند بات تھی کہ سب نے اس پر خاموشی اختیار کی تاکہ عدالتیں اور کمیشن بالکل ہی بے توقیر نہ ہو جائیں۔ اب حکمران پارٹی کے نمائندے اور قومی اسمبلی میں حکمران پارٹی اور اتحادیوں کے ووٹوں سے دوسری بار منتخب ہونے والے سپیکر سردار ایاز صادق بھی دیگر تمام اپوزیشن جماعتوں کی طرح فرما رہے ہیں کہ ''الیکشن کمیشن دھمکی کی زبان سمجھتا ہے‘ نااہلی پر اب خود مار کھائے گا۔‘‘ اب صورتحال یہ ہے کہ اپوزیشن اور حکمران پارٹی الیکشن کمیشن کے معاملے میں ایک پیج پر ہیں اور ان میں کم از کم کسی ایک بات پر تو اتفاق پیدا ہوا ہے۔
گزشتہ اڑھائی پونے تین سال سے اپوزیشن اور حکمران پارٹی میں‘ عمران خان میں اور مسلم لیگ ن میں کسی بھی بات پر اتفاق نہیں ہوا مگر بڑے میاں کے بیٹوں کی طرح بالآخر کسی ایک بات پر اتفاق ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر پا رہا۔ بقول چوہدری بھکن! اس اجماع امت کے بعد الیکشن کمیشن کو از خود گھر چلے جانے کے بارے میں سوچنا چاہیے؛ تاہم چوہدری نے اپنی اس بات کی خود نفی کردی ہے کہ اس کا کہنا ہے اس ملک میں اگر کسی کو ''اعزازی پٹواری‘‘ بنا دیا جائے تو وہ گھر جانے کے بجائے عدالت چلا جائے گا‘ یہ تو بڑے عہدوں کا معاملہ ہے۔ الیکشن کمیشن گھر جائے یا نہ جائے‘ یہ ہم عام لوگوں کی سردردی نہیں ہے؛ تاہم بڑے میاں کی طرح ہمیں ایک اطمینان ضرور ہوا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کا کسی ایک ایشو پر تو قومی اتفاق رائے پیدا ہوا ہے۔